یہاں اس کی زندگی بگڑی پڑی تھی اور لوگ بے دریغ باتیں کر رہے تھے۔

اسے کیا پتا کہ وہ اب بھرے بازاروں میں باتوں کا موضوع بننے لگی ہے۔

اس گھر کی بیٹی، جس گھر کی عورتوں کے نام تک گوٹھ کے مردوں کے سامنے نہیں لیے جاتے تھے۔

گناہ سمجھا جاتا تھا کہ سید زادیوں کے نام ہیں۔ پردہ کرتی ہیں، بے پردگی ہو گی۔نیک ہیں، عبادت گزار ہیں، گھر سے بے پردہ نہیں نکلتیں،نام کیسے لیں، مگر وہ جو اس کی پھپھی کا بیٹا، ان کے خاندان کا حصہ، کیسے بھرے بازار میں اس کا نام اُچھال رہا تھا۔ حسن بخش کے تو جیسے دل پر آرا چل گیا۔

مولا بخش نے ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ چھپا لیا۔پہلی بار جیسے ہاتھوں کے تیر سے ہارا تھا۔جیسے تھک گیا تھا۔

سبھاگی سے کہا۔ ”میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔بے ہمت بے غیرت بن گیا ہوں۔ بڈھے بے غیرت تو نہیں ہوتے۔ شاید میں ہو گیا ہوں۔میری دھی پر میری زندگی میں باتیں ہو رہی ہیں۔میں ڈوب مروں۔ میں زندہ کیوں ہوں۔”

حوصلے والا مرد بچوں کی طرح رو دیا تھا۔حسن بخش اسی وقت بھرائی کے گھر گیا۔وہ ہمیشہ پردہ رکھتی تھی صادق کا۔ اب بھی اس نے یہی کیا۔

وہ دل پہ ہاتھ رکھ کر آگیا۔

”آجائے یہ چھورا گوٹھ میں۔ ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں دے آئوں گا بھرائی کے۔”

صادق بھاگ گیا تھا اور تب تک نہ آتا جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہو جاتا۔وہ آگ لگا کر ایسے ہی بھاگا کرتا تھا کہ کہیں وہ لپیٹ میں نہ آجائے۔وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بھاگنے والا مجرم ہوتا ہے۔ کبھی نہ کبھی پکڑا جاتا ہے۔جب پکڑا جاتا ہے تو برا پھنستا ہے، پھر اس کی باری ہوتی ہے۔ہر کسی کی باری اس دنیا میں آنی ہوتی ہے۔کوئی اپنی باری نبھائے بغیر نہیں مرتا۔

مگر مولا بخش کا کلیجہ جلا ہوا تھا۔ باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ سبھاگی نے رولا ڈالا ہوا تھا۔

”دیکھو دنیا ہمارے منہ پہ مار رہی ہے۔ چھورا توبک گیا، مگر کہہ کر کچھ غلط تو نہیں گیا نا۔اپنے گھر میں چاچے کا لائق فائق بیٹا ہے اور ہم دوسروں کے گھروں میں جھانکتے ہیں۔کیسی بزدلوں والی شرم ناک بات ہے کہ میری سندھو کو کوئی اس کے جوڑ کی نہیں سمجھتا اور تو کہتا ہے مولا بخش کہ سندھو کا جوڑ لا۔”

”سندھو کے قابل ہو، سندھو جیسا ہو۔فرماں بردار ہو، با اخلاق ہو۔اب بول مولا بخش کس کا در دیکھوں۔”

حسن نے دروازے پر کھڑے ہو کر سن لیا۔دل پکڑ کر آ بیٹھا۔ بات تو سولہ آنے سچ تھی۔ دل کو لگی تھی۔

کیا کمی تھی اس کی بھتیجی میں، سوہنی شکل ہے،اچھے اخلاق کی مالک ہے۔ کیا ہوا جو پڑھی لکھی نہ تھی مگر یہ بات سارنگ کو کیسے سمجھائی جائے۔بیٹے پر کبھی بوجھ نہ رکھا تھا۔

اسے زندگی بھر آزادی دی تھی۔ بیٹا بھی ایسا جس نے وہ سب کر دکھایا جو ابا اور چاچا نے کہا۔ کرنے کو تو یہ بھی کرجائے، مگر ڈر رہا تھا۔ اگر انکار کر دیا تو میرا مان ٹوٹ جائے گا۔اگر اقرار کیا تو بیٹے کا دل مر جائے گا۔

جیجی منہ لپیٹے پڑی تھی۔نماز سے فارغ ہوئی تھی۔ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

”جیجی ماں۔” پائوں چھوئے، انہوں نے ہٹا لیے۔

”حسن بخش! دیکھ میں زندہ ہوں، اتنا کچھ سُن کر بھی۔”

”اللہ آپ کو زندگی دے۔ آپ کے دم سے ہم ہیں۔” موڑھا کھینچ کر بیٹھ گیا۔

”مگر جیجی ماں سارنگ کے دل کی جو سوچتا ہوں تو اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا۔ کیا کروں، آپ ہی کچھ بتائیں۔”

وہ اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔

”حسن بخش میرے دل میں تو یہ بات تب تھی، جب سندھیا پیدا ہوئی تھی اور سارنگ خیر سے چار سال کا تھا۔” اُن کی آنکھوں میں چراغ جھلملائے۔

”سوچا تھا ابھی سے باندھ دیں مگر پھر سوچا روایتوں سے بنے ہوئے رشتے کچے دھاگوں جیسے ہوتے ہیں۔ ٹوٹنے میں دیر نہیں کرتے۔ اس لیے اس خیال کو لے کردل میں رکھ لیا اور کبھی یہ خواہش ظاہر نہ کی۔ سارنگ بڑا ہوا تو سندھیا کو چھوٹی بہن کی طرح رکھنے لگا۔بڑا بھائی بن بیٹھا۔ ہر وقت کہتا سندھیا میری ننھی بہن ہے۔ اب میں اس کے آگے کیا سوچتی اور کہتی۔ اپنی سوچ کا منہ بند کر لیا۔”

”سارنگ پڑھ لکھ کر آیا، میرا تو دل تھا کہ کہیں نہ کہیں بات کر دیتے تو سننا نہ پڑتا۔” حسن بخش نے کہا۔

”نہ اس کے جوڑ کی گوٹھ میں، نہ سندھیا کے جوڑ کا یہاں اب دنیا باتیں کرے تو کیوں نہ کرے؟” جیجی ماں کو دونوں بچے ایک سے پیارے تھے۔

”سولہ آنے ٹھیک کہتی ہیں جیجی ماں۔ یہی سوچ رہا ہوں مگرپٹ کو کہتے ہوئے ڈھے جاتا ہوں۔ جبھی تیرے پاس آیا ہوں۔تو یہ بات کرسارنگ سے۔ تو بڑی ہے جیجی ماں۔”

”تو چاہتا ہے، میں سارنگ سے یہ قربانی مانگوں؟ اسے کہوں؟ بڑا مشکل ہے، مگر ہے سچ۔ سندھو چاچے کی دھی۔ چاچا جو ماں پیو سے دو ہاتھ آگے رکھنے والا۔ سلجھی سی کُڑی۔ کمی تو اس میں اک نہیں ہے۔ پر سارنگ نئے دور کا لڑکا، پڑھا لکھا، نئے دیسوں میں رہا۔ کہیں یہ نہ سوچے کہ جیجی ماں نے بوجھ ڈال دیا۔ زمین دے کر حیاتی کیسے مانگ لوں اس سے حسن بخش۔” جیجی ماں نے کہا۔

”تو باپ ہے تو بات کر۔ ہمت کر کے پوچھ اس کے دل کی مرضی۔دیکھ یہ نہ کہیں کہ سارنگ تو ہاں کر یہ کہیں کہ سارنگ اپنی مرضی بتا۔مجبور نہ کرنا اسے، بار نہ ڈالنا اس پر۔اس نے جو ہاں کہہ دی تو بس لمحے کی دیر نہ کرنا۔ اگر جو وہ اس بات کا شافی جواب نہ دے سکا۔ہکلانے لگا، روہانسا ہو گیا تو سمجھ لینا خوش نہیں ہے اس فیصلے سے۔ بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔” 

جیجی ماں کی باتیں سن کر حسن سوچ میں پڑ گیا۔

ادھر مولا بخش نے سبھاگی سے کہا کہ اب جو رشتہ دیکھو تومجھ سے نہ پوچھنا۔ بس ہاں کہہ دینا۔ مجھ سے اب باتیں نہیںسنی جائیں گی۔

”اور سُن لے۔ سارنگ کو میں نہیں کہوں گا۔ساری حیاتی پیار دے کر اس سے قربانی مانگوں تو بے غیرت کہلوائوں ۔سندھو میری سگی ہے۔سارنگ سگوں سے بڑھ کر ہے، بات ختم ہے۔”

سبھاگی نے سرشام رشتے والی کو بلوایا تھا۔

حسن کا موڈ بہت برا تھا اور دل ناخوش۔ ہمارے گھرانے کی بچیوں کے رشتے کبھی ایسے نہ ہوئے تھے، اب کیا قیامت آگئی ہے۔اس نے بس پکا ارادہ باندھ لیا۔ کل کے دن سارنگ سے بات کرتا ہوں۔ ایک کی ایک کر کے چھوڑتا ہوں۔ بس بہت ہو گیا۔ عزت سے بڑھ کر کچھ اور نہیں ۔بھا مولا بخش کا نمانا چہرہ کل سے دیکھ رہا تھا۔ دل کٹتا رہا تھا، پھولوں جیسا بھا، سارنگ کو پھول اور ہاتھ کا چھالا بنائے رکھا تھا۔

کب سے سارنگ کا فون ملا رہا تھاجو لگ نہیں رہا تھا۔ادھر سارنگ چچا جان کے فون کا انتظار کر رہا تھا۔

ْْْْْْآج اس کی پیدائش کا دن تھا۔شیبا نے پور اپارٹمنٹ سجایا ہواتھا۔کیک لائی تھی۔کوکیز بنائے تھے خود،وہ بہت خوش تھامگر گھر سے آنے والی کال کا اتنا ہی انتظار تھا۔کسی نے فون کیا،وش کیا اور نہ دعا دی۔

یہ جانے بغیر کہ گھر والوں پر کیسی قیامت بیت رہی ہے کیسے کڑے وقت سے گزر رہے ہیں۔ فون کرنا ان کے لیے کیوں مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے اور وہ کب سے فون ملا رہے ہیں۔نیٹ ورک اپنا کھیل کھیل رہا ہے، سگنلز کیوں ٹوٹ رہے ہیں۔اور وہاں پر کوئی اور آگ کا چھڑکائوکرنے کے لیے پرتول رہا ہے۔

کوسا تھا اس لمحے کو جب اس نے فراز کی شادی میں لی گئی اپنی اور شیبا کی تصویریں اپ لوڈ کر دی تھیں۔ اس کے علاوہ ہسپتال کے کاریڈور میں کھڑے ٹریننگ سینٹر سے نکلتے ہوئے گروپ کی صورت میں۔

”آخر ہوا کیا ہے ابا سائیں۔”

”ابا سائیں کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ ہوا کیا؟ واہ شاباش ہے سارنگ تجھ پہ۔” لہجہ دُکھ کا سمندر تھا۔

” ابا کوتو تُو نے توڑ ڈالا۔”

ابا نے تصویروں کا حوالہ دیا۔ آگے کیا کیا کہتا رہا۔کس قدر ملامت کرتا رہا۔

سارنگ نے سُنا جیسے سماعت ہی گُم ہو گئی ہو۔

کیا یقین اس قدر کمزور ہوتا ہے؟

چار تصویروں سے ڈھے جاتا ہے؟

اُدھر ابا نے کیا کہا۔ ابا اتنا سستا ہوتا ہے؟

کیا عزت اور مان سڑکوں پہ بکتا ہے؟بکتی تو خرید لیتا، لاکھوں کے مول خرید لیتا۔

مگر عزت ہی تو ہے جو پیسے سے نہیں ملتی اور اعتبار اگر ٹوٹ جائے تو پھر نہیں جڑتا۔ جیسے شیشہ ٹوٹ کر نہیں جڑتا، ویسے ہی دل اور اسی طرح بھروسا۔ فون بند تھا۔ اسے لگا جیسے دل بند ہے۔

کیفے میں ٹریٹ کے دوران، گھر سے نکلتے ہوئے گاڑی کے ساتھ۔نیا اپارٹمنٹ سجاتے وقت۔ وہ اور شیبا کبھی ساتھ کھڑی۔ کبھی بہت قریب۔کبھی کندھے سے لٹکتی کبھی ہاتھ تھامے ہوئے۔

وہ تو ایسی ہی تھی۔ بلا تکلف ہنستے بولتے، باتیں کرتے اور فراز کی شادی سے لوٹتے ہوئے دونوں کی گیٹ پر ایک ساتھ تصویر تھی۔اور ثبوت فراہم کرنے کا فریضہ صادق کی ماں نے سرانجام دیا تھا۔ صادق کا لیپ ٹاپ لے کر آگئی۔

”یہ دیکھ، میرا ہی بیٹا برا ہے نا۔ اب اپنے چھورے کے لچھن دیکھو جو پڑھائی کے بہانے کیا کچھ کرتا پھر رہا ہے۔”

چاچے نے آنکھیں بند کر لیں۔ اُٹھ گیا، دل سے کہنے لگا یقین نہ کرنا۔

بس یہ سوچ تو آئی کہ کچھ ایسا تھا بھی تو بہ جائے دنیا کو دکھانے، وہ گھر والوں کو سیدھے سیدھے فون کر دیتا۔ بتا دیتا۔ اعتماد میں لے لیتا۔ادھر جیجی چپ، سبھاگی تو سر پہ ہاتھ رکھے کھڑی رہی۔

سوہائی سندھیا کولیے حیرت سے کھڑی تھیں۔بھرائی نے جو کرنا تھا سو کر دیا۔آگ لگا کر لیپ ٹاپ لے کر نکل گئی۔ وہاں چنگاری بھڑک گئی۔آج گھر میں کسی نے بات نہ کی۔سب منہ چھپائے بیٹھے رہے۔ سبھاگی بڑبڑاتی رہی مگر سنتا کون اور سُن کر جواب کون دیتا۔بول بول کر چپ ہو گئی۔

حسن نے سارنگ کا فون ملایاجو عین اس وقت بجا جب وہ کیک کاٹ کر فارغ ہوا تھا۔شیبا پھیلاوا سمیٹ رہی تھی۔وہ فون سننے کے لیے ایک طرف ہو گیا۔

سوچا کہ شکوہ کروں گا۔ اب یاد کیا۔ اتنی دیربعد بھلا ہی تو دیا ہے، حالاںکہ جانتا بھی تھا کہ اس کے گھر والے خود کو تو بھلا سکتے ہیں مگر اسے نہیں ۔تبھی تو شکوہ تھا مگر ہوا بالکل اُلٹ۔ وہی جو توقع کے برعکس ہوتا ہے۔ جو وہم و گمان میں نہیں ہوتا اور وہ سب ہو جاتا ہے۔

چاہے کوئی وہم ہو، جو حقیقت بن کر سامنے آجائے اور یقین کی کرچیاں کرچیاں کر دے۔ توڑ دے یقین کو اور وہی لگا۔ لہجہ اتنا بے یقین سا تھا۔

”کیا ہوا ابا؟”

وہ موم ہو گیا۔

”سارنگ ابا زندہ ہے مگر سمجھو مر گیا تیرے لیے۔تو نے ابا کو جیتے جی مار دیا۔”

ابا نے کہا تھا سارنگ اب نہ لوٹنا۔

جو گھڑی گھڑی گن گن کر گزارتا تھا۔ اب لوٹا تو تب لوٹا۔ اس نے یہ تک کہہ دیا۔

”سمجھ تیرا ابا آج مر گیا۔”

سمجھ گیا تو سمجھو مر گیا۔ تقدیر سے ناآشنا تھا۔

سارنگ کو لگا کسی نے جوتے سے ٹھوکر ماری ہے اور وہ چوٹ دل پہ جا لگی ہے۔اس کا چہرہ دھواں تھا، شیبا نے قدرے حیرت سے اُسے دیکھا۔ابھی تو ہنس رہا تھا، ابھی تو مُسکرا رہا تھا۔

کیا ہوا؟

وہ کہہ نہیں پایا کہ کیا ہوا۔

ہر جگہ دھواں تھا۔چنگاری آگ بننے کے بعد دھواں تھی اور دھواں، جو اندھا کر دیتا ہے۔

پھر کچھ دِکھتا نہیں۔اگر دکھتا ہے تو دھندلا، میلا، جیسی آنکھیں ویسا دل، یہ ابھی پہلا امتحان تھا۔ لگا کہ جان لے لے گا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

Read Next

شریکِ حیات قسط ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!