شیباکافی کھوئی کھوئی اور چپ چپ سی تھی۔
”کیا سوچ رہی ہو جو کہہ نہیں پا رہی؟”
”اب یہ مت کہنا کہ اس جگہ کا اثر ہے تم یہاں آکر ایسی ہو جاتی ہو۔”
”تمہارے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔”
”ہاں ہمیشہ۔ پانی کی گہرائی گم صُم کر دیتی ہے۔”
”یہاں بڑا سکون ہوتا ہے۔ اتنے سارے لوگوں کے باوجود بھی سکون سا محسوس ہوتا ہے۔ اتنا شور ہونے کے باوجود بھی خاموشی ہوتی ہے۔”
”اتنی گہری گہری باتیں بھی تم یہاں آکر کرتے ہو۔”
”جب تم اتنا سوچو گی تو مجھے یہ باتیں کرنی پڑیں گی۔” وہ مسکرا دی اس کی بات پر۔
”اچھا اب بتا دو کہ کیا سوچ رہی ہو؟”
”بس کچھ پریشان ہوں۔”
”وہ تو نظر آرہا ہے تمہارے چہرے سے۔کیوں پریشان ہو، مت ہوا کرو۔ اچھی نہیں لگتی تمہارے چہرے پر پریشانی۔”
بڑا اچھا لگا تھا یہ سُننا کہ تمہارے چہرے پر پریشانی اچھی نہیں لگ رہی۔وہ مُسکرا دی مگر ہلکی سی، اُلجھی سی، تھکی سی۔
” زندگی میں کچھ فیصلے کرنے کتنے مشکل ہوتے ہیں نا سارنگ۔”
”زندگی کا ہر فیصلہ ہی مشکل لگتا ہے کرنے سے پہلے۔ بعد میں وہ آسان ہو جاتا ہے۔اگر نہ کرو تو مشکل بڑھ جاتی ہے کر دو تومشکل آسانی میں بدل جاتی ہے۔ یہ میرے چچا کہتے ہیں۔”
”مگر کچھ فیصلے بعد میں بُرے ثابت ہوتے ہیں۔”
”زندگی کی ہر چیز رسک ہے، ہر لمحہ، ہر پل اور ہر وقت رسک رہتا ہے۔ ہر شخص رسک لیتا ہے اور اسی میں مزا ہے۔ چاچا کہتے ہیں تجربہ بہت طاقت رکھتا ہے اپنے اندر، تم تب تک وہ طاقت نہیں حاصل کر سکتے، جب تک تجربہ نہیں کرتے۔”
”تمہارے چاچا کسی یونی ورسٹی کے پروفیسر لگتے ہیں۔”
”یونی ورسٹی کی شکل نہیں دیکھی میرے چاچا نے مگر یونیورسٹی کے پروفیسرز سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ یہ عقلی اور شعوری صلاحیت آپ کے جینز میں ہوتی ہے۔”
”ٹھیک کہتے ہو۔ ایسے لوگ بتائے بغیر ہی ہر بات سمجھ جاتے ہوں گے۔”
سارنگ اس کا اشارہ سمجھ رہا تھا۔
”انسان ہر چیز کو سمجھتے ہوئے بھی کنفرمیشن چاہتا ہے، مکمل یقین۔”
”تم نے مجھے اپنی پریشانی کے بارے میں نہیں بتایا۔”
وہ پانی سے کچھ دور بینچ پر آکر بیٹھ گئے تھے۔
”ہاں پریشانی، بس ماما کہتی ہیں کہ رشتے آرہے ہیں۔”
”ماما کہتی ہیں کہ رشتے آرہے ہیں؟” سارنگ مسکراہٹ دبا کر بولا۔
اسے فوراً احساس ہوا کہ جملہ اُلٹ ہو گیاہے ۔
”ہاں! ماما کہہ رہی ہیں، مطلب ایک دو پرپوزل آئے ہوئے ہیں نا۔” اس نے بات کو سنبھالا۔
”اچھا، یہ تو اچھی بات ہوئی پھر۔”
”ہم… اچھی بات ہے۔” وہ سارنگ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر نظر ہٹا لی، وہ اس کی طرف نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ کبھی کبھار کسی اور کو جانچنے کے لیے آپ اس کی طرف دیکھتے ہیںمگر اپنا عکس ہی بانٹ لیتے ہیں۔اپنی مشکل ہی اسے بتا دیتے ہیں۔
”پروپوزل اچھے ہیں؟” وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
” بہتر ہیں۔ بس ماماسے اب صبر نہیں ہوتا۔”
”کہہ رہی ہیں جلدی کوئی فیصلہ کرو۔ عمر نکلی جا رہی ہے وغیرہ۔”
”ان کوٹھیک لگتا ہے صحیح کہہ رہی ہیں وہ۔”
”ہاں، وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کو کوئی اپنے لائق ملے تو آپ بھی سوچیں نا۔”
”ہاں، یہ بھی ہے مگر تم دیکھ لو۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی قابل ہو۔” وہ اسے مشورہ دے رہا تھا۔ وہ سرہلا کر چپ ہو گئی۔
اسے کسی اور جواب کی توقع تھی۔کچھ اور سننا تھا لہٰذابات بڑھائی۔
”تمہیں کیا لگتا ہے کہ مجھے کرنا چاہیے۔”
”ہاں، اگر بہتر ہے تو کیا حرج ہے۔” اس نے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔ لہجہ بالکل خالی تھا۔
”سوچتے ہیں۔” وہ سر ہلا کر رہ گئی۔
واپسی پر وہ کافی خاموش خاموش سی گھر آئی، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس نے ٹھیک طرح سے بات کی یا نہیں، وہ اس کی بات کو سمجھ سکا یا نہیں۔
اندر داخل ہوتے ہی فرح نے اس سے سوال کیا تھا۔
”کیا کہا اس نے۔”
”مشورہ دیا دوستانہ کہ اچھا رشتہ ہے توکر لو۔”
”ہیں؟ یہ کہا اس نے؟” حیران تھیں وہ۔
”جی! یہی کہا۔” وہ کندھے اچکا کر کمرے کی طرف چل دی۔
”ماما میں سونا چاہتی ہوں۔” وہ جانتی تھی فرح اب کمرے میں آکر اس بات کی تفصیل میں جانا چاہیں گی۔ اس لیے وہ فی الحال جان چھڑا کر نکل گئی۔
٭…٭…٭