صادق نے ایک نشانہ لگا کر تیر پھینکا تھا۔
اس کا کام تھا تیر چلانا۔چاہے نشانے پہ بیٹھے نہ بیٹھے اور نشانے تک جاتے جاتے سفر میں کتنوں کو جا لگے،زخمی کر دے، اسے یہ پر وا کہاں تھی۔
ماں بھی زبان سے نشانہ لگا کر تیر مارتی اور بیٹا بھی۔بھرے پنڈال میں بیٹھ کر سندھیا پر جملہ کس دیا تھا۔
اب اسے کون بیاہنے آئے گا جب اس کے اپنے چچا زاد نے اُسے منہ نہ لگایا۔ پھر میری تو مت ماری گئی تھی یا پھر میرے گھر والوں کی جو مٹھائی لے کر مامے کے گھر پہنچ گئے۔
اور یہ جملہ تھا جو آگ بن گیا، آگ کی طرح پوری بستی سے ہوتا ہوا سندھیا کے گھر کے ہر فرد کے کانوں تک پہنچ گیا۔وہ جو بے خبر سندھو اور سارنگ کی کہانی پڑھ کر سوہائی کو سنا رہی تھی۔
یہ تھی پانچ داستانوں پہ مبنی، پانچ ہزار سال پہلے کا سندھو سارنگ، وہ جو بت تراش ہوتا تھا۔ جو سندھو کی مورت بناتا تھا۔ جس کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔سندھو دیوی کو قید کر دیا جاتا ہے۔
سماج نے سب سے پہلے سندھو سارنگ کی کہانی کو اپنی رسموں رواجوں تلے کچلا تھا۔ یہ کہانی تھی موہن جوداڑو کے دور کی یا پھر اس سے بھی پہلے کی۔ اس کے بعد پورے چار ادوار میں ہر سندھو سارنگ سماجی دشواریوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔سندھو اور سارنگ کبھی نہیں مل سکتے۔
وہ سسی پنوں، عمر ماروی اور ہیر رانجھے کی طرح امر تو ہو سکتے ہیں، مگر مل نہیں پاتے۔
یہ پانچ داستانوں ، پانچ تاریخی داستانوں کی پانچ کہانیاں تھیں، سندھو اور سارنگ کے نصیب کی کہانیاں، ہیرو ہمیشہ سارنگ ہی ہوتا ہے۔
اور ہیروئن ہمیشہ سندھو ہوتی ہے۔
سندھیا یہ کہانی سُناتے سُناتے رو دی۔
گلو گیراور غم زدہ ہو گئی۔
٭…٭…٭