سندھ میوزیم حیدر آباد۔
شام پوری طرح ڈھل رہی تھی اور میوزیم کے اندر روشنیوں کا نور بکھرا ہوا تھا۔مورتیاں مُسکراتے ہوئے جیسے ہر آئے گئے کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔پورے سندھ کی ثقافت جیسے ایک جگہ رنگ دکھانے کے لیے کھڑی ہو گئی تھی۔
سندھیا کو یہ میوزیم کسی خزانے سے کم نہ لگا۔ ”وہ دیکھو جب انسان بندر تھا۔”
حسن بخش نے ان دونوں کی توجہ مبذول کروائی۔
”انسان کبھی بندر ہوا کرتا تھا۔” سوہائی کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ شیشے کے اس پار چھوٹے چھوٹے بندر نما انسانی کھلونوں کو ویران بیابانوں میں گشت کرتے ہوئے دیکھ کر اس نے شیشے پر تجسس سے انگلی پھیری۔
” عبرت پکڑنے کے لیے ہوتے ہیں یہ سارے مجسمے۔” حسن بخش نے کہا۔
”چاچا سائیں تو کیا بندے ایک وقت کے بعد بت بن جاتے ہیں۔”
”انسان ایک مدت بعدبت بن جائیں گے۔” انہوں نے زیر لب سندھیا کی بات دُہرائی۔
”تو کیوں اُداس چھوکریوں کو ہراساں کر رہا ہے؟ چل پرے ہٹ سندھو۔ ان شیشوں کے فریموں میں کئی سو سال پہلے کی تاریخ ہے۔”
”چل میں تجھے آمری کا دڑا دکھائوں۔” وہ اسے اسٹوپہ کی طرف لے آئے۔ ”اور یہ کھلونے دیکھ مٹی کے۔”
”اے سندھو توایسے ہی تو گھر بناتی تھی۔” ہاں تو ان کو پتا تھا نا کہ سندھو اور سوہائی اسی طرح کے گھر بناتی تھیں۔
”اور یہ گڑیاں کپڑے کی۔ ہئے یہ گڑی۔” سوہائی نے چیخ ماری جو آدھی دبا دی منہ پہ ہاتھ رکھ کر، سندھو نے گھورا تھا۔
”گھر سے باہر ہیں ہم، گھر پہ نہیں ہیں۔” وہ ہولے سے بولی۔
”اور یہ مورتی دیکھو۔”وہ ادھوری مورتی جس کو سومرا دور کی ثقافت کا لباس پہنایا گیا تھا اور یہ سماں دور کی مورتی۔ ”ارے یہ چنری دیکھو جو اس نے اوڑھی ہے۔”
”اور یہ تھر کے ریگستان کی مورتی۔ اوہ یہ اوکھلی میں کیا پیس رہی ہے۔ یہ تو سوکھی ہوئی سرخ مرچیں ہیں۔”
”ثابت مرچیں آنکھوں میں چبھتی ہوں گی۔” اسے لگا ابھی ہوا کا جھکڑ چلے گا،یہ مرچیں سارے میں اڑ کر بکھر جائیں گی۔ پھر تیز برسات ہو گی اور یہ جھونپڑی کا کچا چھپر برساتی پانی سے بوجھل ہو کر گر جائے گا۔
ایسا ہی ہوا تھا جب وہ بہت چھوٹی تھی۔
یہی کوئی دس سال کی، ان کا پکا کمرہ تعمیر ہو رہا تھا۔جب تک صحن میں ایک کچا کوٹھا بنوا لیا، جس کے گارے کے لیپ سے بنے چھپڑکو ہوا جھکا جاتی تھی۔
اسے ہر وقت محسوس ہوتا کہ چھت اب گری کہ تب۔ یہ وہم ایک دن اس قدر پختہ ہو گیا کہ یقین کی صورت برساتی پانی سے بوجھل ہو کر چھن کی خوف ناک دل چیر دینے والی آواز سے کوٹھے کی زمین پر گرگیا۔
سندھو بہ مشکل بچ پائی تھی۔ ابا نے اسے گھسیٹ لیا تھا۔ اس کے بازو پر لکڑی کا موٹا سا دروازہ گرا تھا بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔کئی دن تک پلاسٹر چڑھا رہا۔
کاری گرکہنے لگا۔ ” جلد جڑ جائے گا۔سب سے بڑا کاری گر اوپر بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے چاہا تو جڑ جائے گا، جس نے یہ بازو مکمل بنایا اسی سے کہو سندھو کہ پہلے جیسا بن جائے۔”
اور سندھو نے چھوٹا سا جا نمازبچھا دیاجو جیجی اس کے لیے تب لائی تھی، جب وہ حج کرنے گئی تھیں۔ جب سندھو پیدا بھی نہ ہوئی تھی۔
جیجی اس آس سے لے کر آئیں کہ مولا بخش کے ہاں بچہ ہو گا اور وہ جب سات سال کا ہو گا تو اسے اس مصّلے پر بٹھا کے نماز سکھائوں گی اور جب وہ سات سال کی ہوئی تو اسے بتایا گیا کہ رکوع وسجود کیا ہوتا ہے۔
”دیکھ سندھو اللہ سوہنے کے سامنے جھک جا کہ تو ساری حیاتی اسی کی عبادت کرے گی۔کہہ دے تو جھکنے کا اقرار کرتی ہے۔کہہ تو منہ میرا کعبے پاک طرف، باندھ نیت۔”
اسے نیت باندھنا سکھائی گئی۔
اور جب تین سال بعد کوٹھی کے کچن کی چھت گری تو کسی کو کہنے کی ضرورت نہ پڑی۔
خود ہی جا نماز بچھائی۔
منہ میرا کعبہ پاک کی طرف۔
کہتے ہوئے سوچ کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
اللہ سوہناں تجھے دیکھ رہا ہے۔ جیجی کی سرگوشی یاد آگئی۔
اس نے آنکھیں بھینچ کر کھول دی تھیں۔
”اللہ سوہناں کہاں ہے جیجی؟”
”اللہ سوہناں ہے۔”
”اللہ سوہناں ہے۔ پر ہے کہاں؟” لہجے میں بے زاری تھی، زور آوری تھی۔
”اللہ سوہناں ہر جگہ ہے۔”
”دِکھتا کیوں نہیں؟”
”دِکھتا نہیں ہے۔ دِکھنا اس کی شان نہیں ہے۔دیکھتا ہے، دیکھنا اس کی شان ہے۔وہ بڑی شان والا ہے۔ وہ بڑی طاقت والا ہے۔اس نے مورتیاں بنائیں۔ اور پھر ان میں سانس بھی پھونک دیا۔”
”یہ مورتیاں کس نے بنائی ہیں؟ ہوبہ ہو ویسی ہی جیسی اللہ سوہناں بناتا ہے۔”
”یہ مورتیاں سندھو اللہ سوہنے کی بنائی ہوئی مورتیوں نے ہی بنائی ہیں۔”
”یہ بنانا کس نے سکھایا ہے؟”
”اللہ سوہنے نے، ہاں اسی نے سکھایا ہے۔”
”مگر جیجی کہتی ہیں کہ مورتیاں گھڑنا رب کی شان ہے، اس لیے بندے کا مورتی گھڑنا گناہ ہے۔ فوٹو کھینچنا بھی گناہ ہے۔”
سوہائی انگلی کی پور پر گن رہی تھی۔
”گناہوں کی کتاب اتنی لمبی کیوں ہے؟”
”ثواب گننے میں نہیں آتے۔”
”ہاں مگر ثواب گناہوں سے زیادہ وزنی ہوتے ہیں۔ ”
”ثواب میں طاقت ہے۔ نیکی میں طاقت ہے۔”
”گناہ میں بھی تو چاچا سائیں طاقت ہے،یہ کھینچتا ہے۔”
”گناہ میں واقعی طاقت ہے سندھو۔”
”مگر ثواب میں تاثیر ہے۔ گناہ میں نشہ ہے۔”
”تاثیر نشے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔”
”ثواب میں سکون ہے یا پھر نیکی میں سکون ہے۔”
”تو نے وہ سامنے والا بچہ دیکھا؟”
”آہ کس کاری گر نے گھڑا ہے۔ درخت کی ٹہنی پر چمٹا اپنی ماں کو اشارہ کرتا ہے۔اس کے چہرے کے تاثرات دیکھو۔”
”بندہ بت کیوں بناتا ہے؟”
”کیا ان سارے بتوں میں ایک دن جان پڑ جائے گی؟”
وہ ان مسکراہٹوں کو نزدیک سے دیکھ رہی تھی مگر چھو نہیں سکتی تھی۔بیچ میں ایک تار کا فاصلہ تھا۔
”تیرے اندر سوال اٹھ رہے ہیں سندھو۔ چل یہاں سے کسی اور جگہ چلتے ہیں۔”
وہ کہنا چاہتی تھی۔ سوال اُٹھ چکے ہیں ابا سائیں۔
”ابا سائیں۔ یہ مورتیاں جیسے ہمیں دیکھتی ہیں۔”
”وہ آدمی جو حکمت کی دوابنا رہا ہے، اس کا چہرہ دیکھ۔ وہ جو انگیٹھی میں کوئلے دہکا رہی ہے، یہ بجلی پہ کوئلے چمکتے ہیں۔ دیکھ بجلی چلی گئی ہے۔”
”بجلی ہمیشہ غلط وقت پر جاتی ہے۔” سندھو نے منہ بسورا ۔
”اب یہ لوگ جنریٹر چلائیں گے۔” حسن نے تسلی دی۔
”بس چل ادا حسن۔ اس سے پہلے شام پوری طرح ڈوب جائے،ہمیں نکل جانا چاہیے۔” مولا بخش کے اندر کوئی ڈر بولنے لگا۔
حسن کہنا چاہتا تھا کہ تو تو نہیں ڈرا کرتا۔ اگر کہہ دیتا تو اس نے کہنا تھا۔
انسان تو ایک نہ ایک دن ڈر بھی جاتا ہے۔
جیجی ہوتی تو کہتی، انسان کا رب سوہنے سے ڈرنا بندے کی شان ہے، مگر وہموں سے ڈرنا کمزوری ہے۔
اور وہ اسی لیے ڈر کی نہیں سن رہا تھا۔
وہ زیادہ دیر ڈر کی نہیں سنتا تھا۔ اس نے اپنے بڑوں سے یہی سیکھا تھا کہ وہم سے اتنا مت ڈرو کہ وہ تم پر حکومت کرنے لگے۔
حکومت کرنا اللہ کی شان ہے۔اپنے اوپر کسی اور خیال کو اتنی عزت مت دیا کرو ورنہ تم اپنی طاقت کھو دو گے۔وہ اپنی طاقت نہیں کھونا چاہتا تھا۔وہ طاقت جسے اپنی زبان میں وہ یقین کہتا تھا۔
٭…٭…٭