عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

یہ سارے منظر کتنے عام سے لگتے تھے ۔

پر اب….

اب کیا بدلا تھا؟

میری نظر۔

ہاں !میری نظر ہی تو بدلی ہے ۔ اب میں آنکھوں سے کہاں دیکھتی ہوں؟

اب تو میں محبت سے دیکھتی ہوں ۔اس کی پلکیں نم ہوئی تھیں ۔

اب اونچائی سے اس کے گاں کی روشنیاں بھی دکھ سکتی تھیں۔

خواجہ ولی بابا کے مزار کا سنہرا گنبد ڈھیروں روشنیوں کے ہالے میں ، روز ِ روشن کی طرح چمک رہا تھا۔

گاڑی بائے پاس سے اتر کر اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے ہوتی ، خواجہ بابا کے مزار کے پاس سے گزری۔



عائلہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔

خاموش لب اور نم آنکھوں سے اپنی ہتھیلیوں کو تکتے وہ حیران تھی کہ کیا مانگے ۔

 اسے یاد تھا بچپن میں اسکول سے آتے جاتے وہ دعا مانگا کرتی۔ گاڑی خواجہ کے مزار کی وسیع و عریض حدود سے دور نکل جاتی ،پر تیزی سے دعا مانگتی عائلہ کے لب نہ رکتے اور آج اسی عائلہ کے لب خاموش تھے ۔ 

وہ مانگے بھی تو کیا مانگے ؟

عبداللہ….“

اس کے ہونٹوں کی جنبش پہ دو آنسو پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پہ آ گرے ، مگر یہ حق بھی تو وہ کھو چکی تھی۔ کیسے مانگے عبداللہ کو؟

آنسو رواں تھے اور اب لبوں پہ دعا بھی….

یا اللہ پاک !مجھے صبر دے ، میرے مولا تکلیف بہت ہے اور میرا صبر کم تر ، میرا صبر وسیع کردے۔ مجھے میرے فیصلے پہ قائم رکھ کہ پھر میں اس کا نام بھی ہونٹوں پہ نہ لاں۔ مجھ سے ا س کی مزید تکلیف نہ دیکھی جائے گی میرے رحمن مولا۔ مجھے میری زبان پہ قائم رہنے کا حوصلہ دے۔



آمین۔

اس نے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرے ہی تھے کہ گاڑی حویلی کی طرف جانے والے رستے پہ گامزن ہو چکی تھی۔ قطار سے لگے پائن کے درخت ، بابا کا ڈیرا ، شاندار بیٹھک ، سب ویسے کا ویسا ہی تو تھا۔ یہ بیتا وقت کلی کرانی پر جیسے گزرا ہی نہیں۔ اگلے پل ایک ہلکے سے جھٹکے سے گاڑی رکی ۔ عائلہ کی نظریں اٹھیں اور اپنی حویلی پہ گڑھ کے رہ گئیں ۔

آہ !شاہ ہاس ۔

سب کچھ ویسے کا ویسا ہے ،پر تم اجڑے اجڑے کیوں دکھتے ہو ؟ 

کیا تم پر بھی کوئی قیامت بیتی ہے ؟

خاموشی کی زبان میں سوال کرتی عائلہ اور سنتی وہ بنجر حویلی ، جیسے ایک دوسرے کے لیے بنے تھے۔

ہاں !بے شک ….

ایک بنجر کو آباد ایک بنجارن ہی کر سکتی ہے ۔

اڑی ببو خیرٹ کنا گودی ای خیرات نے کے۔ارے ! آئیں خیر سے میری گودی ، میں صدقے آپ پہ۔

ماہ پری شاید دہلیز پر کھڑی، اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ تبھی اس کی ایک جھلک دیکھتے ہی لپک کے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اس پر ، اپنی دونوں آنکھیں رکھیں اور پھر ہونٹ رکھ کے ا سے تعظیم بخشا۔ 



ماہ پری ذاکرہ کی ماں تھی ۔ بچپن سے ا ن پر جان چھڑکتی تھی۔ ا س کا پورا خاندان ا ن کی خدمت اپنا فرض سمجھ کے کرتا ۔ شاید انہیں ماں کی کوکھ ہی سے سادات کی خدمت کا سبق دیا جاتا تھا۔

عائلہ نے بچپن سے ماہ پری اس کے خاندان اور بابا کی ڈھیروں مرید عورتوں کو خود سے ایسے ہی ملتے دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ ایسے ملتیں جیسے سیدزادیوں کو زیارت کر رہی ہوں ۔ 

اسے کبھی کبھی بہت عجیب بھی لگتا کہ ہم بھی ان ہی کی طرح انسان ہی تو ہیں ۔ تبھی اکثر ملنا ترک کر کے اپنے کمرے میں چلی جاتی ۔ 

عائلہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی جب یخ بستہ ہوا کے جھونکے نے اسے خیالوں کی دنیا سے حقیقت میں لا پٹخا۔

عائلہ سید نے خود کو حیرت سے تکتی ماہ پری کورسمی مُسکراہٹ، چہرے پہ سجاتے جواب دیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلتی حویلی کے اندر قدم دھرے ۔

ہر سو اُداسی ، خاموشی ، یاسیت ۔ ایسا تو نا تھا شاہ ہاس جب عائلہ اسے چھوڑ کے گئی تھی۔



سفید سنگ ِ مر مر کی روش بارش کے بعد دھلی دھلی سی لگ رہی تھی ۔ ا ن کا بڑا سا عالی شان باغیچہ ابھی تک خزاں کے زیرِ اثر تھا۔ کیاریوں میں جہاں کبھی ہر قسم اور ہر رنگ کے گلاب مہکتے تھے ، جھاڑ جھنکار اُگ آئی تھی۔

سامنے کھڑی سفید حویلی اپنے اندر جانے کتنے راز چھپائے ، پر اسراریت سے کھڑی تھی۔ 

ماہ پری اور اس کے ساتھ دو تین لڑکیاں بھاگم بھاگ ا س کا سامان کمرے میں سیٹ کر رہی تھیں۔

عائلہ یونہی چلتے چلتے حویلی کے پچھلے صحن کی طرف آگئی۔ سامنے ہی ا سے اخروٹ کا وہ درخت نظر آگیا جس میں جھولا جھولتے اس کا سارا بچپن گزرا تھا۔ چھوٹے چھوٹے قدم ا ٹھاتی عائلہ درخت تک آئی۔ 

اس کی شاخوں پر خزاں رقصاں تھی۔ عائلہ نے پیار سے ا س کے تنے پہ انگلیاں پھیریں۔ بیتے وقت نے درخت کو مزید قدآور بنا دیا تھا، البتہ جو ویرانی اب ا س کے گرد پھیلی ہوئی تھی پہلے کبھی ا س کا مقدر نہ تھی۔ عائلہ کا بچپن اسی کے سائے تلے کھیلتے گزرا تھا ۔یہ درخت اس کے دکھ سکھ کا ساتھی تھا۔ عائلہ کو اندازہ تھا کہ ا س کے چلے جانے کے بعد یہ کتنا اکیلا ہو گیا ہو گا۔



Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!