صدیاں — سائرہ اقبال

”آپ اماں سے بات کر لیں، اُمید ہے انہیں کوئی اعتراض نہ ہو گا کیوں کہ اب آپ کماتے ہیں۔” میں نے چائے کپوں میں اُنڈیلتے ہوئے کہا۔
وہ کہنے لگا: ”نہیں میں نے نوکری چھوڑ دی۔ وہ نوکری تھوڑی، مزدوری تھی اور ویسے بھی تُمہاری تنخواہ اتنی ہے کہ ہم دونوں کا آرام سے گزارا ہو جائے گا۔”
جی تو چاہا کہ ٹرے اُٹھا کے اس کے سر پر مار دوں مگر کیا کرتی۔ خاموش رہی اور کہہ دیا کہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے۔ بھابھی کو تو جیسے آگ لگ گئی۔ مہینے میں ہی اپنے بھائی کے لئے ایک لڑکی بیاہ لائیں اور پھر شادی کا قرض میں اُتارتی رہی۔
ایک دن اماں مجھ پہ جان نچھاور کر رہی تھیں۔ اتنا پیار جتا رہی تھیں کہ میں نے جھٹ سے کہا۔
”اماں تنخواہ آنے میں ابھی پانچ دن باقی ہیں ۔ کہو تو جو پیسے جوڑے ہیں، وہ لا دوں۔” اماں رونے لگیں اور کہا:
”ہاں اب تو میں بس پیسے لینے کے لئے ہی رہ گئی ہوں۔” ”صفائی میں صبح کر گئی تھی ۔ کھانا بنا دیا ہے ، روٹیاں ابھی بنا کر آئی ہوں۔” میں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
اتنے میں حاجرہ آئی اور کہنے لگی :
”پرسوں تیار رہنا ضوفی، اماں بتا دیا ہے ناں اسے؟”
اماں مسکرانے لگیں۔
میں نے حیرانی سے پوچھا: ”کیوں؟ پرسوں کیا ہے؟”
”تمہارا نکاح۔” حاجرہ نے چھالیا چباتے ہوئے کہا۔
”تو میری بہو بنے گی۔ نعمان کی دُلہن۔” اماں نے کہا ۔
میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میں اپنے حواس کھو بیٹھی۔ جلدی میں کچھ سمجھ نہ آیا۔ بھاگی بھاگی آپا کے کمرے میں گئی۔ آپا کُرسی پر بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھیں۔ میں آپا کی گود میں سر رکھ کر رونے لگی۔ خوب روئی اور بتایا:
”آپا ، وہ میری شادی نعمان بھائی سے کر رہے ہیں۔’ آپا خاموش رہیں کچھ دیر بعد کہا۔
”ان کو کہو ، جس سے مرضی شادی کر دیں۔ تُمہیں کوئی اعتراض نہیں ۔ بس تُم شادی کے بعد نوکری نہیں کرو گی۔”





میں نے ایسا ہی کیا ۔ اماں برہم ہو گئیں اور کہنے لگیں: ”پھر گھر کیا تیرا باپ چلائے گا؟”
میں نے حیرت سے اماں کو گھُورا ۔ اماں چلانے لگیں ، ‘یہ صلہ دے گی تو مجھے ہمارے احسانوں کا؟ اس لئے تجھے پال پوس پر بڑا کیا ہے؟”
حاجرہ بھی آگئی اور کہنے لگی ۔ ‘میں نوکری ڈھونڈ رہی ہوں اماں ۔’
اماں حیرت سے حاجرہ کی طرف دیکھنے لگیں۔ ”تو نکل یہاں سے ، میری بیٹی ہے ہمیں دیکھنے کے لئے۔”
”میں اپنے بچوں کو لے کر الگ ہو جائوں گی ۔اسے صرف میری تکلیف ہے۔” حاجرہ نے جملہ مکمل کیا۔
اماں خاموش ہو گئیں اور اُٹھ کر چلی گئیں ۔میں کچھ دیر روئی اور پھر آنسو خشک ہو گئے ۔ گھر ایسا تھا جیسے سرایا، جس کا جی چاہتا وہ سستانے کو پہنچ جاتا ۔ اب گزر بسر مشکل ہو گیا تھا ۔ دو دو نوکریوں کے باوجود صرف دو وقت کا چولہا جلتا تھا۔ ایک دن جی میں آیا کہ تھوڑا رو لوں۔ آپا کے کمرے میں گئی اور آپا کی گود میں سر رکھ کر کہنے لگی:
”مجھے اپنا آپ خالی خالی سا لگتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کوئی میرے اندر چیخیں مار رہا ہے۔ کوئی مُجھے میرے ہی اندر سے پُکار رہا ہے۔ میں گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتی ہوں مگر کوئی نہیں ہوتا۔ میں آنکھیں بند کرتی ہوں اور خود کو قہقہے لگاتا ہوا دیکھتی ہوں مگر کوئی نہیں ہوتا۔ آپا میں نہیں ہنستی، میں نہیں چلاتی مگر پھر بھی مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ سب میں کر رہی ہوں؟
آپا خاموش تھیں ۔ میں نے آپا کا ہاتھ تھاما تو ٹھنڈا پڑ رہا تھا ۔ میں چلّا اُٹھی ۔ سب کو اکٹھا کیا ۔ سب خاموشی سے کمرے میں آتے گئے اور جاتے گئے جیسے آپا سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو ۔ آپا کی وصیت کے مطابق ڈاکٹر علی کو فون کیا گیا ۔آپا کفن میں لپٹی باہر صحن میں چارپائی پر پڑی تھی۔ ڈاکٹر علی آئے، ایک نظر آپا پہ ڈالی اور چلے گئے۔ میں آپا کی کُرسی پر ڈائری سینے سے لگائے بیٹھی تھی ۔ آپا کو کب دفنایا معلوم نہیں۔
”پھر بیس برس سے اب تک نہ جانے کیا ہوا ۔خاموشی ، سناٹا اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔میں چلّانا چاہتی تھی مگر آواز نہ نکلتی تھی ۔ میں سر دیواروں میں مارنا چاہتی تھی مگرایسا لگتا کوئی میرے سر کے آگے نرم تکیہ رکھ دیتا ہے ۔ کبھی کبھار وہ ہاتھ ڈاکٹر علی کا لگتا ہے۔۔”
صفحہ پلٹتی ہوں تو آپا کو پھر سے کھڑکی میں کھڑا دیکھتی ہوں مگر اب کی بار آپا دُلہن بنی ہیں ، ہنس رہی ہیں ۔ گھوڑا ناچ رہا ہے ۔ ڈاکٹر علی گھوڑے پر سوار ہیں ۔ مولوی اندر آکر پوچھتا ہے۔
”رضیہ بنتِ صادق اور علی بن طفیل ۔۔ آپا کے الفاظ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپا خوشی سے جھوم رہی ہیں ۔۔ پھر صدائیں آتی ہیں ۔۔ قبول ہے ، قبول ہے۔۔”
”میں منتظر ہوں کب بارات اندر آئے ، ڈاکٹر علی میرا ہاتھ تھامیں اور یہاں سے دُور لے جائیں ۔ مگر یہ کیا، اماں نے بارات بھیجنے سے انکار کر دیا ۔ اماں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب گھر داماد بن کر رہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بے حد سمجھایا اور کہا کہ کوئی اور حل نکال لیتے ہیں مگر خدارا یہ نہ کیجئے ۔ اماں ٹس سے مَس نہیں ہوئی ۔ بارات واپس چلی گئی۔ ڈاکٹر علی واپس چلے گئے ۔ وہ تب گئے تھے جب میں سُرخ جوڑے میں تھی اور آئیں گے تب جب سفید میں لپٹی ہوں گی۔”
میں نے آپا کی ڈائری بند کر دی ۔ میرے سر پر بھی چاندی کا بسیرا ہے ۔ میں بھی کُرسی پر جھُول رہی ہوں کھڑکی سے باہر جھانک رہی ہوں ۔ نظارہ کافی بدل گیا ہے ۔ گھر کے سامنے پارک ہے ۔ لڑکے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی دو نوید بھائی کے بھی۔ نہ جانے کون سے ہیں۔پتا نہیں کون کہاں آیا اور کہاں گیا؟ کسی کا معلوم نہیں ۔ میں دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہوں ۔ تنہائی ایک پاگل وحشی درندے کی طرح آپے سے باہر ہو کر میرے اندر میری روح میرے جسم کو چھلنی کرتی ہوئی باہر آنے کی کوشش کرتی ہے اور ہر طرف سے میرا رستہ بند پا کر نس نس کھٹکھٹاتی ہے ۔ شدت اتنی ہے کہ میری رگوں، میری نسوں غرض کہ میرے پورے جسم پر شگاف پڑ جاتے ہیں اور میں خود سے خود کو ہی نہیں پہچان پاتی اور پھر آپا کی آواز کانوں میں گونجتی کہ۔۔
”میرے جیسی نہ ہو جانا۔۔”
میں چیختی چلاتی بال نوچتی ، سینہ کوبی کرتے ہوئے آپا کو آوازیں دیتی، دیوانہ وار کمرے کا کونا کونا چھانتی، جب واپس آتی تو آپاکو وہیں کُرسی پر بیٹھے کھڑکی سے باہر جھانکتا ہوا پاتی۔




Loading

Read Previous

نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

Read Next

تھکن — سمیرا غزل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!