حسن عمر: لیکن جب ان سے پوچھا جائے تو اکثر لکھاریکہتے ہیں کہ ابھی ہمارا ذہن چل نہیں رہا ، ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کیا لکھیں، وغیرہ وغیرہ۔
شکیل: تو پھر معاہدہ نہ کریں۔ اپنی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھتے ہوئے معاہدہ کریں، اس فیلڈ میں کئی ایسے ایمان دار لوگ بھی تھے جو وعدہ خلافی سے بچنے کے لیے منع کردیتے تھے کہ ہم وقت پر نہیں لکھ پائیں گے۔
حسن عمر: سب رنگ بہت پسند کیا گیا ،بہت لوگوں نے پڑھا، لیکن پھر بھی ادبی حلقوں میں ڈائجسٹ کو ادب میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ ادیب ابھی تک ڈائجسٹ رائٹرز کو رائٹرز نہیں مانتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
شکیل: ابھی آپ خود فرمارہے تھے کہ ہمارے ادیب سائنس، فکشن، جاسوسی ادب پر نہیں لکھتے۔ اصل میں ہم رومانس اور چند دیگر موضوعات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ اگر کوئی سائنسی تحقیق پر مبنی تحریر آتی ہے تو اس میں ہمارارویہ مختلف ہوجاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادب سے گری ہوئی چیز ہے۔ ہم نے دراصل ادب کو ایک دائرہ کے اندر محدود کر دیا ہے۔ ابنِ صفی صاحب نے کمال کی تحریریں لکھی ہیں، انہیں ادب میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ اشتیاق احمد صاحب نے بہت کام کیا، اُردو کی کہانی کے لیے ان کی کاوشیں بے حد قابلِ قدر ہیں لیکن انہیں بھی ہم ادب میں شمار نہیں کرتے۔ پہلے یہ رویہ زیادہ شدید تھا،رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا، جب آپ جیسے نوجوان یہ کہیں گے کہ بھئی سائنس فکشن کوکیوں نہیں شامل کرتے ادب میں تو آہستہ آہستہبالکل ختم ہو جائے گا۔ایک مزے دار بات بتائوںآپ کو، ہم نقوش سے کہانیاں انتخاب کر کے سب رنگ میں شائع کرتے جنہیں ذوق و شوق سے پڑھا جاتا۔ نقوش کی حیثیت ادبی ہے وہاں یہ کہانیاں ادب پارے کی حیثیت رکھتی تھیں لیکن جب ہم سب رنگ میں شائع کرتے تو وہ غیر ادبی ہوجاتیں۔ (قہقہہ) جو تراجم ہم شائع کرتے وہ یورپ کی بہترین ادبی کہانیاں ہوتی تھیں۔اسد محمد خان نے ہمارے لیے ناخدا لکھی وہ غیر ادبی تحریر تھی لیکن بعد میں اس کا کچھ حصہ ”آج” میں چھپاتو وہ ادب پارہ ہوگیا (قہقہہ)۔ اب اس چیز کی کوئی مجھے تعریف بتادے کہ کون سی چیز ادب ہوتی ہے اور کون سی چیز ادب نہیں۔کوئی نہیں بتاتا۔ یہ ایک رویہ ہے ہمارا شیروانی پہننے کا، پان کھانے کا جو ختم ہوجائے گا۔جیسے اب آپ روائتی کتاب سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں، اب دور بدل رہا ہے۔ اب ڈائجسٹوں کو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا۔ شروع میں تو اخباروں میں یہ تک لکھا گیا کہ ڈائجسٹوں والے یہودی ایجنٹس ہیں جو ہندو تہذیب کا پرچار کررہے ہیں کیوں کہ شروع میں ہندو دیومالائی کہانیاں بھی چھپتی تھیں ڈائجسٹوں میں ۔لیکن ان اعتراضات کو بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
حسن عمر: آپ امریکہ، یورپ وغیرہ کو دیکھیں تو وہاں paperless culture عام ہونا شروع ہوگیا ہے، وہاں ڈیجیٹل پبلشنگ عام ہو رہی ہے، سب کتابیں ٹیبلٹ اور کمپیوٹر پر ہیں۔ اُردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے ہمیں یہ طریقہ کار اپنانا چاہیے؟
شکیل: بالکل اپنانا چاہئے!یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں لوگ کتاب کتاب کی بات کررہے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھ رہے کہ وہ رہے گی نہیں، چونکہ لفظ تھوڑی ختم ہورہے، لفظ تو موجود ہیں۔ بس اب لفظ کتاب پر نہیں آرہے ، سکرین پر آرہے ہیں ۔ اس میں کیا برائی ہے۔ مطالعہ کے رسیا جو پرانے لوگ ہیں، کہتے ہیں کہ کتاب پڑھنے میں زیادہ مزہ ہے ۔لیکن نئی نسل کو نہیں آئے گا۔ نئی نسل ڈیجیٹل بک سے زیادہ نزدیک ہے۔ میرے اپنے بچوں کو بھی کتاب سے رغبت نہیں بلکہ وہ بھی کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر ہی پڑھتے ہیں۔ تغیر ہے یہ زمانے کا، ناگزیر تبدیلی ہے، جسے نئی نسل کھلے دل سے قبول کر رہی ہے۔