عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

روئی روئی آنکھوں والی عائلہ کی چھوٹی سی ناک بے حد لال ہو رہی تھی ۔ عبداللہ کے تاثرات جانچتے اس کے چہرے پہ اب بھی دو آنسو بہے تھے۔ 

عبداللہ نے کالی آنکھوں میں محبت کاجہاں بسائے ا س کی شہد جیسی آنکھوں میں جھا نکا اور دھیرے سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ا سے رونے سے روکا تھا۔ 

عائلہ روتے روتے مُسکرادی۔

عبداللہ نے اپنا ہاتھ دھیرے سے ا س کے رخسار پہ رکھا اور نہایت نرمی سے دونوں آنسو چنے تھے۔ لمبی پلکیں جھکی تھیں۔ حیا کی لالی نے رخسار دمکائے تھے۔جھکی پلکیں پھر سے اٹھی تھیں۔ 

اپنی پوروں پر سجے دو ننھے کوہِ نورعبداللہ نے اپنی شرٹ پہ سیدھے دل کی جگہ رکھے تھے۔ 

سورج کی الوداع کہتی کرنوں نے ا ن دونوں کے وجود کو چھوا تھا ۔ اس سے مکمل شام نہ عائلہ کی زندگی میں کبھی کوئی آ ئی تھی نہ کبھی کوئی آنی تھی۔ 

وہ سب بھلائے صرف ا س پل کو جی رہی تھی ، جب اس کی نظر عبداللہ کی پشت پر سے ، اپنی طرف بھاگتے ہوئے آتی ذاکرہ پہ گئی۔ ذاکرہ بھاگ رہی تھی اور ا سے کوئی اشارہ کر رہی تھی۔ عائلہ ناسمجھی سے ا س کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ عائلہ کے نظروں کے تعاقب میں عبداللہ بھی ، اپنی طرف تیزی سے آتی ذاکرہ کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز پہ حیران پلٹا۔ 



عائلہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے گال پہ ہاتھ رکھے، سامنے کھڑے ا س سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس با رعب شخصیت کو دیکھ رہی تھی۔ عبداللہ کو کچھ سمجھ آ رہی تھی اور کچھ نہیں۔ ا س نے وحشت زدہ نظروں سے عائلہ کو دیکھا ۔ کیا وہ عائلہ ہی تھی،تھوڑی دیر پہلے والی عائلہ ؟

اسے لگا جیسے عائلہ کو موت کا فرشتہ دکھ گیا ہو ۔ جیسے اس کے جسم سے سارا خون نچڑ گیا ہو ۔ وہ سامنے کھڑے شخص کو شدید ترین خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جب کہ مقابل کی قہر برساتی نگاہیں عائلہ کے چہرے سے ہوتے ہوئے عبداللہ کے چہرے پہ آئی تھیں۔ بھوری قہر آلود آنکھوں نے سب بھید کھول دیے تھے۔ ہوبہو عائلہ جیسی آنکھیں رکھنے والا وہ شخص یقینا عائلہ کے والد تھے۔

عبداللہ کی نظریں احساس جرم سے جھکی تھیں۔

جب کہ قہر برساتی نگاہوں کی تپش اب بھی وہ خود پہ محسوس کر سکتاتھا۔ ا س نے جھکی نظریں ا ٹھا کہ عائلہ کو دیکھنا چاہا۔

گلابی رنگت والی عائلہ کا رنگ خطر ناک حد تک سفید ہو چکا تھا۔ گال پہ تھپڑ کا گلابی جلتا ہوا نشان عبداللہ کے دل کو کاٹ گیا۔ عائلہ دیوانہ وار عبداللہ کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ ا س کی نظریں چیخ چیخ کہ عبداللہ سے الوداع کہہ رہی تھیں۔ 

عبداللہ دیکھ رہا تھا ، جب جب عائلہ کی سہمی ہوئی نظریں ا س کے چہرے سے ہوتے ہوئے میر صاحب کے چہرے پہ جاتیں ، اس کا پوراوجود کانپ جاتا۔ میر ابراہیم سید کے چہرے پر بے انتہا غصہ، جلال اور نفرت تھی۔ ان کی آنکھوں میں سرد سی بے حسی تھی جو عبداللہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کر رہی تھی۔ ابھی وہ میر ابراہیم سید کے جلال کو پرکھ ہی رہا تھا کہ وہ ایک جھٹکے سے مڑے اور پارکنگ لاٹ میں اپنی گاڑی کے پیچھے کھڑی گارڈز کی گاڑی میں بیٹھے گارڈز کو کسی مقامی زبان میں کچھ کہا۔ پھر زہر آلود نگاہوں سے عبداللہ کو دیکھتے ہوئے عائلہ کا بازو سختی سے پکڑ کے ا سے گھسیٹا ۔

عائلہ نے جراح کی تھی جس کی سزا کے طور پر ایک اور زناٹے دار تھپڑ نے اس کے ہونٹ کو زخمی کر دیا۔ اس کے سوکھے ہوئے ہونٹوں سے رستا خون ا س کی ٹھوڑی پہ چمکتے بھورے تِل کو بھی خون آلود کر گیا جو تھوڑی دیر پہلے اس کے مُسکراتے ہونٹوں کے ساتھ مُسکرا رہی تھی۔ عبداللہ کو اپنے وجود میں تکلیف کی شدید لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔

عائلہ کی خوف زدہ آنکھیں اب بھی عبداللہ پہ گڑھی تھیں اور بازو میر ابراہیم سید کی گرفت میں تھا۔ اب کے ا س نے کوئی احتجاج نہیں کیا تھا،کسی بے جان چیز کی طرح ا ن کے ساتھ گھسٹتی جا رہی تھی۔



عبداللہ کی طرف دو بھدی جسامت اور کرخت چہروں والے گارڈ بڑھے۔ عائلہ انہیں دیکھ بے جان ہو کے بیٹھ گئی تھی۔ ا س کا بازو اب بھی میر صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ ا نہوں نے اسے کسی جانور کی طرح گھسیٹا۔ عائلہ کی نگاہیں عبداللہ پہ تھیں جو خود کو گرفت میں لیتے گارڈز کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ 

روتی ہوئی ذاکرہ، گھسٹتی ہوئی عائلہ کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ عبداللہ کو قابو کرنے میں ناکام گارڈز سے ہوتے ہوئے عبداللہ کی نظر عائلہ پہ گئی۔ کاندھوں پہ جھولتی چادر کب کی زمین پہ گر چکی تھی اور عائلہ کے ساتھ ساتھ گھسٹ رہی تھی۔ یہ وہ عائلہ تھی جس کے چہرے کی ایک جھلک بھی کبھی ان گارڈز نے نہیں دیکھی تھی اور آج انہی کے سامنے عائلہ کی چادر گری تھی۔ پتھرائی ہوئی نظروں سے خود کو دیکھتی عائلہ کا مٹی میں اٹا وجود ، خون سے بھرا چہرہ ، سوجا ہوا زخمی ہونٹ ، بکھرے ہوئے لمبے بال اور گری ہوئی چادر دیکھ وہ دیوانہ ہوا تھا۔

اس نے اپنا پورا زور لگا کے خود کو گارڈز کی گرفت سے چھڑایا اور خود سے دور جاتی عائلہ کی طرف سر پٹ بھاگا اور ا س کی چادر اٹھا کے اس کے گرد لپیٹی۔ انگلی کی پوروں پہ ا س کے زخم کا خون سمیٹتے، اس نے عائلہ کے نازک پیروں کے زخم دیکھے۔ میر صاحب اُسے اتنی بے دردی سے گھسیٹ رہے تھے کہ عبداللہ کو لگا جیسے ا س کا بازو کندھے سے جدا ہو جائے گا۔ عائلہ کا چہرہ اب بھی سپاٹ تھا بالکل۔

اس سے پہلے کے عبداللہ ا س سے بات کرتا گارڈز ا س تک پہنچ چکے تھے۔ اب عبداللہ دوبارہ اُن کی گرفت میں تھا۔



شام رات کی چادر اوڑھ چکی تھی۔ عبداللہ بھی اب گارڈز کے ساتھ گھسٹ رہا تھا ۔ خود سے دور جاتی زخموں سے چور چور عائلہ کو فکر سے دیکھتے ہوئے ا س کی نظر ذاکرہ تک گئی۔ کیا کچھ نہ کہا تھا ا س نے اس ایک نظر میں ، عائلہ کا خیال رکھنے کی تنبیہ، ا س کا ہم درد بننے کی التجا، ا س کے زخموں پہ مرہم رکھنے کی استدعا، غرض اس ایک نظر میں ا س نے عائلہ کو ذاکرہ کے حوالے کیا تھا اور ذاکرہ کی عام سی روتی آنکھوں نے بھی جیسے سب سمجھتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی۔

خود سے دور جاتی عائلہ کو اس نے آخری نظر دیکھا تھا ۔ عائلہ گاڑی تک پہنچ چکی تھی۔ میر صاحب نے ا سے کسی کپڑے کی گٹھڑی کی طرح اندر پھینکا اور زن سے گاڑی نکال لے گئے ۔ا ن کے پیچھے گارڈز کی گاڑی جس میں باقی کے چار گارڈز موجود تھے ، تیزی سے نکلی ۔

عبداللہ کو احساس تھا کہ اب زندگی عائلہ کے لیے سنگ پاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی ۔آج کے بعد ا س ماہ ِ کامل کی ایک جھلک تو یک طرف وہ ا س کی خوشبو کو بھی ترسے گا ،پوری زندگی ۔

سمندر کی طرف بے دردی سے گھسٹتے عبداللہ کی آنکھوں سے گرم سیال بہا تھا ۔ خشک ہوتے ہونٹوں سے ا س نے سرگوشی کی تھی ۔ 

الوداع عائلہ ….الوداع۔

٭….٭….٭



Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!