آپا نہ تو گونگی تھی نہ بہری مگر انداز واطوار ایک روح کے سے تھے ۔ نہ بولتی ، نہ سُنتی ، ایک زندہ لاش کی طرح کبھی جی میں آتا تو صحن میں آکر ایک چکر لگا لیتی اور وہ جب آتی سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے یا پھر سب کو چُپ لگ جاتی۔ ایک دِن نوید بھائی کی بیٹی نے یہاں تک کہہ دیا کہ
”یہ ڈائن یہاں کیوں کھڑی رہتی ہے ؟’ ۔ آپا گُم سُم خاموش اپنی دُھن میں مگن رہیں ۔ حاجرہ نے دو تھپڑ لگائے اور پُوچھا:
”یہ کس نے سکھایا ؟” وہ معصوم رونے لگی اور کہا:
”پھوپھو امی نے کہا کہ یہ ڈائن ہے ہر وقت کھڑکی میں کھڑی رہتی۔ ہمارے برے نصیبوں کی ذمہ دار۔”
”آئندہ ایسا کچھ کہا نہ تو کان اُتار کے ہاتھ میں پکڑا دوں گی۔” حاجرہ نے کان کھینچتے ہوئے تاکید کی۔
وہ جانے لگی تو حاجرہ نے کہا: ”سُنو ! بھابھی میرے بارے میں کیا کہتی ہے؟”
وہ سوچنے لگی ”ہاں ایک دِن اماں کہہ رہی تھی وہ فسادن ہے۔ چالاک عورت۔ ایک پیسہ نہیں دیتی، قبر میں لے کے جائے گی کیا؟ اور ۔۔۔ اور ۔۔ ہاں یہ بھی کہا کہ اس سے اچھی تو وہ ڈائن ہے، جو سارا گھر چلاتی تھی۔”
”اچھا جائو۔” حاجرہ نے کہا۔
ایک دِ ن کسی امیر گھرانے سے میرا رشتہ آیا ۔ میری سہیلی کا کزن تھا ۔ میں بہت خوش ہوئی کہ چلو اماں کی ایک فکر تو اُترے گی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی سوچا کہ گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ دِل ہی دِل میں ارادہ بھی کر لیا کہ جو بھی ہو نوکری نہیں چھوڑوں گی ۔ پیسے اماں کو دوں گی تاکہ گھر کا خرچ چل سکے ۔ان کے چچا زاد کی بیوی فوت ہو گئی تھی، یہ بھی طے کر لیا تھا کہ حاجرہ کا وہاں رشتہ کروائوں گی، جوان ہے ابھی۔ گھر بس جائے گا تو اچھا ہے۔ سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ وہ تاریخ لینے آئے تو معلوم ہوا کہ اماں نے نہ کر دی ہے۔ اس دِن پہلی بار آپا نے مُجھے خود آواز دے کر کمرے میں بُلایا اور کہا:
”دیکھو ضوفی۔۔ ڈاکٹر علی کہا کرتے تھے کہ انسان کے (چھتیس) احساسات ہوتے ہیں۔ جن میں سے دو سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ ایک غصہ، دوسرا پیار۔۔ ہمارے فیصلے وہی کراتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دماغ ان دو احساسات کے دبائو میں آجاتا ہے۔ فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا۔”
”آپا، جو فیصلہ اماں کریں گی مجھے قبول ہوگا۔” میں نے فرماں برداری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔
آپا نے طنز بھری مُسکراہٹ لبوں پر بکھیری اور ایک قہقہہ لگایا۔ وہ قہقہہ بہت اُونچا تھا ۔ پُورے گھر میں اس کی آواز گونجی ۔ دیواریں لرز اُٹھیں ۔ مُجھے ایسا لگا کہ زمین میں دراڑ آ جائے گی اور سب یہاں دفن ہو جائیں گے مگر کچھ نہ ہوا ۔سب نے ایک دو سیکنڈ کے لئے کان دھر ے اور اپنے اپنے کاموں میں پھر سے مصروف ہو گئے ۔
اُس رات اماں نے مجھے بُلا یا اور لمبی تقریر کی ۔
”دیکھ ضوفی! مجھے معلوم ہے کہ مجھے یہ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو میری بیٹی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور تجھے بھی پتا ہے کہ تو نا مراد بیٹیوں اور بیٹوں سے بڑھ کر ہے۔ اب تجھے ایسے تو رُخصت نہیں کرسکتے۔ وہ رشتہ تیرے لئے کچھ مناسب معلوم نہ ہوا۔ سو میں نے منع کر دیا۔” کچھ دیر کے لئے میں نے اماں کو دیکھا اور نظریں جُھکا لیں۔ اماں نے بھی سَر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ دیا
دِن یونہی گزرتے رہے۔ آپا اپنے کمرے میں رہتیں۔ بھائی بھابھی اپنے کمرے میں حاجرہ اور سمیرا ان میں کچھ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ آہستہ آہستہ باتیں کرتیں، جب میں آتی تو خاموش ہو جاتی پھر ایک دن یہ انکشاف ہوا کہ سمیرا کا رشتہ آیا ہے۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ ڈھولکی رکھی، تاریخ طے ہوئی، چٹ منگنی، پٹ بیاہ والا کام ہو گیا۔
بارات والے دِن میں کچھ کاموں میں مشغول رہی۔ مہمانوں کی طرف جانے لگتی تو اماں یا حاجرہ گھیر لیتیں، کبھی کوئی کام تو کبھی کوئی۔ خیرمحبت غالب رہتی، خوشی خوشی سارے انتظامات دیکھتی گئی۔ رُخصتی کے وقت مُجھے اپنی سہیلی ملی۔ وہی جس کے توسط سے میرا رشتہ آیا تھا۔ مِل کر بہت خوش ہوئی اور پُوچھنے لگی۔
”ارے بتائو تو ضوفی بڑی چھپی رُستم نکلی۔ تُم نے کبھی بتایا ہی نہ تھا کہ تمہاری منگنی بھابھی کے بھائی وارث سے ہو چکی ہے۔”
میں کچھ دیر صائقہ کو سکتے کے عالم میں دیکھتی رہی، پھر کچھ سنبھلتے ہوئے کہا:
”تُم نے پوچھا ہی نہیں تو کیسے بتاتی؟” اور بات بدلنے کی غرض سے پوچھا:
”تو ہو گیا رشتہ ؟”
وہ ہنسنے لگی ”ہاں اور طنز کرو تُمہارے جیسی بھابھی نہیں ملی ناں اس لئے مگر تُم سے کم بھی نہیں ہے سمیرا۔”
جواب سُنتے ہی میرے سر پر بجلی گری مگر اس کو سہارا محبت نے دیا ۔ محبت ایک بار پھر سائبان بن کر میرے سر پر منڈلانے لگی ۔
رُخصتی ہو گئی۔ کسی نے کوئی بات نہ کی ۔ مہینے بعد حاجرہ کا بھی رشتہ ہو گیا ۔ ایک بار پھر محبت گہرے سمندروںسے غوطہ کھاتی ہوئی ، تیز لہروں کو چیرتی ہوئی اُوپر آئی اور میں نے حاجرہ کی شادی بھی خود کروائی ۔اب گھر میں ، میں ، اماں ، نعمان اور آپا رہ گئے ۔ نوید بھائی کی ایک بار پھر سے نوکری ہو گئی ۔ چار پیسے پھر سے آئے تو الگ شفٹ ہو گئے اور بھابھی کے بھائی کو بھی ساتھ کام پر رکھ لیا ۔ ایک دِن تو یہاں تک ہوا کہ بھابھی اماں سے نوید کا حصہ لینے پہنچ گئی۔ اماں نے کہا،
”جو بھی ہے بھئی تُمہارا اور تُمہارے میاں کا ہی ہے ، نعمان کا کیا ہے۔ جب مروں گی تو لے جانا۔”
بھابھی نے یہاں تک کہہ دیا: ”ٹھیک ہے اماں ، بس تاریخ دے دو اب میں تب ہی آئوں گی۔”
اماں نے پُوچھا ، ”تاریخ ۔۔ مرنے کی کیا؟”
تو بھابھی ہنس کر بولیں: ”مجھے تو بس مکان سے غرض ہے۔”
”باتوں باتوں میں بھابھی جتا گئیں کہ بیٹیاں اپنے گھر کی ہیں ، میاں کمائوں ہیں اور حصہ تو صرف خون کے رشتوں کا ہوتا ہے ، سگی اولاد کا۔”
میں نے چائے رکھتے ہوئے اماں کی طرف دیکھا۔ اماں خاموش تھیں۔ پھر کہنے لگیں،
”ارے بھائی کہہ دیا ناں ، ہم نے قبر میں تھوڑی لے کر جانا ۔تُم لے لینا۔”
ایک بار پھر محبت کسی بند کوزے سے آوازیں لگانے لگی ۔ میں نے ڈھکن اُٹھایا تو جھٹ سے باہر آ گئی اور میں نے اماں اور بھابھی کو کہا:
”سچ کہہ رہی ہیں اماں۔ آپ کا اور نعمان بھائی کا ہی ہے سب کچھ اور ہے ہی کون؟”
بھابھی اترانے لگیں ۔ میں کچن میں گئی تو میرے کانوں میں بھابھی کی سرگوشیاں پڑیں۔
”اماں! وہ جو کلرک کا رشتہ آیا تھا ضوفی کے لئے، کیا جواب دیا ان کو ؟”
‘کہہ ڈالا کہ لڑکا گھر داماد بنے تو ٹھیک ورنہ ہماری بیٹی کو رشتوں کی کمی نہیں ۔’ اماں نے جواب دیا۔
”تو کیا کہا انہوں نے ؟” بھابھی نے کُریدتے ہوئے پوچھا۔
”کہنا کیا تھا بگڑ اُٹھی ماں۔” اماں نے بتایا۔
”میں نے تو ہاں کر کے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ لڑکی نوکری کرے اور تنخواہ ہمارے ہاتھ میں رکھے۔ ارے بھئی ہم پیسے کے بھوکے تھوڑی ہیں۔ میں تو بس یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ لوگ لالچی تو نہیں۔” اماں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا۔
”تو کیا لالچی لوگ تھے ؟” بھابھی نے اور قریب ہوتے ہوئے پوچھا۔
”بد تمیز ، بد لحاظ سا لڑکا تھا، کہنے لگا کہ میں نے کون سا نوکری کرانی ہے۔” اماں نے جواب دیا۔
بڑی آپا کو دورہ پڑا، وہ دیوانوں کی طرح ہنسنے لگیں ۔ اماں بہری سی بن کر خاموش ہو گئیں ۔ بھابھی کانوں میں انگلیاں دینے لگیں ۔ میں آپا کے کمرے کی طرف جانے لگی تو اماں نے آواز دی ۔
”اے ضوفی۔۔ ضوفی ۔۔ واپس آ۔’ ‘
میں رُک گئی۔ بھابھی نے کہا: ”اماں ایسے کنواری لڑکی کو اس کے کمرے میں نہ جانے دیا کرو ۔ پتا نہیں کتنے پریتوں کا سایہ ہے؟”
میں خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ سال ہی گزرا تھا کہ حاجرہ پھر سے گھر آ گئی ۔ اب کی بار صرف بیٹی ہی نہیں بلکہ گود میں ایک بیٹا بھی اُٹھا لائی۔ نوکری ویسے ہی چھوڑ چُکی تھی۔ دوسری بار طلاق کے داغ نے نہ صرف چِڑچِڑا بلکہ نیم پاگل بھی کر دیا تھا۔ ایک دِ ن حاجرہ کی بیٹی دوڑی ہوئی میرے پاس آئی اور کہنے لگی، ”ضوفی آنٹی۔۔ یہ سایہ کیا ہوتا ہے ؟’ میں نے پیار سے اس کا گال تھپکا اور کہا:
”تُم کیوں پوچھ رہی ہو گُڑیا؟’ ‘
کہنے لگی: ”کوئی مہمان آئے ہیں ۔ اماں ان کو کہہ رہی تھیں کہ میری دو بیٹیوں پر سایہ ہے۔ ایک تو بڑی آپا اور دوسرا ضوفی آنٹی آپ کا نام لیا۔ مگر آپ تو ٹھیک ہو۔ نہ آپا کی طرح کھڑکی میں کھڑی ہوتی ہو۔ نہ ڈرائونا سا ہنستی ہو۔”
میرے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھُوٹا اور گُڑیا کے پیر پر لگا ۔ مہمان فوراً اُٹھ کر چلے گئے ۔اماں حاجرہ دوڑی دوڑی آئیں اور کہا: ”بائولی تو نہیں ہو گئی کیا؟”
اماں اور حاجرہ کے پیچھے محبت بھی دوڑتی دوڑتی آئی ، مجھے مُسکرا کر دیکھا اور پیار سے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ میں خاموش ہو گئی ۔ دن گزرتے گئے ، انہوں نے تو گزرنا ہی تھا ۔ وقت کب انتظار کرتا ہے؟ گزرتا چلا جاتا ہے ۔ہچکولے کھاتا ، چھلانگیں لگاتا، کبھی رینگتا تو کبھی جھٹ سے صدیوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کر لیتا۔ نوید بھائی کی نوکری پھر سے چلی گئی۔ سب پھر سے اماں کے گھر آ گئے۔ وارث ابھی بھی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ کام کرنے کی وجہ سے ہاتھوں پہ چھالے پڑ چُکے تھے۔ ایک دن کچن میں آیا ، میں چائے بنا رہی تھی۔ کہنے لگا:
”ضوفی، مجھے تُم سے شادی کرنی ہے۔”