شکیل عادل زادہ – گفتگو

حسن عمر: ہمارا یہ ماننا ہے  کہ اردو لشکری زبان ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے لیکن پھر ہماری بول چال میں چنتا، کارن اور چتائونی جیسے خالص ہندی الفاظ بہ کثرت استعمال ہونے لگے ہیں۔ حالاںکہ اُردو زبان میں ان کے متبادل عمدہ الفاظ بھی ہیں، لیکن لوگ انہیں استعمال نہیں کر رہے۔ آپ کے نزدیک یہ صورت حال تشویش ناک نہیں؟

شکیل: (ہنستے ہوئے) جب آپ پوری کی پوری ہندی بول رہے ہیں تو پھر آپ کو ان لفظوں کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ زمانے کے دیگر تغیرات کے ساتھ ساتھ زبان بھی بدلتی رہتی ہے۔ پہلے فارسی کی آمیزش زیادہ تھی۔اس کے بعد ہندوستانی فلمیں آنا شروع ہوئیں، جن کے زیرِاثر خالص ہندی الفاظ نے ذہنوں اور زبانوں تک رسائی حاصل کی لہٰذا وہ بول چال میں بھی استعمال ہونے لگے۔ اس پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے، چند لفظ شامل ہونے سے اُردو زبان نہیں بدلے گی۔ ہم سنسکرت آمیز ہندی نہیں بول سکتے۔وہ تو ہندوستان والے بھی نہیں بول پاتے۔ہندوستانی عدالت کا لفظ بولتے ہیں جو فارسی کا ہے، وہ بہ کثرت ایسے الفاظ بولتے ہیں جو فارسی سے کے ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں۔میں جب ہندوستان گیا ،تو وہ بالکل ہماری زبان میں بات کررہے تھے، دو چار الفاظ کے سوا کچھ بھی نیا نہ تھا۔اس سے گھبرائیں نہیں آپ کی زبان لشکری ہے، اس میں تبدیلی آتی رہی ہے اور آتی رہے گی۔ وہ اردو جو غالب بولتا تھا وہ آپ نہیں بولتے، جو آپ بول رہے ہیں و ہ آپ کا پوتا نہیں بولے گا۔ اس میں اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے(مسکراتے ہوئے) آنے دیں لفظ آرہے ہیں تو۔ ہماری بیٹی تفریحاً کہتی ہے آپ کے آشیربادکی ضرورت ہے۔ وہ فلمیں دیکھتی ہے، ہندی الفاظ سنتی  ہے، اثر توہوگا۔آپ اس اثر کو روک لیں۔ نہیں روک سکتے تو پھر آپ کو قبول کرنا پڑے گا۔ آپ کیا ٹی وی اور کمپیوٹر کو روک سکتے ہیں؟نہیں روک سکتے تو قبول کریں، سر جھکا لیں۔

حسن عمر: آج کل جو ڈائجسٹ چھپ رہے ہیں وہ آپ پڑھتے ہیں؟

شکیل: میں نے کبھی کوئی ڈائجسٹ نہیں پڑھا۔ پہلے بھی میں ڈائجسٹوں کو کھول کر صرف ان کا layout دیکھتا تھا، ان کے سرورق دیکھتا تھا۔ لیکن ان کا متن کبھی نہیں پڑھا، ان کی کہانی کبھی نہیں پڑھتا۔

حسن عمر: عصرِ حاضر میں نئے لکھنے والوں میں سے کوئی جس کی تحریر آپ کو پسند ہو۔

شکیل: کہانی نہیں لکھ رہا کوئی۔ کوئی قابلِ ذکر اور قابلِ رشک کام اور نام سامنے نہیں آرہا۔وہاں لکھنو سے نیّر مسعود نے دو تین اچھی کہانیاں لکھیں۔ مرزا حامد بیگ نے ایک اچھا ناول لکھا تھا، مستنصر حسین تارڑ ، بانو قدسیہ کی تحریریں اچھی ہیں۔

حسن عمر: یہ تو سر پرانے لوگ ہوگئے ، نئے لوگوں میں کوئی؟

شکیل: نئے کوئی نہیں آرہے۔ نئے میں کوئی ایسا نہیںآرہا جس کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ یہ بہت اچھی کہانی لکھ رہا ہے۔

حسن عمر: شاعری میں آپ کا پسندیدہ کون ہے؟

شکیل : بھئی شاعری میں تو نمبر ون میر ہی ہیں ہماری نظر میں۔اس کے بعد آتے ہیں غالب، یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے۔ اقبال بڑے شاعر ہیں۔جدید نظم کے بانی تو حالی ہیں، لیکن اقبال نے اس صنف کو  بامِ عروج پہ پہنچا دیا۔ نظیر اکبر آبادی بھی پسند ہیں، جدید شاعروں میں منیر نیازی نے بہت متاثر کیا۔جون صاحب پسند ہیں، وہ تو خیر ہمارا گھر کا ہی معاملہ تھا۔ رئیس امروہوی اتنے اچھے شعر نہیں کہتے تھے جتنے اچھے جون کہتے تھے( مسکراتے ہیں) ۔جون صاحب باکمال شاعر تھے، انور شعور بہت اچھے شعر کہتے ہیں، شکیب جلالی بہت اچھے شاعر ہیں۔ فیض صاحب کی شاعری ، واہ واہ! شعر بہت کہا جارہا ہے بس نثری کام کالم نگاری تک رہ گیا ہے۔

حسن عمر: کالم نگاری میں آپ کا کوئی پسندیدہ؟

شکیل: کالم نگاری میں اسلوب کے اعتبار سے ہارون رشید بہت اچھا لکھتے ہیں، نظریاتی اختلاف اپنی جگہ۔متن رؤف کلاسرا کا بھی اچھا ہوتا ہے، متن، زبان نہیں۔ زبان کے اعتبار سے بہترین کالم ابنِ انشائ، چراغ حسن حسرت ، عبدالمجید سالکلکھتے تھے ۔ وہ لوگ ختم ہوگئے ہیں۔

Loading

Read Previous

چشمہ – انعم سجیل – افسانچہ

Read Next

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!