عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

داستانِ محبت

عشق”لا“

فریال سید 



انتساب !

ہر ذی روح کی پہلی محبت کے نام

بادلوں سے ا وپر ، آسمان اتنا نزدیک ہو کے بھی خاصا دور تھا۔ نیلا آسمان پوری کائنات میں خدا کی بنائی گئی ان گنت حسین نعمتوں سے بڑھ کے پسند تھا ۔ پتا نہیں کیا تھا پر اسے اپنا اور آسمان کا تعلق گہرا لگتا تھا خواہ وہ راتوں کو کالی آسمان کی چادر پہ ٹنکے ڈھیروں ننھے منے تاروں کو تکنا ہو یاصبح سویرے طلوع ہو تے سورج کو دیکھنا ۔ دن کو نکھرے ہوئے نیلے آسمان پہ سفید روئی کے گالوں کا سنہرے سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا ہو یا شام کو ڈھیروں رنگ آسمان پہ بکھیرتا غروبِ آفتاب کا منظر۔



بس اسے پتا تھا، تو صرف یہ کے اسے آسمان سے عشق تھا۔

خواتین و حضرات اپنے حفاظتی بند باندھ لیجیے ہم کچھ ہی دیر میں کراچی ایئرپورٹ لینڈ کرنے والے ہیں شکریہ۔

وہ ایک دم چونکی۔ خیالوں کا غلبہ اور آسمان کو اتنے قریب سے دیکھنے کا احساس ہی اتنا ہوش اُڑا دینے والا تھا کہ وہ کھو سی گئی تھی۔

نسوانی آواز اب ہدایات انگریزی میں دہرا رہی تھی ۔ 

اپنے بابا اماں اور لالا سے کچھ ہی دیر میں ملنے کے خیال نے ا سے سکون سا دیا تھا۔ ہیزل بران آنکھیں طمانیت سے موند کے عائلہ سید نے اپنا سر سیٹ کی بشت سے لگا لیا۔



کچھ دیر متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اسے لالا کا چہرہ نظر آ ہی گیا ۔ آج پھر اسے ائیرپورٹ سے لینے صرف لالا ہی آئے تھے۔

اس نے ٹھنڈی آہ بھر کے اپنی چادر ٹھیک کی اور دور کھڑے لالا کی طرف بڑھ گئی ۔ وہ کالا چشمہ ہاتھ میں پکڑے جھنجھلائے ہوئے انداز میں اسے ہی ڈھونڈھ رہے تھے۔ لالا نے اسے اپنی طرف آتا دیکھ کے خیرمقدمی مُسکراہٹ کے ساتھ جوش سے اس کی طرف ہاتھ ہلایا ۔

بڑے بھائی کی محبت پہ وہ مُسکرائی۔ ان کے قریب جا کے ہلکا سا سر کو خم دیا تھا تا کہ لالا سر پہ ہاتھ رکھ سکیں۔

السلام و علیکم لالا۔

اس کے سر پہ نہایت نرمی سے ہاتھ رکھتے لالا نے جوش سے جواب دیا

وعلیکم السلام گودی !“



گودیفارسی ، بلوچی اور براہوی میں شہزادی کو کہا جاتا ہے۔ بلو چستان میں یہ لفظ خواتین کو عزت دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عائلہ کو ا س کے دادا گودی کہتے تھے۔ اب رفتہ رفتہ وہ سب کی گودی بن چکی تھی۔

لالا مزید بولے :”کیسی ہو ؟ سفر کیسا رہا ؟ کوئی مشکل تو نہیں ہوئی؟ کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟

لالا کے اتنے سارے سوالوں کے جواب میں وہ صرف مُسکرا ہی سکی۔ 

چلیں ؟

تھکاوٹ سے چور لہجے میں عائلہ نے پوچھا، تو معید سید نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ 

گاڑی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے آخر عائلہ پوچھ بیٹھی :”بابا آج پھر نہیں آئے ؟

معید کے قدم تھوڑے ٹھٹکے پر وہ بولا تو لہجہ بالکل عام سا تھا :”پگلی !پتا تو ہے تمہیں بابا کتنے مصروف ہوتے ہیں اور دیکھو تمہارا ہینڈ سم لالا خود آیا ہے۔ کیا یہ کافی نہیں؟



عائلہ کو ان کی مُسکراہٹ مصنوعی لگی۔ آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ نہ ہوتا، تو وہ کبھی اس سے جھوٹ نہ کہہ پاتے۔ وہ بھائی کی آنکھیں پڑھنے میں ماہر تھی پر اب احساس ہوا کہ وہ ہونٹ بھی پڑھ سکتی ہے۔

لالا کا دل رکھنے کو عائلہ بھی مُسکرا دی :

آپ اکیلے کہاں آئے ہو پورا کانوائے ساتھ لائے ہو۔

مصنوعی غصہ چہرے پہ سجاتے، عائلہ نے اپنی چھوٹی سی ناک چڑھائی تھی۔

معید سید کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

وہ بچپن سے اپنی بہن کی عادت سے واقف تھا۔ اسے اپنی گاڑی کے پیچھے بندو قیں اٹھائے گارڈز کی گاڑیاں زہر لگتی تھیں ۔ وہ کبھی انہیں کانوائے بلاتی تو کبھی بابا کی فوج ۔ 



وہ سوچے جا رہا تھا اور اپنے سامنے کھڑی 20 سالہ اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اس کے لیے آج بھی وہی عائلہ تھی ، چھوٹی سی معصوم عائلہ جس کی ناک کھینچ کے اکثر وہ اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا۔ کوئی کچھ بھی بولے وہ جانتا تھا اس کی عائلہ اس کی گودی کبھی اس کی یا اس کے بابا میر ابراہیم سید کی عزت پہ آنچ نہیں آنے دے سکتی ۔

لالا۔

عائلہ نے ا ن کے چہرے کے سامنے انگلیاں لہرائیں۔

کہاں کھو گئے ؟

اپنے ہونٹوں پہ سجی دو سال پرانی کرب کی داستان کو نہایت سلیقے سے چھپاتے ہوئے وہ مُسکرایا:

میں سوچ رہا تھا اب جب کہ آ ہی چکی ہو، تو اپنی بھابی کو بھی ساتھ لے آتی۔



عائلہ نے پہلے حیرت سے بھائی کو دیکھا پھر کھلکھلا کے ہنس دی اور معید سید نے دل ہی دل میں اس کی ہنسی کی سلامتی کی دعا کی تھی۔ 

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!