ایک چھوٹی سی خوب صورت سی شادی کا فنکشن تھاجس میں چند دوست ہی شریک تھے۔
شیبا وہی ڈریس پہن کر آئی تھی جو چند دن پہلے اس کے لیے سندھ سے بہ طور تحفہ آیاتھا۔اس کے ساتھ پروفیسر شہاب کی پوری فیملی کے لیے تحائف تھے۔
جوڑے، رلی، اجرک اور پراندہ جو سوہائی نے ڈال دیا تھا۔جوڑا شاید سندھیا کے جہیز سے نکالا گیا تھا اور رلی اس کی شادی کے لیے رکھی گئی تھی۔اجرک مولا بخش شہر سے لایا تھا۔اس نے بس فون کر کے کہہ دیا کہ کچھ تحائف بھیج دیں، روایتی قسم کے ۔ انہوں نے اسی ہفتے پیکٹس بھجوا دیے تھے۔
تب اسے خاصی جھجک ہو رہی تھی کہ شیبا اس جوڑے اور پراندے کو دیکھ کر کیا سوچے گی۔ہو سکتا ہے نہیں کہہ دے، یہ کہہ کر معذرت کر لے کہ سوری سارنگ میں یہ الم غلم نہیں لے سکتی۔وہ جھجکتے ہوئے گیا تھا مگر اس کی توقع کے برعکس شیبا نے اُن چیزوں کو سب سے زیادہ پسند کیا تھا۔
وہ اسے دکھاتے ہوئے پراندہ پہننے کا طریقہ پوچھ رہی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ ”میں نے کبھی نہیں پہنا۔”
”مگر مجھے آئیڈیا ہے۔” اسے بالوں کی چوٹی میں پہنا جاتا ہے جب کہ وہ جھومر کی طرح سرپہ سجائے کھڑی مر ر میں دیکھ رہی تھی۔فرح بھی اس کی حرکت پر ہنس دی تھی۔
”یہ تمہیں بہت سوٹ کرے گا شیبا۔ ”پروفیسر نے اسے پراندہ لٹکائے دیکھ کر کہا۔
”تم واقعی اسے پہنو گی؟” سارنگ کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔
”تم اگر چاہتے ہو نہ پہنوں تو میں اسے ڈیکوریشن پیس بنا کر رکھ لوں گی مگر تمہیں واپس نہیں کروں گی۔”
وہ یہ سن کر خوش ہو گیا تھا مگر اسے اندازہ تھا کہ وہ یہ سب اس کا دل رکھنے کے لیے کہہ رہی ہے۔بھلا وہ کیوں یہ سب پہنے گی اور کس موقع پر، حالاںکہ اسے پتا بھی تھا کہ وہ ہر شخص کا دل رکھنے کے لیے ایسا نہیں کہتی۔ وہ محض دل رکھنے کے لیے نہیں کہہ رہی تھی بلکہ پہن کر بھی آئی تھی۔اس نے آج ہلکا سا میک اپ بھی کیا تھا۔
وہ روٹین سے قدرے مختلف اور منفرد سی لگ رہی تھی۔ اس نے اس اچانک شادی پر فراز کو نقدی دے دی تھی تاکہ وہ اپنی پسند کا گفٹ لے سکے اور صنم کو الگ دی ۔ وہ اب سوچ رہا تھا کہ اگر اندازہ ہوتا توان کے لیے بھی کچھ منگوا لیتا مگر صنم نے شیبا کا ڈریس دیکھ کر اس سے وعدہ لیا کہ وہ اس کے لیے بھی ایک ایسا ہی ڈریس منگوا دے گا جیسا شیبا نے پہنا ہوا ہے۔
شیبا خود اپنے ہی گیٹ اپ سے محظوظ بھی ہو رہی تھی اور خوش بھی۔ ان سب نے مل کر گانا بجانا کیا۔ کھانا کھایا، ایک دو رسمیں کیں اور فراز اور صنم کو رخصت کیا ۔واپسی میں صنم کی ماں کے پاس چند گھنٹے بیٹھ کر اس نے اور سارنگ نے کچھ بکھرا پھیلاوا سمیٹنے میں ان کی مدد کی۔ وہ ان دونوں کو اچھے نصیب کی دعائیں دے رہی تھیں۔ سارنگ نے کرتا شلوار پہنا ہوا تھا اور کندھوں پر اجرک لیا ہوا تھا۔
شیبا اور وہ ایک کپل کا سا لُک دے رہے تھے۔ کوئی بھی دیکھتا تو اس واہمے میں پڑ جاتا۔ صنم کی ماں زبیدہ نے بھی یہی سمجھا ۔
”تو تم دونوں کب شادی کر رہے ہو بیٹا؟ ”
”ہم دونوں؟” شیبا چیزیں سمیٹتے ہوئے نا سمجھی سے مسکرائی تھی۔
”اب کر لو شادی۔ پڑھتے رہنا بعد میں۔ دیکھو ایک ساتھ کتنے اچھے لگ رہے ہو۔”
وہ سر جھٹک کر کھسیانی مسکراہٹ دبا کر اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے اٹھی تھی۔
سارنگ بھی چپ ہو گیا تھا۔ کچھ عجیب مگر انوکھا سا لگ رہا تھا۔وہ دونوں کام ختم کر کے اچھے نصیب کی دعائیں لیتے ہوئے گاڑی میں آبیٹھے۔یہ پہلا سفر تھا جب دونوں خاموش تھے۔
”میں کہیں عجوبہ تو نہیں لگ رہی تھی؟” شیبا کو یہ خاموشی کھل رہی تھی اسی لیے بولی۔
”نہیں۔” اس نے ایک بار پھر ہلکی سی نگاہ ڈالی تھی۔
”تم بہت پیاری لگ رہی ہو ان کپڑوں میں۔”
”صرف ان کپڑوں میں؟”
”تمہیں بھی عورتوں کی طرح تعریف سننے کا شوق ہے؟ ”وہ اسے چڑا رہا تھا۔
”میرے خیال سے تعریف سننے کا شوق ہر انسان کو ہوتا ہے۔ کیا تمہیں نہیں ہے؟”
”شاید، پتا نہیں۔ دراصل بہن سے اتنی تعریفیں سنی ہیں کہ کبھی خواہش نہیں جاگی تعریف سننے کی۔ ہمارے ہاں تعریف کرنے میں سب کھلے دل کے مالک ہیں۔”
”’تم توایسے نہیں لگتے۔”
”مجھے اصل میں تعریف کرنا نہیں آتا۔” وہ مسکرایا تھا ۔
”نہیں، تم کرنا ہی نہیں چاہتے ہوگے ۔”
”نہیں، اب ایسا بھی نہیں ہے۔”
”ہمارے ہاں اصل میں لڑکیوں کی تعریف کرنے کا رواج نہیں ہے اسے برا سمجھا جاتا ہے۔جو لڑکا بُرا ہوتا ہے وہ لڑکیوں کی تعریف کرتا ہے۔”
”اچھا واقعی؟” وہ دل کھول کر ہنسی۔
”میں اگر لڑکا ہوتی تو ضرور ایسا کرتی۔”
”لڑکیوں کی تعریف؟ اچھا۔” وہ ہنسا۔
”دیکھو وہ تو تم اب بھی کر رہی ہونا۔ خود اپنی۔”
”دیکھو جب لڑکے اتنے کنجوس ہوں گے تو لڑکیاں بے چاری خود ہی منہ کھولیں گی نا۔”
اسے وہ آج بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح مگر ہمیشہ سے کچھ الگ ہی۔لڑکی لڑکی سی، پیاری پیاری سی۔ میں ایسے ہی سمجھ رہا تھا شیبا کے اندر ایک مضبوط پیاری مگر مشکل ترین لڑکی چھپی بیٹھی ہے، جس تک پہنچنا پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے برابر ہے۔وہی بے ضرر ،وہی معصوم اور میٹھی سی لڑکی اور اسے سارنگ تو ہمیشہ کی طرح ہی لگا۔
لڑکیوں کی طرح جھجکتا، شرماتا، لحاظ کرتا، مرو ت کرتا، بھولا بھالا اور معصوم سا دیہاتی لڑکامگر اسے سارنگ کے دوسرے روپ کے بارے میں بھی پتا تھا۔محنتی، سمجھ دار، حوصلے والا، متحمل مزاج، نرم گو، پڑھاکو اور مضبوط ارادے والا۔یہ دونوں سا رنگ اس کے سامنے تھے۔ وہ فی الحال اس کی خامیوں کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتی تھی۔وہ گھر تک اس کے ساتھ آیا تھا۔
”میں تمہیں چھوڑ کر کیب لے کر چلا جائوں گا۔”
”نہیں پہلے میں تمہیں چھوڑ دوں پھر چلی جائوں گی۔ میرے پاس گاڑی ہے۔ تم کہاں کیب میں خوار ہوتے پھرو گے۔”
”نہیں شیبا رات بہت ہو چکی ہے۔” اس نے سمجھایا۔
”میں روزانہ لیٹ نائٹ ہی گھر جاتی ہوں۔” وہ اس کی بات پر ہنسی۔
”مجھے پتا ہے مگر آج میری بات مان لو کیوںکہ آج میں تمہارے ساتھ ہوں۔”
”اس سے کیا ہو گا؟ ”
”اس سے مجھے فکر نہیں ہو گی۔”
”تمہیں فکر کیوں ہو گی؟” وہ اسے مزے سے گھورنے لگی۔
”دیکھو آج تم بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔”
”یہی بالفرض اگر تمہیں کسی کی نظر لگ گئی تو؟” اس نے فی الفور یہی کہنامناسب سمجھا۔
وہ اس کی بات پر مسکرائی۔
”میں اس بات پر یقین نہیں رکھتی۔”
”کس بات پر ؟”
”نظر لگنے پر۔”
”میں نظر لگنے پر پورا یقین رکھتا ہوں۔”
”تم اتنی پرانی سوچ کے تو نہیں لگتے۔”
”دیکھو نظر ایک نگاہ ہے۔ جو دیکھتا ہے، جیسا دیکھتا ہے وہ اثر کرتا ہے۔ کچھ حد سے زیادہ اچھا لگتا ہے تو نظر آپ ہی آپ لگ جاتی ہے۔”
”نہیں، ایسا نہیں ہے۔مجھے تمہاری نظر تونہیں لگی۔ ”
کہتے ہوئے رُک گئی کیوںکہ سارنگ کی نظر بے ساختہ اُٹھی تھی۔
”کسی کی بھی نہیں لگی۔ نہ فراز کی، نہ صنم کی، نہ پوجا کی، نہ جیک کی، نہ تمہاری۔” سب کو شامل کرنا ضروری ہو گیا تھا حالاںکہ ضروری قطعاً نہ تھا۔
”تو پھر بھلا کس کی لگے گی۔”
وہ اس کی بات سے لاجواب ہو گیا تھا۔
”میں کسی کو اتنا غور سے نہیں دیکھتا کہ اسے نظر لگ جائے۔”
”اس لیے کہ تمہارے ہاں لڑکیوں کو گھورنے کا رواج نہیں؟” وہ مُسکراہٹ دبا کر بول رہی تھی۔
”اس لیے بھی کہ گھورنا بُری بات ہے۔”
”کیوںکہ اس سے نظر لگ جاتی ہے۔” اس نے مسکراتے ہوئے گاڑی کے بریک کو دبایا۔
”اب تم چلے جائو گے؟ دیکھنا اگر ابھی کیب نہ ملے تو فون کر کے بتا دینا۔”
”ورنہ؟ ”اس نے اپنا سیل فون ڈیش بورڈ سے اٹھایا۔
”ورنہ مجھے فکر ہو گی۔” وہ لاک کرتے ہوئے بولی۔
کتنا اچھا لگتا ہے کسی کا فکر مند ہونا۔وہ مسکرا دیا، جیسے گھر والے کرتے ہیں، جیسے اپنے کرتے ہیں۔
”تمہیں فکر کیوں ہو گی شیبا؟”
”اس لیے کہ کچھ دیر پہلے تمہیں میری فکر ہو رہی تھی۔”
”اور اگر مجھے نہ ہوتی تو تمہیں بھی نہ ہوتی؟” وہ بچوں کی طرح کہہ رہا تھا۔
”تم حساب رکھ رہے ہو؟”
”نہیں پوچھ رہا ہوں۔”
وہ گاڑی کے آر پار کھڑے پورے نو منٹ تک یہی مقابلہ بازی کرتے رہے۔
”تم سوچنا تمہیں فکر کیوں تھی۔ جواب مل جائے گا۔ ”
”اس لیے کہ تم میری بہت اچھی دوست ہو۔اس لیے کہ تم مجھے میوزیم لے جاتی ہو۔ فلم دکھانے لے جاتی ہو۔ جن رستوں کا مجھے نہیں معلوم ان کے بارے میں بتاتی ہو۔ہارٹ سرجری کی کیا پیچیدگیاں ہیں وہ بتاتی ہو۔ کلاس سے باہر مجھے مسنگ پوائنٹس کے بارے میں اطلاع کرتی ہو۔ اپنا ریسرچ ورک شیئر کر تی ہوں۔ اگر میں کلیئر کروں تو مجھے کافی پلاتی ہو ہر دفعہ ٹریٹ دیتی ہو۔”
”اچھا اس لیے؟ صرف اس لیے؟” لہجے میں کچھ شکوہ تھا۔
”نہیں، اس لیے بھی کہ میں جو تحفہ دیتا ہوں، نا صرف پسند کرتی ہو بلکہ استعمال بھی کرتی ہو۔ پھر مجھ سے پوچھتی بھی ہو کہ کیسی لگ رہی ہوں۔”
” اچھا اس لیے۔ صرف اس لیے!”وہ ہنسی۔
”اور وہ سب اس لیے کہ تم میری دوست ہو!”
”چلو، یہ اچھا ہے۔”
”کیا میں تمہارا دوست نہیں ہوں؟”
”تم چاہتے ہو اب میں تمہاری اچھائیاں بیان کروں۔اوہ! بہت مشکل ہے۔” مصنوعی پریشانی سے سر جھٹکا۔
”نہیں رہنے دو۔ تم یہ مشکل کام مت کرو۔جائو آنٹی انکل انتظار کر رہے ہوں گے۔”
”تم نہیں چل رہے؟”
”اگلی بار۔ دیر ہو رہی ہے۔”
”بہت بُری بات ہے کسی کے دروازے سے سلام کیے بغیر لوٹ جانا۔”
”تم مجھے احساس مت دلائو۔دیکھو دیر ہو جائے گی۔ سلام کرنے کے بہانے حال احوال ہو گا اور پھر اس بہانے چائے کا ایک کپ بھی ہو جائے گا۔اس کے پیچھے دیر ہو جائے گی۔”
”اور اگر ہو بھی گئی تو کیا؟”
”اگر ہو گئی تو مجھے کیب نہیں ملے گی اور اگر ایسا ہوا تو تمہیں فکر ہو گی اور میں نہیں چاہتا کہ تمہیں فکر ہو۔”
”بہت اچھا بہانہ ہے۔ چلو معاف کیا۔ جلدی نکلو۔”
”خیال رکھنا اپنا۔” کہتے ہوئے مڑا۔
”پہنچتے ہی بتانا اگر کیب ملے تو۔”
”نہ ملی تو بتائوں گا۔”
”دونوں صورتوں میں۔ فون آن رکھنا۔”
”اوکے میڈم۔ ٹھیک ہے۔ بائے۔”
”بائے۔” وہ دروازے پر کھڑی اُسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
اور اس نے پیچھے مڑ کر دوبارہ دیکھا۔
جب کوئی پیچھے سے رُک کر دیکھتا ہے تو جانے والا ضرور مڑ کر دیکھتا ہے۔
وہ پہلی بار گیٹ پر رکی تھی۔
اس نے پہلی بار پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔
یہ قدرے عجیب مگر انوکھا لگ رہا تھا۔
دنیا کا ہر لڑکا لڑکی شروع شروع میں شاید ایسا ہی سوچتے ہوں گے۔
آج سونے سے پہلے بستر پر لیٹنے کے بعد سوچنے کے لیے بہت کچھ تھا اور بالکل مختلف تھا۔
جیسے ہر کسی کی زندگی میں پہلے پہل ہوتا ہے۔
٭…٭…٭