اس سے پہلے کہ وہ اس بارے میں مزید سوچتا نظریں جھکائے بیٹھی عائلہ نے ہلکا سا کھنکار کے اُسے اپنے سوال کی طرف متوجہ کیا ۔
عبداللہ بولا :
”ان سطروں کا انتخاب میں نے دو وجوہات کی بنیاد پہ کیا ہے ۔ پہلی، کیوں کہ اس سے خوب صورت اور مکمل اختتام میں نے آج تک کسی کتاب کا نہیں پڑھا۔ مجھے ان سطروں سے محبت ہے ، مجھے عبد اللہ کی کہانی سے محبت ہے اور مجھے سمندر پہ کیے گئے اس حسین سے اقرار سے محبت ہے۔“
وہ ایک ثانیے کو ر کا۔ عائلہ سید کی جھکی لمبی پلکیں اٹھیں۔
یہی پل تھا جب دو کالی ذہین آنکھوں میں اس کی دو چمکتی حیران بھوری آنکھوں کا عکس ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا۔
عبداللہ سکندر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہا:
”اور دوسری وجہ زہرا ہے اس کتاب کی زہرا ۔ عبداللہ کی زہرا ۔ عشق ہے مجھے ا س سے ۔ جب بھی اختتام پہ عبداللہ اور زہرا کی لازوال محبت کے وصل کو پڑھتا ہوں، تو لگتا ہے ایسے ہی ایک دن میری زہرا بھی سمندر کنارے ، ڈوبتے سورج کے وقت مجھ سے آ ملے گی یا….“
لہجہ مزید گہرا اور نظریں مزید اس پہ گڑ ی تھیں۔
”یا….شاید مل ہی گئی ہے۔“
عائلہ کو لگا جیسے وقت تھم گیا ، اس کی سانسیں ،اس کی دھڑکن ، اس کا دماغ ۔خیر دماغ تو کب کا تھم چکا تھا۔ محبت کی آمد اور دماغ۔
محبت کے آتے ہی سب سے پہلے عقل ہی تو ناک منہ چڑھائے جاتی نظر آتی ہے۔ عائلہ اس کے محتاط لفظوں کے پیچھے چھپے اظہار کو سمجھ رہی تھی۔
جانے کتنی دیر گزر گئی عبداللہ سکندر کی کالی آنکھیں ، عائلہ سید کی گلابی آنکھوں پہ ٹھہری ہوئی تھیں۔
بے شک وہ لفظوں کا جادوگر تھا۔ عائلہ سید اس کے لفظوں کے طلسم میں ڈوب چکی تھی۔ اس کا دل اظہار کے لیے مچلا تھا۔
دل….
ہائے دل….
عجیب دل….
عجیب کی چاہ کرنے والا دل….
اس کی صابر محبت کو باغی بنانے والا دل اب ا س کے سلے ہوئے ہونٹوں سے اظہار چاہتا تھا۔
تم سید زادی ہو ، یہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ دماغ جاگا تھا۔
کیاسیدزادیاں محبت میں اظہار نہیں کرتیں ؟ دل نے سر دھنا تھا۔
نہیں…. سیدزادیاں تو محبت ہی نہیں کرتیں ۔ خدارا جاگ جاﺅ عائلہ ۔ سنبھل جاﺅ عائلہ ۔ تم سنڈریلا ہو ، یہ اظہار تمہارے بارہ بجے۔ ادھر تم اظہار کرو گی اور ا دھر بارہ بج جائیں گے اور سب ختم۔
کیاخبر ا سے تم سے محبت نہ ہو ؟ ا س کے لفظوں کے معنی عام سے ہوں ؟
پھر؟
یہ آخری بھرم بھی تمہارے پاس نہ رہا، تو؟
دماغ کی آخری دلیل پہ انا نے بھی سر ا ٹھایا تھا۔عبداللہ سکندر کی کالی آنکھوں کی تپش میں تپتی عائلہ سید نے پلکیں جھپکیں اور ایک جھٹکے سے ا ٹھ کے تیز تیز قدم ا ٹھاتی باہر کی اور بڑھ تھی۔
عبداللہ سکندر حیران وہیں بیٹھا رہ گیا۔
اس نے عائلہ کی ٹیبل کی طرف نگاہ کی تو حیران پریشان ذاکرہ کبھی اسے تو کبھی دروازے کی طرف بڑھتی عائلہ کو دیکھ رہی تھی۔
عائلہ کی کافی کا آدھا کپ ، اس کا فون ،والٹ اور ذاکرہ، اس اچانک افتاد پر حیران ٹیبل پہ ہی اس کا انتظار کر رہے تھے اور وہ کیفے سے باہر جا چکی تھی۔
دور کھڑے دیکھتے ،عمران خان نے عبداللہ کو بھی باہر جانے کا مشورہ اشاروں میں دیا ۔
عبداللہ نے پر سوچ نگاہوں سے گلاس وال کے پار نظر آتے عائلہ کے ہیولے کو دیکھا۔ ا سے ایک لمحہ لگا تھا فیصلہ کرنے میں۔ اگلے ہی پل کیفے میں موجود بہت سے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن، عبداللہ سکندر تیزی سے ا ٹھا اور دیوانہ وار بھا گتے عائلہ سید تک پہنچا تھا۔
پارکنگ لاٹ کے سامنے، بے چینی سے چہل قدمی کرتی عائلہ کو گا ڑی کا انتظا ر تھا۔ اپنی طرف تیزی سے آتے عبداللہ کو دیکھ ا س نے ر خ موڑا ہی تھا کہ ایک جھٹکے سے ر کی اور اگلے ہی پل واپس مڑے ، حیران آنکھوں اور نیم وا لبوں سے اپنا ہا تھ عبداللہ کی مضبوط انگلیوں کے حصار میں دیکھ رہی تھی۔
گرے چادر سر سے سرک کے کاندھوں پہ جھول رہی تھی۔ براﺅن بال چہرے پر اڑ رہے تھے اور اس کی ناک کا ہیرا سورج کی روشنی میں دمک رہا تھا۔
جانے کون سا جذبہ تھا جو اُ س کا چہرہ گلابی ہو گیا تھا۔ حواس باختہ عائلہ نے کیفے کی طرف دیکھا۔
فق چہرہ لیے ا س کا سامان اٹھائے ذاکرہ گلاس وال سے نیچے عائلہ ہی کو دیکھ رہی تھی۔
کیفے کی سیڑھیوں پہ کھڑا عمران خان بھی ا ن ہی کو دیکھ رہا تھا۔ عائلہ کو اپنے طرف دیکھتا پا کے جانے کیوں وہ سر جھکا کے اپنا چہرہ چھپا گیا۔
عائلہ کی حیران نگاہیں پھر عبداللہ تک آئی تھیں جو آنکھوں میں محبت کے ہزاروں رنگ سجائے ، اس کے چہرے کو ہی تک رہا تھا۔
عائلہ کی سہمی نظریں اپنے ہاتھ پہ گئیں جو اب بھی عبداللہ کے سنہرے ہاتھ میں موجود ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے گندم کے خوشے پہ گلابی گلاب کا پھول کھل گیا ہو۔
عائلہ چاہتی تھی ا سے کہے ، میرا ہاتھ چھوڑو مجھے نہ چھو ، میں سید زادی ہوں ، تم نا محرم ہو ۔
عائلہ چاہتی تھی اپنی چادر سر پہ اوڑھے، ا س کے بال جو چہرے پہ بکھرے تھے انہیں چھپائے، وہاں سے دور چلی جائے، مگر عائلہ کے پاس بھی تو ویسا ہی دل تھا جیسا ہر عام لڑکی کے پاس ہوتا ہے۔ وہ بھی ہر عام لڑکی کی طرح محبت کا اظہار چاہتی تھی ، وہ بھی ہر عام لڑکی کی طرح ا س لمحے کی گہرائی میں کھو چکی تھی۔
پھر مقابل بھی تو عبداللہ تھا۔ ا س کی چھوٹی سی محبت کے جہاں کا سورج عبداللہ، جس کی ایک نظر کی بھیک وہ شب کی نمازوں میں مانگتی رہی تھی۔ وہ ا س کے سامنے تھا توکیوں نہ عائلہ کے حواس سلب ہوتے؟
عبداللہ کی نگاہیں ”می رقصم می رقصم“ کا ورد کرتیں عائلہ کے گلابی چہرے پہ گھوم رہی تھیں ۔
وہ ا س کا ہاتھ ، ہاتھ میں تھامے ، گھٹنوں کے بل ا س کے قدموں میں جھکا اور وہیں گھٹنے ٹیکے بیٹھ گیا ۔