عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

نہیں تو ایسا تو کچھ بھی نہیں ، تم فضول میں فکر کر رہی ہو ۔ اصل میں میری ہی ضد تھی یہاں تمہارے ساتھ آ کے پڑ ھنے کی تبھی بابا کو مجبور ہوکے مجھے بھیجنا پڑا ۔ آپس کی بات یہ ہے کہ اصل میں معید لا لا چاہتے تھے کہ میں ان کی دلہن کے ساتھ رہوں تا کہ وہ نا لائق جلدی سے پڑھ لکھ جائے اور لالا کی شادی ہو جائے ۔

لہجے میں زبردستی شرارت کی رمق بھرتے عائلہ نے بات مکمل کی ۔



کچھ مطمئن نظر آتی شانزے نے اس کے تاثرات جانچتے ہوئے پھر سے پوچھا۔

سچ کہہ رہی ہو نا عائلہ ؟

بالکل سچ !“عائلہ نے یقین دہانی کرائی ۔

اچھا چلو باہر چلتے ہیں ، پچھلے صحن میں جھولا جھولیں ؟

عائلہ نے بات بدلنے کو کہا اور اس میں کامیاب بھی رہی ۔ اگلے پل ماہ پری کو چائے کا کہتی وہ شانزے کو ساتھ لیے پچھلے صحن کی طرف بڑھ گئی ۔

جھولے پہ بیٹھی شانزے اور اخروٹ کے درخت سے ٹیک لگا کے کھڑی عائلہ ، ہاتھوں میں چائے کے کپ تھامے ، کسی پرانی شرارت کو یاد کر کے کھلکھلا رہیں تھیں۔ 

فروری کی ٹھنڈی دھوپ شام کا لبادہ اوڑھ رہی تھی۔ جب اُنہیں لگا کسی نے اُنہیں آواز دی ہو۔

اِدھراُدھر دیکھتے ہوئے دونوں نے تسلی کی کہ کوئی نہیں اور پھر سے خوش گپیوں میں مشغول ہوگئیں۔

ہِش ہِششش ….“دونوں چونکیں ۔ کوئی انہیں متوجہ کر رہا تھا ۔ 

محتاط نظروں سے اپنے گرددیکھتی عائلہ کی نظر ، حویلی کے دریچوں پہ گئی ۔



دریچے میں کھڑا ہیولا بلا شبہ آبگینے سید کا تھا جو انہیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی تھیں ۔ 

عائلہ اور شانزے نے تھوڑی دیر بے یقینی سے انہیں دیکھا ، پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں فیصلہ کرتیں ، دریچے کی جانب بڑھ گئیں ۔ 

ابھی دونوں دریچے کے قریب پہنچی ہی تھیں کہ آبگینے سید ہذیانی انداز میں ہنسنے لگیں۔ شانزے نے خوف زدہ نگاہوں سے عائلہ کو دیکھا ۔ عائلہ نے ہمت کرتے ہوئے دھیرے سے اُنہیں پکارا :

اماں کاکی!“

وہ ہنستے ہنستے چونکیں ، نظریں نیچے زمیں پہ مرکوز تھیں ۔ چہرے پہ گزرا وقت د گنا ہو کے سلوٹیں چھوڑ گیا تھا۔ تیکھے حسین نقش وحشت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ خوبصورت کالے بال جو کمر تک آتے تھے ، روکھے اور بے جان سے چہرے پہ بکھرے ہوئے تھے ۔ ا ن میں چاندی کی آمیزش اُنہیں مزید پراسرار بنا رہی تھی ۔ 



اندر کی طرف دھنسی حلقوں میں لپٹی کالی آنکھیں ، جو کبھی بے حد حسین ہوتی تھیں ، ا ٹھیں تو ا ن میں وحشت کا پورا جہاں آباد تھا۔ ان کی انگاروں جیسی لال آنکھیں عائلہ پہ ٹک گئیں۔ عائلہ کو اپنا سارا وجود جھلستا ہوا محسوس ہوا۔

شانزے کبھی آبگینے کو توکبھی عائلہ کو دیکھتی۔

آبگینے عائلہ کو دیکھتے ہوئے سرگوشی میں کچھ بڑبڑانے لگیں ۔ شانزے اور عائلہ دریچے کے تھوڑا مزید قریب ہوئیں تاکہ ا ن کی سرگوشی سمجھ سکیں ۔ پر ہر کوشش نا کام رہی کہ آہستہ آہستہ آبگینے سید کی بڑبڑاہٹ سرگوشی سے آواز میں ڈھلنے لگی ۔ ان کی نظریں اب بھی عائلہ پہ ٹکی تھیں ۔ 

تم باغی ہو…. تم بھی باغی ہو ۔ بغاوت تمہارا بھی نصیب ہے۔

الفاظ تھے کہ زلزلہ ؟



عائلہ پھٹی پھٹی آنکھوں اور زرد چہرے سے ان کی طرف دیکھتی دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔

عائلہ کو یوں ڈرتا دیکھ وہ دوبارہ سے ہذیانی قہقہے لگانے لگیں ۔ اچانک ہنستے ہنستے رکیں۔ اب کے بولیں تو لہجہ اتنا ٹوٹا ہوا تھا کہ ا س کا کرب عائلہ اور شانزے اپنے دل میں محسوس کر سکتی تھیں ۔

ذات نہ دیکھ جھلیے ذات کی کیا اوقات ؟ عشق دیکھ ، دل دیکھ ، روح دیکھ ۔ روایات کی زنجیر توڑ عشق کر ، عشق کر ، بس عشق کر ۔ باقی سب چھوڑ ، باقی سب مٹی ۔ صرف اپنی چاہ دیکھ ۔ عشق کوچاہبنا ،لانہ بنا مجھ جیسی ہوجائے گی۔ باقی سب چھوڑ ، عشق کر عشق ، عشق کر عشق ، عشق کر عشق ۔

اب وہ رو رہی تھیں ۔ سسکتے ہوئے دہرا رہی تھیں ۔عشق کر عشق۔

سسکیاں آہوں میں بدلیں اور آہیں جانے کب چیخوں میں ۔

وہ چیختی ہوئیں دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھیں اور بار بار عائلہ کی طرف دیکھ کے کہتیں۔

عشق کر عشق۔دریچے پہ سر پٹختیں اور پھر عائلہ کی طرف دیکھ کے کہتیں:

عشق کر عشق۔

عائلہ کو اپنے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑتے محسوس ہوئے۔ ہکا بکا کھڑی شانزے ششدر تھی کہ کیا کرے ۔ ان سارے بیتے سالوں میں جب سے آبگینے سید گوشہ نشین ہوئی تھیں ، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ شانزے نے اُنہیں دیکھا تھا ۔ صدمہ اتنا گہرا تھا کہ وہ خود نہ سنبھل پائی تھی عائلہ کو کیا سنبھالتی ۔



پر وہ عائلہ سے یہ سب کیوں کہہ رہی تھیں، ا س نے سوچا ۔ عائلہ کا خیال آتے ہی وہ اُس کی طرف پلٹی ۔ پر عائلہ تو جانے کب بے سدھ ہو کے زمین پہ گر چکی تھی ۔ 

گاں میں رہتے اسے ایک سال ہونے والا تھا ۔ وقت تھا کے پر لگا کے ا ڑے جا رہا تھا۔ وقت ویسے بھی کہاں رکتا ہے اور کس کے لیے رکتا ہے ۔وقت تو وہ سر پھرا باز ہے جو جب اڑان بھرتا ہے، تو مڑ کے نہیں دیکھتا ، روز نئی منزلیں سر کرتا ہے ۔ 

آبگینے کی باتوں کا اثر زائل ہوتے مہینےلگ گئے تھے ۔ ا س دن ہوش میں آنے کے بعد کئی دن عائلہ بخار میں پھنکتی رہی۔ شانزے اور چچی ، اس کی مکمل صحت یابی تک ا س کے ساتھ رہیں ۔ عائلہ کو بخار نے تو چھوڑ دیا، مگر آبگینے کی باتوں کا آسیب ا س کے ذہن و دل پہ چھا گیا ۔ وہ بہت کوشش کرتی اپنا ذہن بٹانے کو، یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ، باغیچے پہ توجہ دینے لگی ، حویلی کی تفصیلی صفائی کرائی ، ماہ پری سے اپنے بچپن کے قصے سنتی ، اپنی واحد سہیلی شانزے کے ساتھ وقت گزارتی ، پر ….آبگینے سید کے الفاظ اس کے ذہن سے نہ جاتے۔



اکثر عبداللہ کا تصور اور آبگینے سید کے لفظوں کا تال میل ا سے اچھا لگنے لگتا ۔ وہ عبداللہ کو سوچتی تو کانوں میں ان کی آواز گونجتی :

ذات نہ دیکھ جھلیے بس عشق کر عشق۔

اس کا دل ہر ذات پات کے فرق کو بھلا دیتا ۔ نہ بابا یاد آتے ، نہ معید لالا سے کیا وعدہ ، نہ اماں کی تربیت پہ لگنے والی تہمتوں کا خیال آتا ، نہ اپنی زندگی کا۔

اس کا دل بغاوت پہ ہمکنے لگتا ۔ وہ سر جھٹکتی، استغفار پڑھتی ، پر کانوں میں گونجتی آواز خاموش نہ ہوتی ۔

چاہ نہ چھوڑ ، مجھ جیسی ہو جائے گی۔



عائلہ بے ساختہ کانوں پہ ہاتھ رکھ دیتی ، آوازمزید گونجتی :

ذات نہ دیکھ جھلیے ، ذات کی کیا اوقات ؟

عائلہ کتاب کھول لیتی ۔ کتاب کے سارے لفظ مٹ جاتے ، صرف ایک سطر لکھی دکھائی دیتی :

تم بھی باغی ہو۔

وہ کتاب بند کر کے وضو کرنے چلی جاتی ۔ آواز اب بھی آتی ۔ 

دل دیکھ ،روح دیکھ ، عشق دیکھ۔

شہادت پڑھتی، آواز بلند کر دیتی تو کانوں میں گونجتی آواز بھی بلند ہو جاتی :

باقی سب چھوڑ ، باقی سب مٹی ، بس عشق کر عشق۔

عائلہ کانوں پہ ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتی ۔ یہ کیا روگ لگا دیا مولا ۔ مشکل سے تو میرے دل ِ بے قرار کو صبر آیا اور میں نے خود کو آمادہ کیا تھاعبداللہکو بھلا دینے پہ لیکن یہ کون سا آسیب چمٹ گیا مجھ سے ؟

وہ روتی اور سوچتی جاتی کیا کرے ۔

اس کا دل تو خاموش جھیل کی طرح پر سکون ہو چکا تھا جس کے بیچوں بیچ ایک ننھے سے جزیرے پہ اپنی محبت کی قبر بنا ، ا س کے کتبے پہ وجہِ موتذات پاتجلی حروف میں رقم کر چکی تھی ۔ ہر شام کچھ دیر ا س قبر پہ گزارتی ۔ یادوں کے کچھ پھول نچھاور کرتی ، نارسائی کے آنسو بہاتی اور لوٹ آتی۔



مگر آبگینے سید سے اس کی ملاقات نے تواس کی دنیا ہی بدل دی ۔ دل کے پر سکون جھیل میں سمندر سا تلاتم برپا ہوا اور محبت کے جزیرے کو بہا لے گیا ۔ قبر سے آزاد ہوئی محبت ، کسی بد روح کی طرح اس کے گرد ، دائروں میں چکر کاٹتی رہتی ۔

کافی عرصہ ا س نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس آسیب سے بچ نکلے، مگر آخرکار وہ اس آسیب کے شکنجے میں پھنس ہی گئی ۔ پورے ایک سال بعد ا س نے قبول کیا تھا کہ وہ سچ مچ باغی ہے ۔ 

اس کی روح تو شاید بچپن ہی سے باغی ہے ۔ بس وجود ہی ہے جو کٹھ پتلی کی طرح روایات، ذات پات اور خود کو عظیم تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔

 کیا کبھی باغی روح اور مقید وجود والے لوگ دیکھے ہیں کسی نے ؟

ہمارے ارد گرد اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محفلوں میں یا تنہائی میں خاموش ہی رہتے ہیں ۔ جن کے چہروں پہ زردی ملی اداسی اور آنکھوں میں اشکوں کی چمک واضح ہوتی ہے ۔ لباس ملگجے اور شخصیت سوگوار رہتی ہے ۔ لہجے شیریں مگر الفاظ تلخ ہوتے ہیں۔

انہی لوگوں میں بلا کا ٹھہرابھی ہوتا ہے۔ اگر آپ کی نظر ایک دفعہ ان پہ پڑھ جائے تو اِ س مقفل خزانے کو کھولنے کا احساس اس قدر مچلے گا کہ آپ خود ا ن کے گرد منڈلانے پہ مجبور ہو جائیں گے۔ پر وہ پھر بھی خود میں گم صم رہتے ہیں ۔ کیوں کہ ایسی باغی روحیں اپنے اندر اس قدر بلا کا طوفان برپا رکھتی ہیں کہ اُنہیں اپنے گرد رہنے والوں کا خیال ہی نہیں آتا ۔ 



بس روح اور وجود کے بیچ کی جنگ میں ان کی شخصیت کھو سی جاتی ہے۔

عائلہ بھی کھونے لگی تھی ۔ سجنا سنورنا ، پہننا ، اوڑھنا ، سب بھول سیاہ سلوٹ زدہ قمیص شلوار پہنے رکھتی۔ زیور کے نام پہ وہ واحد ہیرا اس کی چھوٹی سی ناک میں چمکتا رہتا۔ چمکدار بھورے بال ڈھیلی سی چوٹی میں گندھے نظر آتے ۔ تعلیم میں بھی اس لیے دل چسپی باقی تھی کہ اردو ادب سے لگاباقی تھا ۔

چچی اس کی حالت دیکھ، ہولتیں رہتیں ، جب کے شانزے روز کوئی نیا مشغلہ ڈھونڈ ، حویلی آدھمکتی۔ پر جب عائلہ کا دل ہی اُ ٹھ گیا تھا، تو یہ سب بے کار ہی جانا تھااور گیا بھی ۔



چچی نے کھانے پہ بہت اہتمام کیا تھا ۔ عائلہ بار بار شرمندہ سی کہتی :

اتنے تکلف کی کیا ضرورت تھی چچی ، بس آپ کے ہاتھ کیخروتہی کافی تھی۔

خروت بلوچستان کی مشہور سوغات تھی ۔ سردیوں میں دودھ سے پنیر بنا کے ا سے ململ کے کپڑے میں ڈال کے کسی ٹھنڈی سایہ دار جگہ پہ لٹکا دیا جاتا ۔ جب پنیر کا سارا پانی نکل جاتا، تو ا س کے چھوٹے چھوٹے پیڑے بنا کے سکھالیے جاتے ہیں۔ جنہیں پھر سالن بنانے کے وقت گرم کھولتے پانی میں بھگو کے پیسا جاتا اور انہی کا سالن بنایا جاتا ۔ بلوچستان کی اس سوغات کے چرچے دور دور تک ہیں ۔

عائلہ کو بھی خروت بہت پسند تھا ۔ تبھی چچی نے خاص طور پہ اس کے لیے بنایا تھا ۔ خوب خوشگوار ماحول میں کھانا کھا یا گیا اور پھر میٹھا ۔ 

طعام سے فراغت کے بعد چچی دسترخوان سمیٹوانے لگیں ۔ جب کہ شانزے اور علیزے نے باغ میں پردے کا انتظام کرایا اور عائلہ کو ساتھ لیے باغ کی سیر کو نکلیں۔ اوائل ِ اپریل کے دن تھے ۔ جب اس کے گاں کی دھوپ گرم اور چھاں سرد ہوتی ہے۔ باغ اب بھی پہلے جیسا تھا ۔ خوبصورت، تر وتازہ ، رنگ و خوشبو سے سجا ہوا ۔ شانزے اور علیزے اس کے ساتھ چلتے چلتے تھک گئیں تو جھرنے کے کنارے بیٹھ گئیں ۔ جھرنے کے ٹھنڈے میٹھے پانی میں پیر ڈالنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ عائلہ کا بھی دل چاہا کے ا ن کا ساتھ دے پر اسے چیری کے درختوں تک جانا تھا ۔ 

ابھی تو صرف بادام اور خوبانی کے درختوں کو ہی دیکھ پائی تھی ۔ پر باغ میں ہوا کے ہر آتے جاتے جھونکے سے چیری کی خوشبو آ رہی تھی ۔ ا س نے حویلی کے صحن میں ڈھیروں گلابی پھول بکھرے دیکھے تھے ۔ یہی گلابی پھول تو وہ خود پہ بکھرتے پھر سے محسوس کرناچا ہتی تھی ۔ 



خیالوں کے جہاں میں گم ، وہ تب چونکی جب اس کے پیر گلابی پھولوں کی دبیز چادر پر پڑے ۔

جھکی پلکیں اٹھی تھیں۔ سامنے ڈھیروں قطار سے لگے چیری کے درخت جو گلابی پھولوں کے پیرہن اوڑھے ، شان سے کھڑے اسی کے منتظر تھے ۔ ایک گہری سانس لے کے اپنے ارد گرد پھیلی روح تک کو تروتازہ کر دینے والی خوشبو ا س نے اپنے اندر اتاری ۔ اپنے پیروں کو سلیپر کی قید سے آزاد کرتے اگلے پل وہ درختوں کے نیچے بچھی پھولوں کی نشست پہ جا بیٹھی ۔ کیا اس سے بڑھ کہ کوئی حسیں منظر ہو سکتا ہے ؟ درخت کے خوشبودار تنے پہ سر ٹکاتے ا س نے سوچا تھا ۔ 



ہوا کے ٹھنڈے جھونکے اس کے چہرے پہ آتی بھوری لٹوں کو تھوڑا اور چھیڑ رہے تھے۔ جانے کتنے پھول جھڑ کے عائلہ پہ بکھرے تھے ۔ وہ کھلکھلا کے ہنس دی ۔ 

دور پردے کا انتظام دیکھتا میر شاہ زین سید چونکا تھا ۔ یہ کس کی ہنسی تھی ؟ اسے تجسس ہوا ۔

ہنسی کی آواز کے سمت قدم بڑھاتے شاہ زین کو سامنے چیری کے درختوں کے نیچے بیٹھی عائلہ نظر آ گئی ۔ ا س کی پشت ہونے کی وجہ سے وہ پہچان گیا تھا کہ یہ علیزے یا شانزے نہیں ہو سکتیں کیوں کہ مقابل کے بال بے حد لمبے اور دھوپ میں سونے کی طرح چمک رہے تھے ۔



جب سے وہ لوگ اس حویلی میں منتقل ہوئے تھے اس نے کبھی عائلہ کو نہ دیکھا تھا ۔ وہ شانزے کی ہم عمر تھی اور شاہ زین سے دو سال بڑی ۔ بچپن میں ساتھ پلے بڑھے تھے ، تجسس نے پھر انگڑائی لی اور دل اس کا چہرہ دیکھنے کو مچلا ۔ شاہ زین نہایت احتیاط سے دبے قدموں چلتا درختوں کی اوٹھ میں ہو گیا ۔ اب وہ عائلہ کو دیکھ سکتا تھا گو سامنے سے نہیں….

سفید لباس میں ملبوس ، درخت کے تنے پہ سر ٹکائے آنکھیں موندے وہ جانے کیا سوچے مُسکرا رہی تھی ۔ گلابی رنگ پہ اڑتے سونے جیسے بال اس کے چہرے کو یونانی حسن کی رمق بخش رہے تھے اس کی ناک کا چمکتا نگینہ اور لمبی پلکیں حسن کو کامل کر رہی تھیں ۔ دودھیا پیر گلابی پھولوں پہ ٹکے اتنے چمک رہے تھے کہ جیسے پھولوں پہ ہی رکھنے کو تخلیق کیے گئے ہوں اور ہاتھ گھٹنوں کے گرد لپٹے نور کا ہالہ سا بنا رہے تھے۔

کیا یہ وہی عام سی عائلہ تھی جس کے ساتھ اس کا سارا بچپن گزرا تھا ؟ وہ اور معید لالا مل کے اسے کتنا ستاتے تھے ۔ موقع ملنے پہ وہ بھی شاہ زین کو ایک دو جڑ کے اپنے بڑے ہونے کا رعب جماتی ۔ کچھ تو خاص ہے اس عائلہ میں کچھ نیا۔ اتنا مسحور کن حسن ، اتنا کامل منظر ۔ ا س کے دل کی دھڑکن بڑی تھی کہ ہوا چلی اور عائلہ پہ پھول برسا گئی ۔ اب کے پھر سے وہ کھلکھلائی اور یونہی آنکھیں موندے بیٹھی رہی۔ کئی پھول ا س کے گود میں گرے اور کئی بالوں میں اُلجھ چکےتھے۔

شاہ زین اس کی ہنسی کے زیر ِ اثر بت بنا سانس روکے درختوں کی اوٹھ سے ا سے دیکھ رہا تھا ۔ ا س کا دل چاہا کہ پھر سے ہوا چلے اور چیری کے پھول ا س پیاری سی لڑکی کو گدگدائیں، مگر ہوا تھی کہ نخرے دکھا نے لگی ۔ نہ ہوا چلی نہ وہ کھلکھلائی ۔ 



شاہ زین کو خیال آیا کیوں نہ درخت کو ہلکا سا جھٹکے اور اس پہ پھول برس جائیں۔ اس خیال کا آنا تھا کہ وہ درخت کے پاس گیا جس سے ٹیک لگائے عائلہ بیٹھی تھی ۔ درخت کی اوٹھ میں کھڑے ، اس نے کچھ شاخوں کو پکڑ کے دھیرے سے جھٹکا۔ گلابی پھول عائلہ پہ بکھرے تھے ۔ کچھ پھول پیشانی، رخسار اور ہونٹوں کو چھو کے نیچے گرے تھے۔

عائلہ کی ہنسی بے ساختہ تھی ۔ موندی آنکھوں سے کھلکھلاتی وہ بے حد دلکش لگی تھی ۔ شاہ زین کے دل نے اسے مزید مجبور کیا۔ دوبارہ شاخیں جھٹکتے ، اس نے عائلہ پہ گلابی پھولوں کی بارش کی تھی ۔ 



اب کے عائلہ چونکی ۔ ا س نے آنکھیں کھولیں تو ا س کی نظر درخت کی اوٹھ سے خود کو دیکھتے شاہ زین پہ پڑی ۔ بجلی کی سی تیزی سے سیدھے ہوتے ا س نے اپنا دوپٹا درست کیا اور نقاب کے انداز میں آدھا چہرہ ڈھکا تھا ۔ عجلت سے پیروں میں سلیپر اڑستے وہ جانے کو مڑی کہ شاہ زین ا سے پکار بیٹھا:

سنیں عائلہ!“

عائلہ کے آگے بڑھتے قدم تھم گئے تھے ۔ 

مجھے معاف کر دیں ، میں آپ کو….“

ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ آدھا چہرہ ڈھکے ، دو شہد رنگ قہر برساتی نگاہوں نے شاہ زین کو پتھر کا بنا دیا ۔ شرمندگی کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ وہ نظریں جھکا گیا۔ گلابی پھولوں کو روندتی ، عائلہ کے قدموں کے سنگ ا س نے اپنے دل کو بھی رندتے محسوس کیا تھا ۔ 

عائلہ کے امتحانات ختم ہو گئے تھے ۔ لا لا نے اس کی واپسی کا سارا انتظام کر دیا تھا ۔ واپس جانے سے ایک رات پہلے ، وہ کمرے میں بیٹھے بیٹھے اکتا سی گئی ۔ نیند جو ویسے ہی ا س پہ کم مہربان تھی ، آج تو جیسے نہ آنے کی قسم کھا چکی تھی ۔

مجبو ر ہو کے عائلہ نے سوچاکیوں نہ صحن میں تھوڑی دیر ٹہلا جائے۔ چپل میں پاں اڑستے دالان سے گزرتے، رنگین دریچوں سے آتی پورے چاند کی روشنی ، عجب سرور سا برپا کر رہی تھی ۔ سفید حویلی چاندنی میں نہا کر مزید حسین اور پرسرار لگ رہی تھی۔ ماربل کی روش ختم ہوئی تو اس کے پیر شبنم میں نہائی گھاس پہ پڑ ے ۔ پیروں کو سلیپر سے آزاد کرتی وہ بھیگی گھاس پر چلنے لگی۔

اسے لگتا ، چاند ا س کا پیچھا کر رہا ہے جس طرف وہ جاتی ، چاند اپنی جگہ بدلتا ، ا سے تکتا ۔ چاند سے آنکھ مچولی کھیلتے ا سے جانے کتنی دیر ہو گئی ، آخر وہ تھک کے سنگ ِ مر مر کے زینے پہ بیٹھ گئی ۔ 

 ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ جماتے ، اس کی نظریں اب بھی چاند پر تھیں ۔ 

کاش !عبداللہ بھی اس وقت اسی چاند کو دیکھ رہا ہو۔

خیال کی شدت اتنی تھی کہ وہ یونہی چاند پہ نظریں ٹکائے، بت بنی بیٹھی رہی ۔ اس کی پلکوں کو چھوتے کئی موتی ، اس کے زردی مائل رخسار پہ بکھرے تھے ۔ سیاہ ماتمی لباس چاندنی میں مزید ملگجا سا لگ رہا تھا ۔



ہم تیری یاد منانے کے لیے 

ہر طرف عالم ِ ہو ڈھونڈتے ہیں

ایک بھولے بسرے شعر نے ا س کے ہونٹوں پر دم توڑا تھا ۔ کچھ ا س کے شہر میں واپس جانے کی اداسی تھی اور کچھ ا سی شہر سے جڑے درد کے قصے تھے ۔ عائلہ کا دل بھرا گیا ۔ گھٹنوں میں چہرہ چھپائے وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی ۔ 

اسے وہیں سسکتے جانے کتنی دیر ہو گئی جب کسی کے دست ِ شفقت کو اپنے بالوں پہ محسوس کرتی وہ ایک جھٹکے سے سیدھی ہوئی ۔ اپنے ساتھ ، بالکل قریب بیٹھی آبگینے سید پہ نظر پڑتے ہی وہ تیزی سے پیچھے کی طرف کھسکی۔

نہ عائلے نہ بچے ! یوں روتے نہیں۔ بہادر بن ۔ جب عشق جیسا بہادری کا کام کر لیا ہے، تو اب درد سے کیا ڈرنا ؟ اب تو زندگی زرد ہی گزرنی ہے، تو رونا کیسا ؟



اس کے آنسو نرمی سے پونچھتی آبگینے ا سے اپنی اپنی سی لگیں۔ وہ مبہوت سی انہیں دیکھے جا رہی تھی۔

چاند کو دیکھ عائلے۔ حسین ہے نا ؟

ان کے سوال پہ عائلہ نے ٹرانس کی سی کیفیت میں اثبات میں گردن ہلائی تھی۔

تمہیں پتا ہے چاند کیوں حسین ہے؟

عائلہ کے نفی میں سر ہلانے پہ وہ بولیں:

غور سے دیکھو تمہیں چاند میں داغ دکھائی دے رہے ہیں ؟ اجلے ، گورے ، چاند پہ یہ داغ ہی اسے مختلف اور پراسرار حد تک حسین بناتے ہیں ۔اگر چاند پہ داغ نہ ہوتے تو چاند عام سا ہوتا ۔ بالکل ویسے جیسے ، ہمارے ارد گرد بہت سے خوش شکل ، اجلے اور خوش باش لوگ پائے جاتے ہیں ، مگر ان میں کچھ بھی پر کشش حد تک مختلف نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اُن کا وجود بے داغ ہوتا ہے ۔ عام سا اور کبھی کبھار ہم کسی واجبی انسان میں کچھ بہت پر کشش ، بہت مختلف محسوس کرتے ہیں ، تو پتا ہے تمہیں وہ کشش کیا ہے ؟

وہ ان کے وجود کے زخم ہیں۔ ان کی روح پہ لگے داغ ہیں جو انہیں منفرد بناتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے ایک دانشور کا قول ہے کہ دنیا کی سب سے خوبصورت مُسکراہٹیں وہ ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہوں یعنی جن میں درد کی آمیزش ہو اور درد ہر ایک کا مقدر تو نہیں نا میری جان ؟ درد تو اللہ کے چنے ہوئے بندوں کو نصیب ہوتا ہے ، جن کے لیے عشق کے در وا کر دیے جاتے ہیں ۔ ہر کسی کے سینے پہ زخمی دل کا تمغہ ، عشق کی شہادت نہیں دیتا ۔ یہ کچھ چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ میں …. جیسے کہ تم۔

عائلہ نے سراسیمگی سے ا ن کے چہرے کو دیکھا اور پھر ہکلاتے ہوئے پوچھ بیٹھی



کیا آپ نے بھی عش….شق۔

عشق؟

شدید عشق …. بے تحاشا۔

آبگینے نے اس کے ادھورے سوال کا خود ہی جواب دے دیا ۔

تو کیا وہ کم ذات تھا ؟

عائلہ نے ڈرتے ڈرتے پھر سے پوچھا ۔

کم ذات؟ کم ذات پہچانتی ہو ؟ وہ جو ہوس کو عشق کا پیرہن پہنائے وہی ہوتے ہیں کم ذات….

اور وہ تو اتنا اعلیٰ ظرف تھا کہ میرے سائے کی بھی عزت کرتا تھا ۔ وہ کم ذات کیسے ہو سکتا تھا؟

کیسے ؟

عائلہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے دوبارہ پوچھا :

وہ میرا مطلب تھا کہ کیا وہ ہم ذات نہ تھا ؟

اب کے آبگینے بولی تو لہجہ بیگانہ تھا :

ہم ذات ؟

کیا ایک ذات کا ہونے سے ہی بندہ ہم ذات بنتا ہے؟

ذات، رنگ ، نسل ،نام ، رتبہ ، عشق کیا جانے ؟ 

عشق کے لیے تو ہم ذات وہی ہے جو آپ کی رگ و پہ میں سرایت کر جائے جس کی روح اپنا وجود چھوڑ، آپ کے وجود میں آبسے۔

وہ ہم ذات بھی تھا اور ہم جان بھی۔

وہی تو تھا سب کچھ ۔ وہی تو ہے ۔ صرف وہی تو ہے۔

گھاس میں کچھ ٹٹولتی ،اب وہ خود ہی سے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں مخاطب تھیں ۔ عائلہ حیرانگی اور افسوس کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ا ن کی تکلیف کا اندازہ کر نے کی کوشش کر رہی تھی ۔



 وہ انسان کس قدر درد سے گزرا ہو گا جس کے سامنے کوئی ذکر کر دینا ا سے ہوش و خرد کے جہاں سے بیگانہ کرنے لگے ؟

اماں کاکی….اماں کاکی۔

عائلہ نے اُنہیں زبردستی اپنی طرف متوجہ کیا تھا ۔ 

وہ اپنی وحشت زدہ نظروں سے عائلہ کو دیکھنے لگیں ۔

کیا ستی بننے کا فیصلہ آپ کا اپنا تھا ؟

عائلہ نے مزید ہمت کر کے اُنہیں کریدا ۔

جواباً آبگینے سید کی ہذیانی ہنسی نے ا سے خوف زدہ کر دیا ۔ 

جب سزائے موت کے دو طریقے سامنے رکھے جائیں ۔ پہلی، پوری دنیا کے سامنے سولی پہ لٹکا ئے جانے کی سزا اور دوسری ، اکیلے بند کمرے کے پیچھے روز سولی پہ لٹکنے کی ، تم کون سا چنو گی؟ عزت بچا کے بند کمرے کی موت یا سر ِعام پھانسی ؟ میرے سامنے دو ہی راستے رکھے گئے۔ شادی کر کے کسی کی وفا شعار بیوی بننے کی اداکاری۔



یا پھر بند کمرے میں تمام عمر قید ِ تنہائی ۔

میں مر کے بھی منافقت کی زندگی نہ چنتی تبھی میں نے عمر قید کا انتخاب کیا ۔

بند کمرے میں قید ہوگئی ۔

Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!