دنیا کا کوئی بھی انسان اگر تنہا رہنے کا نعرہ بلند کرے تو یہ غلط ہو گا۔ایسی صورت میں وہ بہرحال بہت جلد ہی تھک جاتا ہے اور جب تھک جاتا ہے تو اپنی تنہائی کا ساتھی ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔

یہ فراز سلیم کا خیال تھا، وہ اپنی تنہائی میں کی گئی آوارہ گردیوں سے پوری طرح تھک چکا تھا۔ اسے پتا تھا اسے لوٹ کر پاکستان نہیں جانا۔ وہ اسپیشلائزیشن کلیئر نہ بھی کر سکا، کچھ چھوٹے موٹے کورسز کر کے ایک درمیانے درجے کا ڈاکٹر تو بن جائے گا اور اس طرح پارٹ ٹائم جاب سے کام نکال سکتا ہے۔

جب تک وہ اپنی ڈیوٹی یا کلینک سیٹ کرنے میں کامیاب ہو جاتا، تب تک اس کے لیے اکیلے رہنا دشوار ہو گیا تھا۔

وہ حقیقتوں کو تسلیم کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتا تھا بلکہ پورے فخر کے ساتھ بتا دیتا تھا۔اس نے اعلانیہ کہا تھا کہ اسے ایک عدد بیوی کی ضرورت ہے۔ صرف بیوی کی کسی محبوبہ کی نہیں۔

”میں ایک نہیں دو محبوبائیں بھگتا آیا ہوں۔ایک وہ جسے میں نے اسکول کی عمر سے چاہا تھا اور ایک جو میرے نام سے منسوب تھی جس نے میرے خواب دیکھے اور مجھے ٹوٹ کر چاہا۔ میری آوارہ گردی، بے پروائی اور بدکلامی سے ٹوٹ کر اس کے ماں باپ نے اسے کہیں اور زبردستی بیاہ دیا۔

اپنے سے دو سال چھوٹے شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے وہ خوشی سے سمجھوتے تک کے سفر میں دو چار بچے پیدا کر چکی ہے، جسے میں چاہتا تھا اور میرے دل میں جس کا محبوب بننے کی خواہش اُبھری تھی۔اس نے اپنے بنائے ہوئے محبوب کو چنا اور اب خوشی سے سمجھوتے کے سفر میں اس نے دو گُل گوتھنے بچے پیدا کیے اور اب وہ اپنے غیر ذمہ دار اور بے پرواہ شوہر کی بے پروائیوں کا رونا روتی ہے۔اپنے بچوں کے لیے خود کماتی ہے اور پاکستان میں رہتے ہوئے بھی یورپ جیسی زندگی گزارتی ہے۔”

”تم نے اس سے رابطہ کیوں نہیں کیا فراز؟”

سارنگ اس کے ساتھ اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔ شیبا گاڑی میں بیٹھی انتظار کر رہی تھی جو سارنگ کو کوئی مووی دکھانے لے جا رہی تھی۔

”وہ اپنے بچوں سے ان کا بے پروا باپ نہیں چھیننا چاہتی۔”

”مگر اس کا انتخاب اس کے بچے ہوں گے اور میں اپنے بچوں کا ہی بوجھ اٹھا لوں آنے والے وقتوں میں تو کافی ہے۔”

”اس کے بچوں کی ذمہ داری لے کر میں ایک عظیم انسان بننے جتنی سکت نہیں رکھتا۔”

”تو میں اسے کیوں اندھیرے میں رکھوں اور جھوٹے پیمان باندھوں۔”

سارنگ گاڑی میں بیٹھا تو سلیم نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

”میں تم دونوں کو اپنے نکاح میں شرکت کے لیے کل کی دعوت دیتا ہوں۔”

شیبااور سارنگ نے کسی حیرت کا اظہار کیے بغیر دعوت قبول کی۔فراز کے جانے کے بعد شیبا نے گاڑی اسٹارٹ کی اور سارنگ سے کہا۔

”لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ شادی خوشیوں کا ایک خزانہ ہے، جس سے تمام پریشانیاں اور فکریں بھاگ جاتی ہیں۔”

”ہو سکتا ہے ان کا خیال آدھا درست ہو۔”

”ایک وقت تک۔ اس کے بعد وہی جھک جھک۔”

”نہیں، ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ جھک جھک بھی زندگی کا حصہ ہے اور پیار بھی، اعتماد بھی۔”

”ہاں مگر مجھے یہ زندگی کا مشکل ترین فیصلہ لگتا ہے اس لیے کہ عجلت نقصان دیتی ہے۔”

”جتنا بھی سوچا جائے میرے خیال سے رسک پھر بھی رسک ہی ہوتا ہے۔”

”اور کہتے ہیں نا کہ یہ ایسا لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی، تجربہ شرط ہے۔ تم نے کیا سوچا اپنے لیے؟ لگتا ہے فراز کی طرح بہت جلد کوئی اعلان کرنے والے ہو۔”

”نہیں، سوچا تو کچھ نہیں ہے ابھی۔”

”کمیٹڈ ہو کسی سے؟”

”لگتا ہے؟” وہ ہنسا تھا۔

”پتا نہیں۔ تب ہی تو پوچھ رہی ہوں۔”

”نہیں، آزاد ہوں ابھی۔”

”تم لوگوں کے ہاں اپنے خاندان میں ہی شادی کی جاتی ہے؟”

”ہاں، ایسا تو ہے مگر میرے معاملے میں شاید ایسا نہ ہو۔”

”تم ان سے الگ ہو؟” 

”نہیں، میں فیصلہ کر سکتا ہوں۔ میرے بابا نے یہ مجھ پر چھوڑا ہوا ہے۔”

”یہ سن کر بہت اچھا لگا۔”

”ہاں، اسی لیے مطمئن ہوں۔”

”ابھی تک کسی کو پسند کیا؟”

”نہیں، ایسا تجربہ نہیں ہوا۔”

”کیسی لڑکی چاہیے تمہیں شادی کے لیے۔”

”سوچنا پڑے گا۔” 

وہ ہنس دی۔ ”کچھ چیزوں میں تم بہت معصوم ہو۔ ”

”اچھا واقعی؟” وہ ہنسا۔

”سچ کہہ رہی ہوں۔ مجھے حیرت ہے کہ تم نے نہیں سوچا، تم نے ضرور سوچا ہو گا؟”

”مجھے اپنی سوچ کے مطابق کوئی ملا نہیں۔ البتہ سوچا ضرور ہے۔”

”دیکھو مجھے محنتی، خوش مزاج اور بہادر مرد پسند ہیں۔ اس کے علاوہ خوب صورت بھی ہو تو چلے گا۔ اسمارٹ ہو توکیا ہی بات ہے۔” وہ بڑے مزے سے کہہ رہی تھی۔

”تم بہت کھرا سوچتی ہو۔”

”ہاں۔”

”شاید مجھے بھی اسی طرح کی لڑکی پسند آئے۔”

”مثلاً؟ ”وہ جاننا چاہتی تھی۔

”مثلاً یہ کہ خوش مزاج،لیکن تھوڑی سی نک چڑھی بھی ہو توبھی کوئی ہرج نہیں۔ذہین، بہت سوچ سمجھ رکھنے والی اور بولڈ، پُر اعتماد، اپنے فیصلے خود لینے والی۔ ظاہر ہے پڑھی لکھی تو ہو گی۔” وہ مسکرا دی۔

”مجھے بہادر لڑکیاں پسند ہیں جو اپنے حق کے لیے بولنا جانتی ہوں۔”

اسے یاد آیا اس نے سندھیا کو کتنا اُکسایا تھا مگر اس کے اندر وہ ہمت نہ پیدا کر سکا۔

اسے پتا ہونا چاہیے تھا کہ ہمت کیسے آتی ہے۔ماحول بہت بڑا اثر رکھتا ہے اور اس کا مخالف باغی کہلاتا ہے۔ ایک گھر میںباغی کی وہ حیثیت ہوتی ہے جو اپنے گھر میں ایک چور کی اور اگر وہ لڑکی ہو تو حیثیت ہی نہیں رہتی ۔ رہی سہی حیثیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔لڑکا ہو تو گھر سے روٹھ جائے، کسی آشنا کے ساتھ چلا جائے۔ اپنا الگ گھر بنا لے۔ چاہے تو فٹ پاتھ پر سو جائے۔ چاہے تو سڑکیں ناپتا پھرے۔ مزدوریاں کرے تو بھی پیٹ پال لے گا۔ اگر لڑکی ہو تومر جائے، زہر کھا لے۔گھر سے بھاگ جائے تو دنیا کی ٹھوکروں میں آجائے۔ اگر گھر میں رہے تو ٹھوکر میں رہے۔ باغی نہ ہو تو صابرکہلائے۔ عاجز کہلائے، سادہ اور معصوم کہلائے۔ قابلِ ترس اور قابلِ رحم کہلائے۔

قابلِ ترس عورت کو تو معاشرہ قبول کر لیتا ہے مگر ایک مضبوط عورت سے معاشرے کا ہمیشہ ٹکرائو رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے۔ ٹوٹ کر بکھر جائے۔ بکھر کر ختم ہو جائے اور اس پہ فاتحہ پڑھ لی جائے۔دوسری صورت میں اسے ہمیشہ قابل ترس لہجوں اور لفظوں میں یاد رکھا جاتا ہے اور صبر اس کا مقدر ٹھہرایا جاتا ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

Read Next

شریکِ حیات قسط ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!