عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

اِسی بند کمرے میں تو میں نے ا سے پایا ہے ۔تمہیں پتا ہے وہ مجھ میں رہتا ہے میرے اندر رہتا ہے ۔ مجھ سے باتیں کرتا ہے ۔ میرے ساتھ ہنستاہے روتا ہے ، جاگتا سوتا ہے ۔ وہ مجھ میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا تمہیں بھی دکھ رہا ہے وہ ، بتا ؟

بتا ناں۔

وہ بچوں کی طرح عائلہ کے ہاتھ جھٹک جھٹک کے پوچھ رہی تھیں ۔ عائلہ کے پاس ا ن کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا ۔ وہ خاموشی سے ان کا نحیف چہرہ دیکھ رہی تھی۔

سنو ! اس کی آواز سنو ۔ وہ میرے اندر ہے ۔ اس کی آواز آرہی ہے تمہیں ؟

وہ بول رہا ہے۔می رقصمہاں!

می رقصم 

سنو ….

ٹوٹے پھوٹے لفظ ، وحشت زدہ چہرہ ، بکھرے بال ، سیاہ لباس۔ آج عائلہ کو ان سے خوف نہیں بلکہ ترس آرہا تھا ۔ کتنے خوبصورت انسان، زمانے ، معاشرے ، روایات اورلوگ کیا کہیں گےکی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ 

کیا روایات اور اصول ، انسانی زندگی اور خوشی سے بڑھ کے ہیں ؟

اپنے خیالوں میں گم عائلہ چونکی ۔ آبگینے جانے کب ا ٹھ کے جا چکی تھیں ۔ عائلہ نے ا ن کی تلاش میں نظر دوڑائی ۔ 

سامنے سفید سنگ ِ مر مر کی روش پہ وہ کچھ گنگناتی ، گول دائروں کی صورت گھوم رہی تھیں ۔ 

ایسے کے ان کا ایک ہاتھ ہوا میں معلق تھا، جیسے ا نہوں نے کوئی رسی تھام رکھی ہو اور دوسرا ہاتھ پھیلا ہوا تھا ۔



عائلہ نے کوشش کی کے سن سکے وہ کیا گنگنا رہی تھیں۔ 

فارسی کے کچھ میٹھے گہرے لفظ اس کی سماعت تک پہنچے وہ حیران رہ گئی ۔ 

کیا بند کمرے میں آبگینے نے علم حاصل کیا تھا ؟ 

یا ادب پڑھا تھا ؟

کیسے شیخ عثمان مروندی کے یہ خوبصورت الفاظ اُنہیں ازبر تھے ؟ اسے یاد تھا اُنہیں ادب سے کبھی شغف نہ رہا تھا اور اب وہ اشعار گنگنا رہی تھیں ۔ کیا ادب کا عشق سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی بھی بے ادب عاشق کو با ادب کر دیتی ہے ؟ 

وہ گنگنا رہی تھیں اور گول دائروں میں گھوم رہی تھیں ۔ 

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم 

مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم 

تو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی 

من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم 



بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں 

بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم 

می رقصم ….

می رقصم ….

می رقصم ….

می رقصم کہتی ان کی آواز بلند اور گھومنا تیز ہوتا گیا ۔ اتنا تیز کے اب عائلہ کو لگنے لگا انہوں نے سچ میں کوئی ان دیکھی رسی تھام رکھی ہے جس کے سہارے وہ اتنا تیز گھوم رہی تھیں ۔ 

دوپٹا کب کا گر چکا تھا ۔لمبے روکھے بکھرے بال چہرہ ڈھانپ رہے تھے ۔ ان کے عین اوپر پورے چاند کی روشنی اور پیچھے چاندنی میں نہائی ویران سفید حویلی ۔ عائلہ کو یہ سب بہت پراسرار سا لگا۔

اس کی نظریں سفید سنگِ مرمر پہ تیزی سے حرکت کرتے ا ن کے پیروں پہ گئیں۔

خوف کی ایک شدید لہر ا س کے وجود میں سرایت کر گئی ۔ ا سے لگا جیسے آبگینے کے پیروں کے ساتھ دو اور بھی پیر محوِ رقص تھے ۔ خوف زدہ نگاہیں ا ن کے وجود پہ گئیں ۔ ادھر بھی آبگینے سید کے سیاہ پیراہن کے ساتھ کسی کے سفید پیراہن کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی تھی ۔

 ایک ہاتھ کی جگہ اب دو ہاتھ ا س ان دیکھی رسی کو تھامے ہوئے تھے۔



پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتی عائلہ ڈگمگاتے قدموں سے بہ مشکل حویلی کی طرف بھاگی۔ حواس باختہ سی مسہری پہ ڈھیر ہوتے ہوئے ، اس نے سر تا پا خود کو کمبل میں چھپا لیا ۔ تھر تھر کانپتے ، وہ جلد صبح ہونے کی دعائیں مانگنے لگی۔ وہ رات کافی بھاری گزری تھی۔

اگر ا سے ذرہ برابر بھی اندازہ ہوتا وہ ایسا منظر کبھی بھی دیکھے گی ، وہ مر جاتی مگر ا س حویلی میں کبھی یوں اکیلی نہ رہتی۔ اب بھی کل رات کے اس ہول ناک منظر کو یاد کرتے، ا س کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔ عائلہ نے بے ساختہ جھرجھری لی تھی ۔

ان دوسالوں کی روداد ا س کی نظروں کے سامنے کسی فلم ہی کی طرح تو دوڑ گئی تھی ۔ 

ہاتھ میں وہ بے وزن غزل تھامے، ماضی کھنگالتے ، ا سے جانے کتنی دیر ہو گئی تھی کہ دوپہر کا چلچلاتا سورج الوداع کہتا ، غروب ہونے کو تیار کھڑا تھا۔

عائلہ نے کاغذ واپس کتاب میں رکھا اور مغرب کے لیے وضو کرنے چلی گئی ۔ 

ابھی مکمل وضو بھی نہ کیا تھا کہ اذان شروع ہو گئی ۔ 

اشہد و انا لا الہ الااللہ و اشہد و انامحمد۔

چہرے کے گرد انگلیاں مس کرتے ہوئے، اس کی زبان نے اتنا ہی کہا تھا کہاللہ اکبرکہتی آواز نے اس کے وجود کو پتھر کا بنا دیا۔ وہ حیران نگاہوں سے اپنے ہی خالی چہرے کو سامنے لگے وسیع آئینے میں تک رہی تھی ۔

اشہد و انا لا الہ الااللہ۔

یہ شہادت دیتی آواز بے شکاسکی تھی ، اس کے دل نے بھی شہادت دی ۔ 



عائلہ سب چھوڑ چھاڑ اپنے کمرے سے منسلک ٹیرس کی طرف بھاگی ۔ 

فلاح کی دعوت اب اور بھی زیادہ قریب سے سنائی دینے لگی ۔ 

حی علی الصلاح

عائلہ کی روئی روئی تھکاوٹ سے چور آنکھیں اب کے شکرانے کے آنسو بہا رہی تھیں ۔ 

حی علی الفلاح

وہ وہیں ٹیرس میں سجدہ میں گر چکی تھی ۔

اللہ اکبر ، اللہ اکبر

بے شک اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، بے شک وہ ہی زبردست اور ہر شے پہ قابو پانے والا ہے۔

عائلہ کے ہونٹوں نے وہیں سجدے میں ہی سرگوشی کی تھی ۔

لا الہ الا اللہ….“

اذان مکملہوگئی اور ہر سو عالم ِ ہو چھا گیا ۔ 

عائلہ عجلت میں سجدے سے اٹھی اور دیوانہ وار ٹیرس سے نیچے دیکھنے لگی ۔

اسے پتا تھا کہ ا س کے ٹیرس سے صرف ان کے گھر کے پیچھے واقع غیر آباد سنسان پلاٹس ہی دکھنے تھے ۔ پھر بھی ا س نے کوشش کی کہ شاید ، اس کی ایک جھلک دکھ جائے۔



اس کی ؟

اس کی کہ جس نے صرف عائلہ کی سماعت تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے ان کے علاقے کی مسجد میں اذان دی تھی۔

اس کی کہ جس کی یاد کا چراغاں عائلہ کے گرد ہر لمحے رہتا ہے ۔

اس کی کہ جس کی آواز سے عشق پہلے اور خود اس سے بعد میں ہوا تھا ۔

اس کی، یعنیعبداللہکی ۔ 

عائلہ کے عبداللہ کی۔ 

عبداللہ کا سفر۔

ماہا!“

جائے نماز پہ بیٹھی صغریٰ بیگم کی آواز پہ ، دبلی پتلی سی ماہا تقریباً بھاگتے ہوئے ، مختصر سے صحن کے بیچ رکھے تخت تک آئی تھی ۔ جہاں صغریٰ بیگم عشا کے بعد سے اب تک جائے نماز بچھائے بیٹھیں تھیں۔

فجر ہونے میں تھوڑی دیر باقی تھی ، مگر صغریٰ بیگم کی آنکھوں سے بہتے آنسو اور لبوں پہ سسکتی دعاں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔

جی امی ۔

بوکھلائی ہوئی، بیس سالہ ماہا نے امی کے چہرے کو فکر سے تکتے ہوئے پوچھا ۔

کوئی خبر نہیں آئی اس کی ؟

امی جو سینکڑوں بار اس سے یہی سوال پوچھ چکی تھیں ۔ ایک دفعہ پھر سے پوچھتی ، امید بھری نظروں سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔

 



Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!