مولا بخش نے صبح سویرے فجر کے وقت نماز پڑھ کر دعا کی اور دعا کر کے مسجد سے نکلا تو حسن بخش مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھا نظر آیا۔اس نے اسے اپنے ساتھ آنے کے لیے نہیں کہا، بس اس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ وہ سمجھ گیا اسے بات کرنی ہے۔ وہ اٹھا تو مولا بخش بھی اٹھ گیا۔ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے باہر آئے۔
بازار کے سامنے سے گزر کر نہر کی طرف چل دیے۔ رستے میں کئی طنز برساتی نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔کوئی فقرے کستا تو کوئی چہ مگوئی کرتا۔ جب سے صادق نے مشہوری کی تھی، تب سے لوگوں کی زبانیں مزید کھل گئی تھیں۔اس دن کے بعد اگلے روز کنارے جاتے ہوئے کسی نے رستے میں دریافت کیا تھا۔
”دے خبر ادا مولا بخش،بھائو سارنگ تو بھنورا نکلا، تتلیوں پر منڈ لاتا ہے۔” کہنے والے نے اپنی زبان میں کہا تھا اور کیا طنز بھری تلخی تھی۔ کسی کا لہجہ زہر بن جاتا ہے۔زبان کہنے کو میٹھی، لگے تو زہر کی گولی جتنی کڑوی ۔
”سارنگ کو بھنورا بننے کی کیا ضرورت ہے بھائو۔لڑکی تو ہم نے پسند کی ہے اس کے لیے، ڈاکٹر ہے اپنے جیسی۔ ڈاکٹرنی لائے گا تو گائوں سدھر جائے گا آگے جو رب کی کرنی۔”
کہنے والے کی دانتوں تلے انگلیاں آگئیں۔ کہنے کو اور کچھ نہ رہا۔
کھیتوں کے پاس آکر حسن نے خفگی سے دیکھا۔
”او تو نے یہ کیا پٹاخہ چھوڑ دیا مولا بخش ۔”
”او کچھ نہیں ہوتا بھائو حسن۔ منہ بند کرنا تھا اس کا۔ مگر تو سوچ تو اس میں ہرج بھی نہیں ہے۔ دیکھ سارنگ اگر خوش ہے تو نکاح کر دیتے ہیں۔اس میںکوئی حرج تو نہیں ہے۔”
”حرج کیسے نہیں مولا بخش۔ پہلے کی بات اور تھی یار میرے، اب کی بات اور ہے سجن۔مجھے لوگوں کی پرواہی نہیں مگر جب گھر کے بچوں میں جوڑ ہے تو باہر جھانکنے کی بھلا کیا ضرورت۔”
”او دیکھ حسن بخش میرے یار جوڑ زبردستی نہیں بنائے جاتے۔سندھو میری جگری ہے، اس کی خوشی میری آنکھیں سارنگ کی خوشی میرا دل۔”
حسن بخش نے اپنے بھائی کو دیکھا جو اسے کسی اور ہی سیارے کی مخلوق لگ رہا تھا۔ بے پروا، بے نیاز۔ مولا بخش اس کی کیفیت سے لاعلم اپنی کہتا رہا۔
”دیکھ سندھو کا نصیب سندھو کے ساتھ جڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اس نے کوئی تو جوڑ رکھا ہو گا نا اور جب اس پر بھروسا کرتا ہوں تو سوچتا ہوں، جو جوڑ میرے مولا سائیں نے رکھا ہو گا۔ وہ سب سے مہنگا ہو گا پر سارنگ کو میں نہیں باندھوں گا۔”
”بات سارنگ کو باندھنے کی نہیں ہے بھا مولا بخش۔”
مولا بخش نے اس کی بات کاٹ دی۔”بات حیاتی کی ہے بھائو۔ حیاتی سستی نہیں ہے اک واری ملتی ہے اور پھر نہیں ملتی۔بس میری خواہش ہے سندھو کو اپنے گھر کی کروں لیکن اگر نہیں لکھا ابھی تو سارنگ کے چہرے پر سہرا دیکھ کر بھی دل خوش ہو جائے گا اور جب خوش ہو کر جائے گا، تو زیادہ اچھا ہو گا۔”
”تو ایسی باتیں کر کے مجھے نرم کر رہا ہے مولا بخش مگر تو سن لے میں سارنگ کی اب کوئی ضد نہیں ماننے والا۔”
”چل تو نہ مان۔ میں بات کرتا ہوں اس سے آج،میں بھی اس کا ابا ہوں۔ اس پر تجھ سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔”
”اتنا رکھتا ہوں کہ تو سگا بھی بول نہیںسکتا۔”
”واہ مولا بخش تو دل کا دریا ہے۔”
”او مولا بخش۔” وہ کہتے کہتے رہ جاتا۔
”تیرے پاس دل ہے کہ نہیں ہے۔”
”دل ہے بھائو، دل ہے بڑا کھلا دل ہے۔دل ہے تبھی تو خوشی کا احساس رکھتا ہے۔”
٭…٭…٭