وہ ہذیانی انداز میں خود سے باتیں کر رہی تھی ۔ کبھی خود کو یقین دلاتی تو کبھی خود سے پوچھتی۔
کیوں کیا میں نے ایسا ؟
اپنی محبت کا مقبرہ بنا کے دفنا دیا کیوں ؟
اس کی نظروں کے سامنے دو سال پہلے کے کچھ منظر گھوم گئے ۔ عائلہ نے اپنے ہونٹ بھینچے تھے۔
کم زوری اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
ہشاش بشاش نظر آتی ڈاکٹر نے نہایت ہلکے پھلکے انداز میں اس سے کچھ سوال کیے تھے ۔
خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتے عائلہ نے نقاہت زدہ آواز میں دو تین مختصر جواب دیے تھے۔
”بہت اچھے عائلہ! آپ تو بہت جلدی صحت یاب ہوگئیں۔“
لبوں پہ پیشہ ورانہ مُسکراہٹ سجاے وہ عائلہ کے بے تاثر چہرے کو غور سے جانچتی رہیں۔
پھر خود ہی ”brave girl “کہتیں ، اس کا گال تھپتھپا کے کمرے سے باہر چلی گئیں ۔
اور عائلہ پھر سے نظریں چھت پہ جمائے، اپنے سوچوں کے بحر میں غوطہ زن ہو گئی۔ بہت سے بے ربط خیال تھے جو اس کے ذہن میں نوحہ کناں تھے۔
”یہ ڈاکٹر کیوں کہہ رہی تھی کہ میں جلد صحت یاب ہوئی ہوں۔ مجھے تو جانے کتنے دن گزر گئے یہاں یوں پڑے پڑے ۔“
”مجھے گھر نہیں جانا واپس۔ میں کیا کروں گی واپس جا کر۔عبداللہ جانے کیسا ہوگا اب ؟ کس سے پوچھوں خدایا !“
دو آنسو آنکھوں کے کونوں سے بہ کے بالوں میں جذب ہوئے تھے ۔
ہوش میں آنے کے دو دن بعد تک مسلسل اماں اور لالا اسپتال آتے رہے ۔ وہ آتے عائلہ سے بات کرنے کی کو شش کرتے ،ا سے کچھ کھلانے کی کوشش کرتے ، پر عائلہ ا ن سے منہ موڑے چپ چاپ بستر پہ لیٹی رہتی۔
انہیں اندازہ تھا کہ عائلہ ناراض ہے پر جب اس نے ایک دن اماں کے ساتھ آئی ذاکرہ سے کہا:
”آئندہ صرف تم ہی آنا کافی ہے۔“
تب لالا اور اماں کو اس کی ناراضی کی انتہا پتا چلی۔
اماں نے اس کی خواہش کے مطابق آنا چھوڑ دیا پر لالا اکثر آتے ، باہر ہی سے ڈاکٹروں سے بات کر کے چلے جاتے ۔ جب کہ ذاکرہ روز آتی ۔
عائلہ ا س سے بھی منہ موڑ کے لیٹی رہتی اس لیے نہیں کہ وہ ناراض تھی ، بلکہ ایک سیدزادی ہو کر محبت کرنے کی شرمساری چھپانے کو۔ وہ اکثر سوچتی مجھ سے توذاکرہ اچھی ہے اس کے دامن پر کوئی داغ تو نہیں ۔ یہی کمتری کا احساس ا سے نظریں چرانے پہ مجبور کرتا ۔
اچانک دستک کی آواز پہ عائلہ چونکی۔ اس کے بے ربط خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا ۔
اگلا بندہ دستک کے بعد تھوڑی دیر رکا اور پھر خود ہی اندر داخل ہوگیا ۔
قدموں کی دھمک بتا رہی تھی کہ آنے والا ا س کا لالا معید سید ہی ہے۔
عائلہ بازو آنکھوں پہ رکھے ، سوتی بن گئی ۔
”عائلہ!“
لالا کی آواز گونجی ۔
وہ سوتی بنی رہی ۔
”گودی ! مجھے پتا ہے تم جاگ رہی ہو۔“وہ مزید بولا ۔
عائلہ نے بازو ہٹا کے دیوار پہ نظر جمائی کہ لالا ا سے پہچانتے تھے ،ان کے سامنے یہ سب کرنا بے کار تھا۔
”بابا نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ تم گھر آﺅ یا بابا سے تمہارا سامنا ہو ۔ ا ن کا فیصلہ ہے کہ تم واپس کرانی چلی جاﺅ۔“
ٹوٹے ہوئے لہجے میں لالا نے اسے بابا کا فیصلہ سنایا۔
”بہت مشکل سے میں نے انہیں راضی کیا ہے کہ تم شانزے کے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لو اور اپنی ڈگری مکمل کر لو۔“
وہ مزید بولے ۔
”اور روانگی آج ہی ہے۔ تمہارا سامان گاڑی میں رکھا ہوا ہے ۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تمہاری فلائٹ ہے۔“
وہ خاموش ہوئے تو اتنے عرصے میں پہلی دفعہ عائلہ کچھ بولی ۔
”بدلے میں، میں بھی کچھ چاہتی ہوں۔“
بہن کے سپاٹ بے رنگ چہرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھتا معید ابراہیم سید بولا :
”بولو ؟“
”مجھے عبداللہ کی زندگی ، اس کی خیریت کی ضمانت چاہیے۔ بس !“
اب کہ عائلہ نے لالا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا تھا ۔
آج معید نے زندگی میں پہلی دفعہ اپنی بہن کی آنکھوں میں بغاوت دیکھی تھی ۔تبھی میکان کی انداز میں بولا :
”ٹھیک ہے میں ضمانت دیتا ہوں تمہیں۔ کوئی اسے کچھ نہیں کرے گا، پر بدلے میں تم کبھی اس کا نام اپنے ہونٹوں تک بھی نہ لاﺅ گی ۔“
عائلہ کی آنکھیں چمکی تھیں ۔
”منظور ہے۔“
اس نے اپنی محبت کی قبر پہ مٹی کا آخری بیلچہ ڈالا تھا۔
گاڑی میں بیٹھے ائیرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے ، ا س نے ڈھلتے سورج کو سرگوشی کرتے سنا تھا۔
”الوداع اے پیاری لڑکی الوداع۔“
اسے لگا جیسے عبداللہ کے شہر کے کئی منظر اسے الودا ع کہتے ، رو پڑ ے تھے ۔
”عائلہ کا سفر۔“
کوئٹہ ائیرپورٹ سے گاﺅں کی طرف جاتے ہوئے اتنے خوب صورت مناظر نظروں سے ہو کے گزرے کے عائلہ حیران رہ گئی ۔کیا یہ وہی کوئٹہ ہے جہاں اس نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا ؟
کیا تب بھی کوئٹہ اتنا حسین ہو تا تھا؟
کیا تب بھی شام ڈھلے جب سورج کی شعاعیں مہر ِ در کی چوٹی پہ پڑتی تھیں ، ا س پہ جمی برف ہیروں کی طرح چمکتی تھی ؟
کیا تب بھی اوائل فروری کے دنوں میں کوئٹہ یونہی دھند ، بونداباندی اور کبھی کبھی برف باری میں لپٹے، آنے والی بہارکی خوشبو بسائے ، کسی الف لیلیٰ کی کہانی جیسا اسرار خود میں سموئے رکھتا تھا ؟
کیا تب بھی اندھیرا چھانے کے بعد مغربی بائی پاس سے گزرتے ہوئے ، نیچے نظر آتی شہر کی روشنیاں اتنا حسین چراغاں کیے رکھتی تھیں ؟
عائلہ نے اتنے دلکش منظر کہیں نہیں دیکھے تھے۔
مغربی بائی پاس کوئٹہ شہر کے مقابلے اتنی اونچائی پہ تھا کہ مغربی سے لے کر مشرقی بائی پاس تک شہر کا کونا کونا دکھتا تھا۔
‘
اندھیرا چھاتے ہی جب ڈھیروں روشنیاں ایک ساتھ ٹمٹماتیں، تو ایسا لگتا کہ آسمان اور اس پہ چمکتے تارے ماند پڑنے لگے ہوں ۔ یہ منظر اتنا حسین لگتا کہ دنیا کا کوئی بھی منظر اس کے سامنے ماند پڑ جائے۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا آسمان زمین پہ ہو اور ٹمٹماتی روشنیاں تارے ہوں۔
اپنی سوچوں میں گم، عائلہ حیران تھی کہ اتنے عرصے یہ خوب صورتی اس کی آنکھوں سے مخفی کیسے رہ گئی؟