دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، میرے گھر والے اور ان کی سوچیں ابھی تک اسی کنویں کے مینڈک جیسی ہیں۔ وہ تلخ ہو گیا تھا۔ تلخ سوچ رہا تھا۔
ایساکیاہوا ہے جسے اس طرح پیش کیا گیا ہے صرف تصویریں دیکھ کر۔کہنا چاہتا تھاکہ کیا میری ذات کا اعتبار کچے گھڑے کی طرح تھا؟ اتنی جلد ٹوٹ گیا۔
وہ کئی راتیں بیٹھ کر بھی سوچتا تواسے کچھ غلط نہیں دکھ سکتا تھا۔ اسے صرف افسوس ہی ہو رہا تھا۔اسی غصے کے تحت وہ عجیب و غریب سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔دل تھا کہ بوجھل ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
”آپ ہمیشہ اگلے وقت کے لیے بے وقت سوچتی ہیں ماما۔” وہ بلبلائی اُن کی بات سن کر۔
”میں تمہارے لیے سوچتی ہوں۔ سوچ سوچ کر تھک چکی ہوں اب۔”
”میں خود جاکر اسے نہیں کہہ سکتی کہ شادی کر لو مجھ سے، اگر وہ بھی یہ چاہتا ہے تویہ اسے کہنا چاہیے، مجھے نہیں۔”
”تم ابھی تک اس کے بارے میں شکوک کا شکار ہو؟”
”نہیں، بہ ظاہر کچھ نہیں، مگر پھر بھی لگتا ہے مجھے ابھی انتظار کرنا چاہیے۔”
”تمہیں یہ اندازہ نہیں کہ وہ بھی چاہتا ہے یہ سب؟”
”مجھے اندازہ ہے، وہ چاہتا ہے مگر صرف چاہت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، اسے خود کہنا چاہیے۔ میں کوئی اُمید نہیں رکھنا چاہتی۔ایسا نہ ہو کہ ہماری دوستی خراب ہو۔ ہو سکتا ہے وہ جھجکتا ہو۔اگر وہ جھجکتا ہو تو میرا جھجکنا تو غلط نہیں ہے۔”
”تم اُسے ڈنر پر انوائٹ کرو۔مل کر کچھ بات کرو۔”
”مجھے یہ بالکل اچھا نہیں لگے گا ماما۔” اس نے منہ بنایا۔
”میں ایک طریقے سے بات کروں گی۔ میں پوچھوں گی وہ شادی کب کرے گا؟ فیوچر پلانز کیا ہیں اس کے۔یہاں رہے گا یا چلا جائے گا؟”
”اگر یہی پوچھنا ہے تو کبھی فون کر کے پوچھ لیں۔” وہ ہنسی ۔”اس کے فیوچر پلانز یہی ہیں کہ وہ ریذیڈنسی کے بعد واپس چلا جائے گا۔”
”تم اسے جانے دو گی تو وہ جائے گا نا۔”
”میں اسے روک نہیں سکتی۔”
”تم روک سکتی ہو، اگر تم اس پوزیشن میں آ جائو۔ میں کہتی ہوں ایک بار کلیئر کر دو۔”
”فرض کریں اگر وہ شادی کرنے میں انٹرسٹڈ نہ ہو؟ ”
”تو ہم کوئی اور ڈھونڈ لیں گے، کم از کم بات کلیئر تو ہو گی۔”
” کتنی آسانی سے کہہ دیا آپ نے۔”
”انسان گاڑیوں کی طرح نہیں بدلے جا سکتے ما ما۔”اسے افسوس ہوا۔
”تم اس کے لیے سیریس ہو؟” وہ سنجیدہ تھیں۔
”آپ کو کیا لگتا ہے؟” اسے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
”اب تم کوئی اسٹیپ جو نہیں لیتی ہو، مجھے لگتا ہے تم ابھی سوچ رہی ہو اور اُلجھ رہی ہو۔ اس لیے کہتی ہوں زیادہ مت سوچو۔ اُلجھ گئی تو فیصلہ نہیں کر پائو گی۔”
”ماما، وہ میرا دوست ہے۔ اچھا ہے، اس میں کوئی ایسی بڑی خامی نہیں، جس کے لیے اسے ریجیکٹ کیا جائے۔”
”میں روز کی اس بک بک سے تھک گئی ہوں ۔کوئی فیصلہ کرو شیبا۔”
”ٹھیک ہے ، مگر ایسے نہیں کہ مجھے خود کسی کو پیش کش کرنی پڑے۔”
”تو پھر کیا تم انتظار کرو گی کہ وہ کب تم سے بات کرتا ہے۔”
”ظاہر ہے۔” اس نے کندھے اُچکائے۔
”اس سے نہ پوچھو۔ چلو یہ کہہ دو کہ بہت رشتے آرہے ہیں۔ ممی شادی کرنا چاہتی ہیں۔ اگر وہ انٹرسٹڈ ہو گا تو تمہیں خود ہی پرپوز کر دے گا یہ سُن کر۔”
”یہ کافی احمقانہ سی ترکیب ہے۔”
”نہیں، یہی ٹھیک طریقہ ہے۔”
”اچھا، کتنی بے وقوف لگوں گی میں، اس سے کوئی بات سننے کے لیے خود اپنے لیے رشتوں کی قطار کے بارے میں بات کرتی ہوئی۔” اس نے ہاتھوں پر پڑی انگوٹھی گھماتے ہوئے کہا۔
”قطعاً نہیں۔ تم کر کے تو دیکھو۔”
”ماما! مجھے لگتا ہے آپ۔ ”وہ بے زاری سے اٹھی۔
”مجھ سے اب انتظار نہیں ہوتا شیبا۔” وہ گہری سانس لے کر کھڑی ہو گئیں۔
”میری بات پہ اب سوچو مت۔ براہِ راست عمل کرو۔ ”
وہ سر جھٹک کر کمرے کی طرف چلی گئی۔
سونے سے پہلے کپڑے نکالتے، چینج کرنے کے بعد برش کرتے، بال سمیٹتے، فائل دیکھتے، سیل فون چیک کرتے، اُٹھتے، بیٹھتے اور سونے سے چند منٹ پہلے لیٹنے کے دوران بھی وہ یہی سوچتی رہی۔
سوچتے سوچتے نیند آگئی، تب تک اس کا ذہن تھک چکا تھا اور وہ خود بھی۔
٭…٭…٭