اس نے نظر اٹھا کے درخت کی تاحدِ نگاہ پھیلی شاخوں کو دیکھا۔ اچانک ا سے خود پہ کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا۔ عائلہ نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔کسی کا وجود اپنے گرد نہ پا کے ، ا س نے حویلی کے پچھلی طرف کھلنے والے دریچوں پہ نگاہ کی ۔ وہ ایک کمرا جس کا نہ ا س نے کبھی دروازہ کھلا دیکھا تھا ، نہ ہی ا س کے واحد دریچے سے پردے ہٹے دیکھے تھے۔ ا س کمرے کے مکین کی نظروں کا ارتکاز تھا جو اسے بے چین کیے ہوئے تھا۔ پردہ ہٹائے وہ جانے کتنی دیر سے عائلہ پہ نظر کیے ہوئے تھیں۔ عائلہ تھوڑی دیر حیرانگی سے دریچے کے پار نظر آ تے ہیولے کو دیکھتی رہی پھر خوشگوار حیرت سے دریچے کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ وہ پردے برابرکرتیں تیزی سے پرے ہٹ گئیں۔
ششدر کھڑی عائلہ کے ہونٹوں نے سرگوشی کی تھی :
”اماں کاکی۔“
اماں تو ما ں کو ہی کہتے ہیں جب کہ ”کاکی“ فارسی میں بہن کو کہتے ہیں۔
بچپن میں معید کی تربیت اس کی واحد پھپھو نے کی تھی ۔ تبھی وہ سکینہ صاحبہ کے ساتھ ساتھ ، اپنی پھپو آبگینے کو بھی اماں کہتا تھا ۔ معید کی تقلید میں عائلہ بھی آبگینے سید کو اماں کہتی تھی ، پھر بابا کو انہیں ”کاکی“ بلاتے دیکھ، اماں کاکی بلانے لگی ۔ آہستہ آہستہ معید، شانزے ، علیزے اور شاہ زین بھی انہیں اماں کاکی بلانے لگے۔
علیزے ، شانزے اور شاہ زین ا ن کے چچا کے بچے تھے۔ جب تک دادا دادی حیات تھے ، سب ایک ساتھ اسی حویلی میں رہتے تھے۔ پھر ا ن کے جانے اور بچوں کے بڑے ہو جانے کے بعد چچا افراہیم سید ، باہمی رضامندی سے باغ والی حویلی میں منتقل ہوگئے ۔
سید قبیلے میں ”کزنز “کا بھی کوئی تصور نہیں۔ بچے بڑے ہو جائیں تو ان پر ایک دوسرے سے پردہ کرنا لازم قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ان کے منتقل ہونے کی ایک اہم وجہ تھی۔
البتہ آبگینے سیداپنی مرضی سے بڑے بھائی کے پاس رہتی تھیں۔ ا ن کی تعلیم جاری تھی ۔ ابھی وہ میٹرک میں تھیں کہ ایک دن جانے کیوں وہ گھر آئیں تو ، رنگ فق اور آنکھیں لال تھیں۔ آتے ہی اپنے کمرے میں بند ہوگئیں ۔ پھر کچھ دن بعد میر ابراہیم سید اور سکینہ صاحبہ کی ا ن سے دیر تک تکرار ہوئی ۔ جانے کیا ہوا کیسے ہوا ، لیکن کچھ دن بعد ، سب کو بتا دیا گیا کہ آبگینے سید نے اپنی مرضی سے تعلیم اور دنیا کو ترک کر کے ”فقر“کو اپنا لیا ہے۔
بلوچستان میں اسے”ستی“ کہتے ہیں۔ اکثر قبائل میں زبردستی بھی بہنوں بیٹیوں کو ستی بنا دیا جاتا تھا۔ کچھ اپنی مرضی سے دنیاوی زندگی اور ہر خوشی رنگ و بو کے در خود پہ بند کر کے ایک کمرے میں قید ہو کے یاد ِ الٰہی کو اپنا لیتی تھیں۔
آبگینے بہت زندہ دل لڑکی تھی ۔ ا س کا رشتہ بچپن ہی میں ا س کے ماموں کے بیٹے سے طے تھا۔ ابھی میٹرک کے بعد ا س کی شادی ہونی تھی ، لیکن ا س نے تو میٹرک بھی مکمل نہیں کیا اور یوں ایک کمرے میں مقفل ہونے کا ارادہ کر لیا ۔ تبھی یہ خبر پورے خاندان کو چونکا گئی۔
بہرحال پورے خاندان کو دعوت دی گئی ۔ پر تکلف کھانے کے بعد ، سفید لباس میں ملبوس آبگینے کو لایا گیا۔ تمام خواتین باری باری ، ا سے پھولوں کے ہار پہناتی مبارک باد دیتیں ، ماتھا چومتیں۔ گلابی چہرہ لیے نظریں جھکائے بیٹھی آبگینے کو دیکھ اس کی ممانی جان کی آنکھیں چھلک آئیں۔ آخر دل کے ہاتھوں مجبور ا سے گلے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑیں ۔ ا سے بہو بنانے کا ا ن کا ارمان جو ٹوٹ گیا تھا۔
اسے خود سے لگائے ہی اس کے کان میں سرگوشی کی :
”آبی !کسی نے تمہیں مجبور تو نہیں کیا نا ؟“
اس سے پہلے کی سسکتی آبگینے کچھ بولتی ۔ سکینہ سید ہاتھ میں قرآن پاک پکڑے تیزی سے اس کی طرف بڑھیں ۔
”اُٹھ جا آبی ! رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے ۔“
دونوں بھائی آگے بڑھے اور اسے قرآن پاک کے سائے تلے ، کسی دلہن کی طرح ، پورے قبیلے کے سامنے ،اس کے کمرے میں تنہائی کی عمر قید کاٹنے کے لیے اکیلا چھوڑ گئے ۔ سسکتی آبگینے نے ایک محتاط نظر ا ٹھا کے ممانی کو دیکھا تھا۔
اپنے آنسو پونچھتی اس کی ممانی چونکی تھیں ۔ کچھ تو تھا آبی کی نظروں میں مگر کیا ؟
اِس سے پہلے کے ممانی یہ پہیلی سلجھا پاتیں ، آبگینے اپنے قید خانے میں قدم رکھ چکی تھی ۔
”عائلہ !عائلہ….کدھر ہو ؟عا عا عا یل یل یل آ آ آ۔“
یہ کھنکتی ہوئی آواز شانزے کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی تھی؟ بے صبری سے حویلی کے صحن میں داخل ہوتے ہی عائلہ کو آوازیں دیتی، وہ اندر کی طرف ہی آ رہی تھی۔
عائلہ سید جو اپنے کمرے میں مسہری پہ براجمان،پروین شاکر کی ”ماہ ِ تمام“ کھولے اس میں گم تھی۔ کتاب بند کرتے ہوئے کمرے کے ادھ کھلے دروازے پر اپنی منتظر نگاہیں ٹکاتے ہوئے، شانزے کا انتظار کر نے لگی۔
لمبے چوڑے، دالان سے گزرتے شانزے سید کے چہرے پہ ، دریچوں کی رنگین کانچ سے منعکس ہوتی دھوپ ، رنگین لکیریں کھینچ رہی تھی۔ پر وہ تو شانزے تھی۔ ا س کے چہرے پہ ویسے ہی قوس ِ قزح کے رنگ بکھرے رہتے یہ مصنوعی رنگ ا س پر کیا چڑھنے تھے ۔
محبت بھی عجب رنگین مزاج احساس ہے جس پر مہربان ہو جائے ، ا س کے چہرے پر دھنک بکھیر دیتی ہے ۔ پھر نہ تو ہونٹوں سے مُسکراہٹ ہٹتی ہے اور نہ ہی باتوں سے خوش اخلاقی جاتی ہے۔
دن جاگتی آنکھوں میں خواب سجاتے گزرتے ہیں اور رات بند آنکھوں میں سپنے پروتے۔
کچھ لوگ مر بھی جائیں تب بھی محبت ان پہ مہربان نہیں ہوتی اور کچھ لوگوں کی ایسی قسمت ہوتی ہے کہ جس کے خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں وہی بن مانگے ان کی تقدیر بنا دیا جاتا ہے ۔ شانزے بھی ان ہی خوش قسمت لوگوں میں تھی۔ بچپن سے جس معید کے سپنے اس کی پلکوں پہ سجے تھے ۔ خدا نے بنا کسی تگ و دو کے اسی معید کو ا س کا مقدربنا دیا ۔
اور پھر جب ا سے علم ہوا کہ معید نے ہر ممکن کوشش کر کے بابا اور شانزے کے ابا کو شانزے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے راضی کیاہے۔ شانزے ہواﺅں میں ا ڑنے لگی ۔ ا سے لگا معید کے دل میں بھی کہیں ا س کی محبت رہتی ہے ۔ یہ منگنی کے بعد کا وہ سنہری دور تھا ۔ جب پیر زمین کی جگہ بادلوں پہ ہوتے ہیں اور آنکھوں میں سپنوں کی چمک صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔
شانزے کے حسین چہرے پہ حسرت سے نظریں ٹکائے عائلہ تب چونکی جب شانزے نے چٹکی بجائی ۔
”کدھر گم ہو بھئی ؟ میں کب سے بک بک کر رہی ہوں ، مجال ہے جو محترمہ کوئی جواب ہی دے دیں۔“
کالی بڑی بڑی آنکھوں میں مصنوعی خفگی سجی تھی ۔
”ارے نہیں !میں تو بس ….ایسے ہی کچھ سوچ رہی تھی ۔ دوبارہ بتا نا کیا کہہ رہی تھیں ۔ “
عائلہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔
”میں کہہ رہی تھی کہ یونیورسٹی چلو گی ؟ مجھے کچھ کام ہے ، تم بھی چلو ۔ داخلے کا کچھ کرتے ہیں۔“
اب کے شانزے سنجیدگی سے بولی ۔
”ہاں کیوں نہیں چلو چلیں۔“عائلہ نے کھوئے کھوئے لہجے میں جواب دیا۔ تب ہی شانزے کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب پر گئی۔
”عائلہ !ایک بات پوچھوں ؟“
شانزے کے فکرمند لہجے نے عائلہ کے دماغ میں احتیاط کی گھنٹی بجائی تھی ۔
”ہاں پوچھو ۔ “زبردستی مُسکراتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔
”سب ٹھیک ہے نا عائلہ ؟ مجھے نہ تم ٹھیک لگ رہی ہو نہ یہ سب ۔ تم تو کبھی اکیلے اس حویلی میں یوں نہ رہتی ، نہ ہی تمہاری طبیعت ٹھیک لگ رہی ہے مجھے ، جب سے آئی ہو اس کمرے میں بیٹھی ہو ۔ نہ نکلتی ہو نہ ہنستی ہو ، نہ پہلے کی طرح باتیں کرتی ہو ، کھانا بھی ماہ پری نے بتایا برائے نام کھاتی ہو ، بس تم ہو اور یہ کتابیں ہیں ، یہ کمرا ہے ۔ کیوں ؟ کیا ہوا ہے ؟ تم مجھے تو بتا سکتی ہو ۔“
عائلہ نے نظریں جھکا کے تمام تر کوشش سے آنسو پیے تھے ۔ پھر اس کی طرف دیکھ کے مصنوعی سا مُسکرائی تو آنکھیں چمکی تھیں ۔