”سارنگ کے ساتھ اس کی بڑی اچھی دوستی ہو گئی ہے۔”
”ہاں وہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں۔ کل جب تم اس سے کہہ رہے تھے کہ وہ گھبرایا ہوا لڑکا کیسا ہے تو اسے برا لگا تھا۔ تم ہر بات مذاق میں کیوں کرتے ہو۔”
”میں اس کے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا۔ جو رائے کل اس کی تھی آج وہ اس رائے کو جھٹلاتی ہے۔”
”تمہیں لگتا ہے وہ سارنگ سے متاثر ہو گئی ہے۔”
”نہیں، وہ سارنگ میں دل چسپی لے رہی ہے مگر اس سے متاثر نہیں ہے۔وہ اسے اپنے جتنی اہمیت دے رہی ہے۔ وہ دھڑا دھڑ سمسٹرز کلیئر کر رہا ہے اور ایک بڑی کانفرنس جوائن کر کے آیا تھا۔ وہ شیبا کی برابری پر آگیا ہے مگر اس سے آگے نہیں کھڑا کہ وہ متاثر ہو جائے۔”
”البتہ وہ مطمئن ہے اور صرف یہی وجہ نہیں ہے، سارنگ طبیعت میں ایک صلح جو اور نرم مزاج لڑکا ہے۔ وہ بحث نہیں کرتا، جتاتا نہیں، مقابلہ بازی نہیں کرتا۔ وہ اگر متاثر ہوئی بھی ہو گی تو ضروراس کے مزاج سے ہوئی ہو گی مگر کامیابی سے نہیں۔”
”وہ اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگی ہے۔اب اُسے ہر ٹرپ پر اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ ہر روز ملنے کے باوجود وہ دونوں رات کو فون پر بات کرتے ہیں۔شیبا کے کمرے سے ہنسنے کی اور باتیں کرنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ تم نے نوٹ کیا ۔ وہ پہلے کی نسبت زیادہ خوش رہتی ہے۔ خوش مزاج ہو گئی ہے۔یہی وہ مناسب وقت ہے جب ہمیں اس سے ایک بار پھر بات کرنی چاہیے۔”
”اسے خود بات کرنے دو فرح۔”
”نہیں شہاب، بہت دیر ہو رہی ہے۔ ابھی بات کرنے کا ٹھیک وقت ہے، کم از کم سارنگ کے لیے وہ جو سوچ رہی ہے اس کی وہ سوچ کھل کر سامنے آجائے گی۔”
”پھر یہ سب تم خود اس سے پوچھو گی۔”
”اسے سمجھائوں گی۔”
”دیکھو سارنگ اچھا ہے، مگر وہ دنیا کا آخری لڑکا نہیں ہے حالاںکہ میں اسے بہت پسند کرتا ہوں مگر یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی فیصلہ کسی دبائو پر ہو۔ پھر یہ سارنگ بھی دل چسپی رکھتا ہو اس نسبت میں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کہیں اور کمٹڈ ہو،انوالو ہو۔”
”ایسا لگتا تو نہیں ہے۔”
”ہونے اور لگنے میں بہت فرق ہوتا ہے، جو لگ رہا ہے وہ اگرہو گیا تو مشکل ہو جائے گی۔”
”شیبا کا ذہن بنانے سے پہلے سارنگ سے کسی طرح کنفرم کرلیں کہ وہ کیا چاہتا ہے؟”
”اس سے کون بات کرے گا؟ تم؟”
نہیں۔” انہوں نے مصلحت سے نفی میں سرہلا دیا۔
”ہاں، کیوں کہ تم مشکل کام دوسروں کو دے دیتے ہو ۔خدشہ ہے کہ اسے کچھ برا نہ لگ جائے۔”
”بہت عجیب لگے گا مجھے کہ اپنی بیٹی کے لیے کسی سے خود جا کر بات کروں۔”
”مگر میں اپنی بیٹی کے لیے یہ کر سکتی ہوں۔”
”تم شیبا سے بات کرو پہلے۔ پھر دیکھیں گے۔”
٭…٭…٭