عائلہ کھانا کھا کے ڈائننگ روم سے نکل کے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ اس بڑے سے سفید تھیم کے ہال کے سفید چمکتے سنگ ِ مرمر کے فرش اور اوپر چھت سے لٹکتے دیو قامت کرسٹل کے فانوس نے اسے دو سال پہلے گزری قیامت کی یاد دلا دی۔
ڈھیروں مٹے مٹے سے منظر اس کے ذہن کے پردے پہ نقش ہونے لگے۔
ان لمحوں کا کرب اتنا شدید تھا کہ عائلہ اب بھی اپنے سر میں ا ٹھتی ٹیسیں محسوس کر رہی تھی ۔
یہی ہال تو اس کے درد کا گواہ تھا۔
جب اسے ٹھوکریں ماری گئیں ، یہی سفید فرش تو تھا جس نے اسے سمیٹا تھا۔
جب اس کے منہ پہ طمانچے لگے خواہ وہ بابا کے ہاتھوں کے تھے یا ان کی زبان کے۔ اسی درودیوار نے تو اسے سہارا دیا تھا۔
نظروں سے بے اعتباری کے ڈھیروں تیر برساتے اماں اور لالا کے بے نیاز چہروں کو، اسی فانوس نے تو عیاں کیا تھا۔
اُف !!!!
کیوں بابا کیوں؟
کیوں کیا آپ نے ایسے۔
ایک دفعہ مجھ سے صفائی تو مانگتے۔
ایک دفعہ تومجھے سنا ہوتا۔
کیوں بابا ، کیا جاتا آپ کا اگر آپ ایک دفعہ سن لیتے کہ میں نے آپ کو دھوکا نہیں دیا تھا کہ میں آپ کی عائلہ ہوں میں سب کچھ ہو سکتی ہوں ، پر بد کردار نہیں۔
بابا! ایک دفعہ صرف ایک دفعہ ، آپ نے سنا ہوتا کہ میں اس سے محبت کرتی ضرور تھی ، پر میں کبھی بغاوت نہ کرتی ، میں مر کے بھی ا س سے بات نہ کرتی ، ا س دن بھی وہ خود آیا تھا بابا، میں مانتی ہوں میری غلطی ہے ، میں مانتی ہوں میں نے ا س نا محرم کو خود کو چھونے دیا تھا۔
پر میں بھی انسان ہی تو ہوں بابا۔ میرا بھی عام لڑکیوں جیسا دل ہے ۔ وہ لاکھ نا محرم سہی پر میرے دل کا محرم تو صرف وہ ہی ہے نا بابا۔
کیا سید زادیوں کے دل نہیں ہوتے بابا ؟
یا ان کے دل گوشت پوست کے بجائے پتھر کے ہوتے ہیں؟
بتائیں بابا۔
من ہی من بابا سے مخاطب ،اس کی نظریں وحشت زدہ سی ا س ہال میں گھوم رہی تھیں ۔
وہ دو فروری کی شام جیسے لوٹ آئی تھی۔ عائلہ کے نظروں کے سامنے اس شا م کے منظر گھوم سے گئے۔
”بابا!میں نے کوئی دھوکا نہیں کیا۔“
زخموں سے چور ، مٹی میں اٹا ،یہ سسکتا وجود ا س کا تھا جو لاﺅنج کے بیچ و بیچ کسی مجرم کی طرح کھڑی تھی اور ا س پہ کئی بے اعتبار آنکھیں گڑی تھیں۔
اس کی نظریں اس جگہ گئیں، جہاں بابا کے ا س آخری زناٹے دار تھپڑ کے بعد وہ گر پڑی تھی۔
عائلہ کو اپنی بے بس نگاہیں یاد آئیں جو چہروں پہ اجنبیت سجائے اماں اور لالا کی طرف مدد کے لیے ا ٹھی تھیں۔
اسے یاد تھا یہی وہ لمحہ تھا جب وہ مار سہتے سہتے ڈھے گئی تھی۔
کرب اتنا تھا کہ عائلہ آنکھیں میچ گئی۔ ا س دن کا درد عائلہ کی ساری زندگی پر چھا چکا تھا وہ کیسے ا س دن کو بھلا سکتی تھی۔
اس نے دونوں ہاتھ اپنے ہونٹوں پہ رکھتے ہوئے سسکیوں کا گلاگھونٹا ۔ پر آنکھوں سے رواں آنسوا س کے اختیار میں کہاں تھے۔ وہ وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔
اپنے ہی کرب پہ روتی ٹوٹی پھوٹی عائلہ ، شاید ا س پرانی عائلہ کو بھی رو رہی تھی جو ا س شام اس جگہ بے ہوش نہیں ہوئی تھی بلکہ شاید مر گئی تھی۔
کون تھی وہ اب۔
اس نے اجنبیت سے اپنے سو نے ہاتھوں کو دیکھا۔ بد رنگ کالے ماتمی لباس کو دیکھا ، سامنے دیوار پہ لگے شاندار آئینے میں زرد چہرے اور بکھرے بکھرے ، کمزور نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا۔
میں عائلہ تونہیں ہوں، ا س نے اپنے خد و خال کو چھوا۔
کون ہوں میں پھر ؟
اس نے سوچا۔ چمکتی بھوری آنکھیں جو مُسکراتی رہتی تھیں اب ویرانوں کا مسکن تھیں۔ رنگ اور خوشبو جیسی عائلہ کہاں تھی ، سامنے عکس تو کسی بنجارن کا تھا۔
کیا ہو اگر ”وہ“ مجھے ایسے دیکھ لے ؟
کیا وہ پھر بھی مجھ سے محبت کرے گا ؟