شکستہ خواب — فرحین خالد

زندگی اگر بے کیف ہو تو اس میں آنے والا بدلاؤ، بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی مزاج میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں انسان روبوٹ بنا اپنے ریموٹ کے بٹن دبائے اُن کی لہر میں چُھپے احکامات نبھاتا جاتا ہے اس کی اپنی کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ نئے گھر میں آئے ہوئے مجھے ایک مہینہ ہوگیا تھا پھر بھی دل نہیں لگ رہا تھا حالاں کہ شہاب نے یہ گھر اپنی پسند کا سہی میرے نام پہ لیا تھا، اپنی ہی پسند کا فرنیچر میرے ساتھ جاکر آرڈر کیا تھا، اسی طرح گھر کی کلراسکیم خود ہی پسند کرکے میری اجازت بھی حاصل کرلی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ یہ سب وہ میرے لیے کررہا ہے کیوں کہ میں اس کی پہلی محبت تھی مگر میں خوش نہیں تھی۔





میری زندگی میں کوئی اختیار نہیں تھے۔ مجھے بس جینے کو کہا گیا تھا اور وہ بھی خوشی خوشی۔ ہار تو میں نے اسی دن مان لی تھی جب ماں جی نے ابا کے کہنے پہ مجھ سے پندرہ سال بڑی عمر کے شخص سے ناطہ جوڑ دیا تھا۔ ان کے خیال میں مستحکم مستقبل کی ضمانت کے لیے شوہر کا مالی اعتبار سے مضبوط ہونا ضروری تھا۔ وہ کہتی تھیں، حال کو بھلا کون جیتا ہے؟ سب گزرے ہوئے کل کو یاد کرکے آنے والے کل کی فکر میں جیتے ہیں۔ سو میرے حال کو بھی تلف کرکے شان دار مستقبل کے حوالے کردیا گیا۔ کاش کہ وہ لوگ نصیب بھی لکھ سکتے جس میں بے حساب خوشیاں میری منتظر ہوتیں جنھیں پاکے میں اپنا حال بھول جاتی۔ اگر ایسا ہوسکتا تو ہم خدا کو کیوں کر مانتے؟؟
میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے کتبے پہ 7 کا ہندسہ ضرور کندہ کرواؤں۔ یہ عدد میری زندگی پہ ایسے ہی راست چسپاں ہوتا ہے، جیسے ہاتھوں میں دستانہ۔ میں نے سات بار ایک نئی زندگی کی جھلک دیکھی اور وہ ہر بار ایک گام آکر منہ موڑ جاتی تھی، یوں میں ماں بننے کی سعادت سے محروم رہ گئی تھی۔ میری الماری میں ایک سیف بھی ہے جس کا کوڈ نمبر سات ہے۔ آج الماری ٹھیک کرتے ہوئے میرے ہاتھ اس کی طرف غیر ارادی طور پر بڑھ گئے۔ میں نے آہستگی سے کھولا اور اس کے اندر رکھے اپنے قیمتی اثاثوں کو ٹٹولا… کچھ کو باہر بھی نکالا۔ وہ نرم و ملائم، نیلے اور گلابی رنگ کے بچوں کے ننھے مُنے کپڑے تھے، جو میں نے اپنی ہر زچگی میں بڑے شوق سے خریدے تھے۔ یہ میرے وہ شکستہ خواب تھے، جن کی تعبیر کو میں نے شدت سے چاہا تھا اور جن کی محرومی نے میرے اندر وہ خلا پیدا کردیا، جو دنیا کی کوئی نعمت پوری نہیں کرسکتی تھی۔ میرے اندر درد کا ایک فشار تھا، جو ہمہ وقت جاری رہتا اور جب کبھی تھمتا تو ٹیسیس ہوک کی صورت میں اٹھا کرتیں جن کو میں کھانس کھانس کر رفع کیا کرتی تھی…
پتا ہے… ہر جوڑے کا ایک نام بھی رکھا تھا میں نے … اس وقت میرے ہاتھ کی انگلیوں میں صوفیہ کی آستین دبی تھی… جو تین مہینے کی رہ کے مجھ سے بچھڑ گئی تھی… آج ہوتی تو پورے سات سال کی ہوتی… یہ خیال آتے ہی میں نے اس قمیص کو آنکھوں سے لگا لیا تاکہ اس کے لمس کو محسوس کرسکوں، اس کی بھینی بھینی خوشبو کو سونگھ سکوں مگر دروازے کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے جلدی سے ان آرزوؤں کو لپیٹ کے رکھ دیا کیوں کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ شہاب کو ان کے بارے میں پتا چلے۔ اس کے خیال میں تو سب کچھ اچھا تھا اس نے آسمان کے چاند تارے میرے قدموں میں لاکر رکھ دیئے تھے اور سمجھ رہا تھا کہ وہ میرے لیے کافی ہوں گے…
گھنٹی مسلسل بجے جارہی تھی میں نے جلدی سے باہر کا دروازہ کھولا تو سامنے کو رئیر والا کھڑا تھا… اس نے ڈبہ تھمایا تو میں نے سائن کرکے بے دلی سے لے لیا… سوچا کہ پتا نہیں شہاب نے پھر مجھے بہلانے کے لیے کچھ منگا لیا ہوگا۔ میں نے ڈبے کو وہیں کاؤنٹر پہ رکھا اور بستر پر جاکے ڈھ سی گئی۔





میری آنکھ کھلی تو جو پہلی چیز محسوس ہوئی وہ کچن سے آنے والی اٹالین کھانے کی خوشبو تھی… پتا نہیں کیوں شہاب کرتا ہے یہ سب… کھانا تو میں نے پکایا ہوا تھا… مگر شہاب پھر بھی نئی سے نئی ترکیبیں ڈھونڈتا ہے خواہ مخواہ۔ مجھے تو ہر کھانے کا مزہ ایک سا ہی محسوس ہوتا ہے… پھیکا… بے ذائقہ… گھڑی پہ نظر پڑی تو پتا چلا کہ مجھے سوتے ہوئے پانچ گھنٹے گزر گئے تھے۔ میں نے انگڑائی لی اور سست قدموں کے ساتھ کچن کا رُخ کیا… مگر دروازے میں ہی مجھے شہاب نے روک لیا اور آنکھیں بند کرنے کو کہا میں نے منع بھی کیا مگر وہ خود میری آنکھوں کو بند کرکے مجھے کندھوں سے تھامے ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ وہاں کا منظر ہی نرالا تھا۔ پورا کمرہ کانچ کی قندیلوں سے روشن تھا۔ میز پہ رکھے جابجا دیے جل رہے تھے جو رنگ برنگی سیپی نما پیالیوں میں خوبصورتی سے سجائے گئے تھے اور عین ان کے درمیان ایک سفید گلابوں کا گلدستہ کچھ اس طرح سجا تھا کہ اس کی بیلیں گلدان کے اطراف میں بھی جھول رہی تھیں۔ میں سب سجاوٹ دیکھ کر مُسکرا دی۔ شہاب کی طرف دیکھ کے پوچھا: ”آج کوئی خاص بات ہے جو میں بھول رہی ہوں؟” وہ بھی جواباً مسکرایا اور کہا:” ہے نا خاص الخاص بات!” اس نے محبت سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا: ”آج کے دن میں نے یہ طے کیا تھا کہ میں صرف تم سے شادی کروں گا۔” میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا: ”تمہیں اتنی پرانی باتیں کیسے یاد رہتی ہیں؟” وہ ہنس پڑا کہنے لگا”
میری یادداشت میں ایک چھلنی نصب ہے جس میں صرف خوشی دینے والی باتیں رہ جاتی ہیں اور باقی باتیں آپ ہی آپ چھن کر زائل جاتی ہیں۔”
وہ بولتا جارہا تھا اور ڈشز مجھے دیتا جارہا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں کون سی مٹی کا بنا ہوا ہے اس پہ کسی بات کا اثر کیوں نہیں ہوتا۔ کھانے کے بعد ہم دونوں ٹیرس پہ رکھے جھولے پہ آبیٹھے تھے۔ ہمارے سامنے میز پر سیلون کی خوشبو دار چائے کے کپ رکھے تھے۔ چائے میری کمزوری ہے اور شہاب دنیا بھر سے خوشبو دار چائے ڈھونڈ کر میرے لیے منگواتا تھا جو ہم اکثر مل کر انجوائے کرتے۔ اس نے میرا نام لے کر دوبارہ پُکارا تو میں چونکی۔ وہ مجھے بتا رہا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے ترکی جارہا ہے اور کوشش کرے گا کہ جلدی واپس آجائے… وہ بول رہا تھا اور میری آنکھیں اپنے مقابل پہاڑوں کی چوٹیوں کو تک رہی تھیں۔ کبھی میرا بھی شوق ہوا کرتا تھا کوہ پیمائش کا… کیسے کیسے ناقابلِ یقین خواب دیکھ لیتا ہے انسان! یہ سوچتے ہوئے مجھے اپنی حماقت پہ ہنسی آگئی غالبا شہاب نے بھی کوئی چٹکلا کہا ہو گا مجھے ہنستا دیکھ کر وہ سمجھا کہ اسی کی بات پہ ہنسی ہوں۔ کہنے لگا: ”چھوٹی سی گڑیا لگتی ہو تم ہنستے ہوئے!” میری ہنسی اسی وقت گلے میں پھنس گئی تھی… مجھے اچھو سا لگ گیا… شہاب اندر جاکے پانی لایا، جو مجھ سے پیا نہیں گیا۔ مجھ سے سانس نہیں لی جارہی تھی اور شہاب پریشانی میں کبھی مجھے کمر پہ تھپکتا تو کبھی اوپر دیکھنے کو کہتا… بلآخر کچھ دیر بعد میری حالت غیر ہوکے آہستہ آہستہ سنبھل رہی تھی۔ شہاب نے مجھے کندھے سے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا: ”اندر چلو گڑیا” تو میں بپھر گئی۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹک کرکہا: ”نہیں ہوں میں گڑیا!”
”میں چالیس سال کی ادھیڑ عمر عورت ہوں جس کی گود آج تک ہری نہیں ہوئی اور اب ہو بھی نہیں سکتی، مگر تم کو کیا فرق پڑتا ہے؟ تم سارا دن اپنے کام میں مصروف رہتے ہو اور گھر آکر مجھے کسی پالتو جانور کی طرح پُچکار کر اپنی بچوں کی کمی پوری کرلیتے ہو مگر کبھی یہ سوچا ہے کہ میں کس کرب سے گزر رہی ہوں؟؟”
وہ ششدر سا، حیران آنکھوں سے میری جانب تک رہا تھا کیوں کہ میں نے کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی تھی مگر شاید میں اپنی برداشت کی آخری حدوں تک پہنچ گئی تھی… لہٰذا بولتی گئی۔
”میری زندگی ایک دائرے کا سفر ہے، جس میں پچھتاوا، رنج، ناامیدی اور بے سکونی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ دَم گھٹتا ہے میرا اس تنہائی میں!! تھک گئی ہوں اپنی آرزوؤں کا لاشہ ڈھوتے ڈھوتے۔”
اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ میں نے اس کو اپنا فیصلہ سُنا دیا کہ ”مجھے ایک بچہ گود لینا ہے اور بس!! میں اسے اکیلا چھوڑ کر اندر چلی گئی تھی۔
صبح میں اُٹھی تو اپنی سائیڈ ٹیبل پہ رکھا پیغام دیکھا۔ اٹھا کے پڑھا تو لکھا تھا: ”واپس آکر بات کریں گے۔” میں نے وہ پرچہ برابر رکھی باسکٹ میں پھینک دیا اور چھت کو تکنے لگی۔
پانچ روز بعد جب شہاب آیا تو وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا: میں نے اس سے معمول کے مطابق بات کی مگر ہمارے درمیان کی گئی آخری بحث کی کشیدگی موجود تھی۔ رات کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر بیٹھے تھے تو شہاب نے بات شروع کی…
”نازی، میں نے اس ٹرپ کے دوران بہت سوچا اور اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ میں غلط تھا اور تم درست تھیں۔ ہمیں واقعی ایک بچہ گود لے لینا چاہیے۔” میں اسے دیکھ کر مسکرائی اور اپنی نحیف آواز میں کہا ”اچھا؟” وہ اُٹھ کے میرے برابر میں آکے بیٹھ گیا تھا اور ہاتھ تھام کے بولا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم کل ہی کسی یتیم خانے جائیں گے اور ایک لڑکا گودلے لیں گے… فرط جذبات سے میری آنکھوں میں آنسو جھلملا گئے تھے… شہاب کے اندر بات کرتے ہوئے ایک خوشی بھی تھی اور ولولہ بھی تھا کہنے لگا: میں نے تو اس کا نام بھی سوچ لیا ہے!!” اس موقع پہ میں نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے اسے خاموش کردیا۔ مجھے شہاب کے مزاج میں یکسر اتنے بڑے تغّیر کی توقع نہیں تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا تو وہ راضی خوشی میرے پیچھے ہولیا۔ میں اسے ایک کمرے میں لے گئی جو ہمارے کمرے کے برابر میں تھا… دروازہ کھول کر میں نے اسے اندر جانے کو کہا تو اس نے بھی حیرانی سے اندر جھانکا اور پھر غیر یقینی سے میری جانب دیکھا۔ میں نے نظروں سے اس کو قریب جانے کا اشارہ کیا، سامنے پالنے میں ایک شیر خوار بچی لیٹی ہوئی ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ تمہارے جانے کے اگلے دن ہی میں اسے لے آئی تھی، انہوں نے جب مجھے بچے دکھائے تو مجھے سب سے پیاری یہ لگی۔ شہاب کا گلا کچھ سوکھ رہا تھا اس نے کھنکھارتے ہوئے کہا: ”لڑکی ہے؟” میں نے فخر سے کہا: ”ہاں!” اس نے دھیمے سے کہا: ”اچھا… اب نیا نام سوچنا ہوگا۔” میں نے بچی کو گود میں اٹھایا اور شہاب کی بانہوں میں دیتے ہوئے کہا: ”میں نے اپنی بیٹی کا نام صوفیہ شہاب درج کرادیا ہے۔” شہاب نے اس روئی کے گالے کو تھاما تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکا اور ایسا محو ہوا اس کو کھلانے میں کہ بھول ہی گیا کہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ جس پہاڑ کے دامن میں برسوں سے کھڑی تھی آج آخر کار اسے سرکر آئی ہوں۔




Loading

Read Previous

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Read Next

لال کتاب — حنا یاسمین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!