سنی کا خوف — نورالسعد

مہم
صبح ہونے والی تھی۔ ساری رات گزر گئی تھی ماں کو ڈھونڈھتے۔ کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ ماں کو آوازیں بھی دیں مگروہ خدا جانے کہاں چلی گئی تھی۔ ایسے تو کبھی نہ ہوا تھا۔ شام ڈھلی تو وہ مایوس ہو کر ماں کے انتظار میں اُن کی پسندیدہ شاخ پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ ہم تو بھائی کے پاس جانے والے تھے۔ کیا وہ بھائی کے پاس اکیلی چلی گئیں؟ نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ سنی نے سر جھٹکا۔
ماں غائب تھی، مرجان بھی غائب تھی۔ آخر سب لوگ مجھے تنہا کیوں چھوڑ گئے ہیں؟ وہ گھٹنوں میں سر دیے ہچکیوں سے رونے لگا کہ یکایک اس کے پیر کے گرد سانپ سا لپٹا۔ وہ اچھل کے کھڑا ہوا۔ وہ کوئی بہت باریک سا سانپ تھا جو بے حس و حرکت شاخ سے آدھا لٹکا جھول رہا تھا۔ سنی کا ڈوبتا دل تھوڑا سنبھلا۔ اس نے آنکھیں میچ کے غور سے دیکھا۔ پھر جب ادراک ہوا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھل پڑا۔
وہ سانپ نہیں مرجان کے ایئر فون تھے۔
”تو کیا مرجان یہاں آئی تھی؟”
”اُسے مرجان کو ڈھونڈنا تھا، ماں بھی وہیں ملتی۔ اس نے جھٹ اپنا ٹیبلٹ نکالا۔ وہ کیا بتایا تھا اس نے؟ اس نے جلدی سے ٹریکنگ ایپ کو کنیکٹ کیا۔ مرجان کی لوکیشن لوڈ ہو رہی تھی… بس ہونے والی تھی، ہوگئی…ہیں؟
”سفاری پارک کراچی؟”
”کیا وہ یہیں تھی؟”
٭…٭…٭
رات کی تاریکی میں جی پی ایس پر لوکیشن ٹریس کرتا ہوا وہ خاموشی سے اڑتا چلا جا رہا تھا۔ جی پی ایس اسے پارک کے ایک ایسے گوشے میں لے آیا جہاں ایک پرانا سا کاٹیج بنا تھا۔ اس کاٹیج کی واحد دھندلے سے شیشے والی کھڑکی سے نیلی اور کبھی زرد روشنیاں نکلتی محسوس ہو رہی تھیں۔ سنی نظروں سے غائب ہوا اور کھڑکی سے اندر جھانکا۔ اندر کا منظر اس کی توقع کے بر عکس تھا۔
”اس نے سوچا کہ وہ کسی جادوگر یا عامل کا ٹھکانہ ہوگا۔ جا بہ جا بھیانک انسانی کھوپڑیاں، ہڈیاں اور سفلی عمل کے لوازمات بکھرے ہوں گے اور ان سب کے بیچ کوئی میلے کچیلے جبے میں ایک غلیظ سے حلیے والا کوئی شخص بیٹھا جنتر منتر کر رہا ہوگا۔ ماں نے یہی سب بتایا تھا جادوگروں سے متعلق۔ مگر یہاں ؟”
اندر کچھ پرانے سے طرزکا کمپیوٹر رکھا تھا بلکہ ایک دیمک زدہ میز پر ٹکا تھا۔ سامنے ایک اُدھڑے فوم والی ٹیڑھی سی کرسی پڑی تھی۔ میز کے عین اوپر ایک پیلا بلب روشن تھا جو آس پاس پڑے کسی کباڑیے کی دکان سے اس کمرے کو روشنی بخش رہا تھا۔ سنی نے ترچھے ہو کر کمرے کے کونوں میں جھانکنا چاہا۔ وہاں دو شیشے کے بڑے بڑے ڈبے رکھے تھے جن کے شیشے میل اور گرد سے سرمئی ہو چکے تھے۔ ان سے ذرا فاصلے پر دو شیشے کے ڈبے تھا۔ان کے اوپر دھات کے کچھ ٹکڑے مختلف رنگوں کی تاروں سے جوڑے گئے تھے۔





”وہ ابھی ان آلات پر غور کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک شیشے کے ڈبے کے اندر کچھ حرکت محسوس ہوئی۔ سنی کا دل (یا دل کی جگہ جو کچھ بھی تھا) اچھل کر حلق میں آنے لگا، مگر ایک منٹ… اس نے اپنا سر کھڑکی سے چپکایا۔ یہ تو ماں تھی، شیشے کے اندر بند! تو کیا مرجان نے ماں کو بند کیا ہے؟”
اس نے گھبرا کر کاٹیج کا دروازہ ڈھونڈھا کہ اندر جا سکے۔ پھر خیال آنے پر ماتھے پر ہاتھ مارا اوردیوار کے پارچلتا ہو ا اندر پہنچ گیا۔ ماں کے ڈبے تک پہنچ کر اس نے شیشے پر ہاتھ مارنا چاہا تو کرنٹ کا ایک جھٹکا لگا۔ وہ دور ، کسی کے قدموں میں جا گرا۔ پشاوری چپل پہنے دو پیروں میں۔
”ام کو پتا تھا تم آسانی سے آجائے گی۔” ایک مردانہ آواز آئی۔ سنی ہڑبڑا کر سیدھا ہوا۔ یہ تو محمد خان تھا! چوکیدار کا بھانجا۔
”تم! تم نے میری ماں کو کیوں پکڑا ہے؟” سنی نے کچھ دکھ اور کچھ خوف سے لرزتی آواز میں پوچھا۔
”اور کیسے پکڑ لیا؟” اس نے بے بسی سے شیشے کی طرف دیکھا جہاں ماں اپنے دونوں ہاتھ شیشے سے جوڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہے نا؟ ” محمد خان نے پر جوش ہو کر کہا۔
”سب لوگ یہی سوچے گا نا ؟ ایک بھوندو سا چوکیدار اور جن پکڑ لیا وہ بھی کمپیوٹر کے ذریعے!”
محمد خان بچوں کی طرح خوش ہوتا ہو١ کمپیوٹر کے آگے پڑی کرسی پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھ گیا۔
”مگر… کیوں؟” سنی اچنبھے میں تھا۔
”تم جادوگر نہیں ہو۔” اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، جادو یا سفلی عمل کا کوئی سامان نہیں تھا۔
”پھرتم نے میری ماں کو کیوں پکڑا؟”
”اس لیے کہ… اس لیے کہ… ” محمد خان کا نچلا لب کپکپایا۔
”اس لیے کہ کوئی ام کو سیریئسلی لے۔” وہ چہرہ ہاتھوں پر گرا کر رو پڑا۔
سنی کو دکھ سا ہوا۔
”میں سمجھ سکتا ہوں کیا ہوتا ہے جب آپ اپنے جیسوں میں بھی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جب سب آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔” وہ اس کے برابر آلتی پالتی مار کر معلق ہو گیا۔اسے اپنے بھائی اور بھابھی کے سارے طنز اور تشنے یاد آنے لگے۔
”اوئے ماڑا تم واقعی سمجھتی ہے؟” آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے اس نے سنی کو دیکھا جو خود بھی غم کی تصویر بنا ہوا تھا۔
”نہیں تم کیسے سمجھے گی۔ تم تو جن ہے۔ تمارے پاس تو اتنا سارا طاقتیں ہے۔ ام کو دیکھو، سترہ سال اماری عمر ہے اور ام اتنا اچھا دماغ ہوتے ہوئے بھی چوکیدار ہی بن پایا۔ تم کو پتا ہے ام نے اپنا لیب کیسے بنایا؟” اس نے آس پاس کے کباڑ کو فخر سے دیکھا۔
”آآ…” سنی کہنا چاہتا تھا کہ اسے اس بات سے کوئی مطلب نہیں، مگر محمد خان کی پر امید نظروں کے آگے وہ کچھ کہہ نہ پایا۔
”دیکھو! یہ ہے نا… یہ ہے ناںیہ ای ایم ایپ ریکارڈر ہے۔ یہ تم جیسا لوگ قریب ہوتا ہے نا تو ایسا بجنا شروع کر دیتا ہے اور یہ ہے نایہ ڈبا۔ یہ امارا پیارا تھرموگرافک کیمرا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ کون سا بھوت کہاں کھڑا ہے، چاہے وہ آنکھوں سے نظر نہ آتا ہو۔ یہ ام کو صدر سے اتنا سستا مل گیا کہ ماڑا تماری سوچ ہے۔”اس نے پیلے رنگ کا ایک ہاتھ سے پکڑنے والا کیمرا دکھایا جس کی اسکرین پر ہلکے سے چٹخے رنگ برنگ عکس آرہے تھے۔
”اور یہ تو دیکھو!”وہ سنی کو دکھیلتا ہوا شیشے کے ڈبوں تک لایا۔
”یہ ام نے انٹرنیٹ سے دیکھ دیکھ کے خود بنایا ہے۔ یہ جن پکڑنے والا ڈبا۔ معلوم ہے کتنا مہنگا بیچتا ہے انگریز اس کو؟ بس شیشہ جوڑا، اس کے اندر موم بتی رکھا…اورجن آگیا اس کے اندر اور پھر یہ جو لگا ہے نا تار مار؟ اس سے الیکٹرو میگنیٹک پیلڈ بنتا ہے جس سے جن لوگ باہر نہیں نکل سکتا…. کیسا؟” اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کے داد طلب نظروں سے سنی کو دیکھا۔ سنی کے سر پر سے ساری بکواس گزر گئی تھی۔ سمجھ آیا تھا تو یہ کہ اسے کسی طرح اپنی ماں کو اس ڈبے سے نکالنا ہے اور دوسرے ڈبے میں بھی یقیناکوئی تھا۔ کیا چچا فراست؟
اب سوال یہ تھا کہ وہ کرے کیا؟ کیامحمد خان کو ڈرا ئے؟ مگر مجھ سے تو آج تک کوئی نہیں ڈرا… اس نے مایوس ہو کر سوچا۔ کیا کروں… کیا کروں..؟آئیڈیا!
”دیکھ میرے بھائی میں تمہارا درد سمجھ سکتاہوں۔ تم سترہ سال کے ہو اور میں ایک سو سترہ کا۔ تمہیں بھی کوئی کچھ نہیں سمجھتا اور مجھے بھی۔ پر میرے بھائی جو تم نے کیا وہ غلط ہے نا؟ کوئی تمہاری ماں کو اس طرح قید کر لے پھرتمہیں کیسا لگے گا؟” اس نے محمد خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے سمجھانا چاہا۔
”او ام اس کا خون کر دے گا!” پٹھان خون نے جوش مارا، وہ اس فر ضی مجرم کی طرف لپکا۔ سنی نے بہ مشکل اسے قابو کیا۔
”دیکھا! کیسا لگتا ہے صرف سوچ کر…!”اس نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگانی چاہی۔
”ایسے ہی یہ بھی میری ماں ہیں… ان کو چھوڑ دو، تم کوئی اور راستہ ڈھونڈھ لونا میرے پیارے لالہ!”
”او وہ تو ٹھیک ہے پر۔”محمد خان کے کندھے جھک گئے۔
”چلو ام خالہ جی کو چھوڑ بھی دیتا ہے۔ پر ام باقی دونوں کو نئیں چوڑے گا!”
”باقی دونوں؟” سنی کا ماتھا ٹھنکا۔
”چچا فراست اور؟”
”ہاں وہ بڈھا سا اور وہ جو پتلون والا لڑکی بن کے گھومتا تھا تمارے ساتھ۔ ہونہہ۔ چڑیل کہیں کا۔ اس نے ام کو بہت پریشان کیا۔”محمد خان نے خفا خفا سے لہجے میں کہا۔
”مرجان!” سنی پر جیسے اس بوسیدہ کاٹیج کی چھت گر گئی۔
”مگر مرجان تو انسان ہے۔ اسے کیوں؟” اب کے واقعی اس کا خون کھولا تھا۔
”وہ؟ انسان؟” محمد خان پیٹ پکڑ کر ہنسی سے دہرا ہوگیا۔
”وہ تو بہت اعلیٰ نسل کا جننی ہے۔ دماغ تواس کا ایسا چلتا ہے جیسے امارا یہ کمفیوٹر۔ نہیں یہ تو عام سا کمفیوٹر ہے… جیسے کوئی اچھا والا کمفیوٹر۔ پر تم کو کیسے نئیں پتا؟ تمارا تو دوستی موستی نئیں تھا؟
”مرجان… جن ہے؟” سنی محمد خان کی چھوڑی ہوئی کرسی پر دل پکڑ کر بیٹھ گیا۔
”نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو۔ میں کیسے مان لوں؟”
”اوپوہ! تم ام کو بھوندو تولگتا تھا پر اتنا نئیں!” محمد خان نے گہری سانس بھری۔
”یہ دیکھو کیمرا میں یہ انسانوں کو ریکارڈ نہیں کرے گا۔ ام نے اس کا سیٹنگ بدل دیا ہے۔ دیکھو ام دکھتا ہے ؟ نئیں ناں؟ اب اس گتے والے ڈبے کی طرف کرو۔” اس نے سنی کے ہاتھ میں تھرمل کیمرا پکڑایا۔
سنی نے کانپتے ہاتھوں سے کیمرے کارخ ڈبے کے طرف کیا۔اندر ایک سرخ سرخ سا ہیولہ نظر آیا تھا جو آلتی پالتی مارے چہرہ ہاتھوں پر گرائے یقینا ان کی باتیں سن رہا تھا۔
٭…٭…٭
جنات دہندہ
”یہ ام پے پروگرام کر کے ام کو پکڑوانا چاہتا تھا، اب دیکھو کیسا خودی پھنسا۔”
سنی کے دماغ میں پھر سے دھواں سا بھرنے لگا۔ اسے کیسے سمجھ نہ آیا کہ مرجان انسان نہیں؟
”اب تم کیا چاہتے ہو؟” وہ شکست خوردہ سے لہجے میں بولا۔
”ام پروگرام کرے گاخود پے! اور یو ٹیوب پر آکر بتائے گا کہ ام کیسا ذہین پٹھان ہے! پھر لوگ ام کو چوکیدار نئیں بولے گا، سر بولے گا سر! ام پڑھائے گا بھی!’ ‘ محمد خان مستقبل میں پہنچ چکا تھا۔
‘ ‘ ٹھہرو ٹھہرو! تمہیں مشہور ہونا ہے نا؟” سنی کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔”تو تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ مرجان سے بات کرو ، وہ تمہیں اپنے شو میں دکھائے گی۔ اس طرح تم زیادہ لوگوں کو نظر آؤ گے اور تمہاری بات کا وزن بھی بڑھے گا۔ ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ یو ٹیوب والوں کو انسان زیادہ سیریئسلی نہیں لیتے۔” وہ تیز تیز بول رہا تھا۔
”کبھی نہیں!” ڈبے میں سے مرجان کی دہاڑ سنائی دی۔” اس ڈبو کو تو میں باہر آکے بتاتی ہوں! مجھ سے ہاتھ کر گیا۔مجھے کہا کہ میں تمہارا ساتھ دوں گا جادوگر پکڑنے میں اور مجھے ہی پکڑ لیا۔ باہر نکال مجھے اگر ہمت ہے تو!” گتے کے ڈبے نے للکارا۔
”دیکھا ! دیکھا! یہ ایسے ہی ام کو ناموں سے بلاتا ہے!” محمد خان کا نچلا ہونٹ پھر کپکپایا۔ ”نئیں نکالے گا! کر لو جو کرنا ہے!” اس نے پیر پٹخا۔
”ارے اس کو چھوڑو ، وہ مان جائے گی (اللہ کرے) ، بس تم میری بات پر بھروسا کرو۔ دیکھو تم ایسا کرو چچا فراست کو رکھ لو، ان کو پکڑ کے دکھادو۔ اس عمر میں وہ بھی ٹی وی پر آجائیں گے، میری ماں اور مرجان کو چھوڑ دو۔”
محمد خان کو سوچ میں پڑتا دیکھ کر وہ چچا فراست کے ڈبے کی طرف بڑھا اور اونچی سی آواز لگا کر بولا۔ ”چچا فراست! ٹی وی اچھا لگتا ہے ناں تم کو؟ ”
”کس کی بیوی؟میری توکوئی بیوی نہیں!” چچا کی پوپلی آواز میں حیرت تھی۔”مجھے توانارکلی پسند تھی ، اسے دیوار میں سے نکال بھی لایا تھا میں، پر وہ مجھے چھوڑ کر اپنی مارکیٹ کھول کر بیٹھ گئی لاہور میں۔” چچا سنتے کم اور بولتے زیادہ تھے۔
”ارے چچا بیوی نہیں ٹی وی! وہ جو ڈبا سا نہیں تھا جس پر مرجان آتی ہے؟” سنی نے سمجھانا چاہا۔ ”اس پر آؤ گے؟”
”اچھا وہ…. ہاں چلو وہ شاید اس ڈبے سے کچھ بڑا ہوگا۔ ” چچا کی سمجھ میں کچھ کچھ آئی۔
”چچا سب لوگ تمہیں دیکھ سکیں گے۔ تھوڑی سی ادا کاری بھی کر نی ہوگی تم کو… ٹھیک ہے؟”
”کیا کہا اداکاری؟ ارے وہ تو میں بہت اچھی کرتا ہوں۔ دیکھا نہیں تھا کتنا اچھا ڈریکولا بنا تھا میں’زندہ لاش’ میں؟ کیا کمال فلم تھی وہ۔”
”بس تو پھر ٹھیک ہے نا؟” سنی نے ماتھے پر نہ آنے والا پسینہ پونچھا۔
”اچھا! پر ام کو پورا شو میں بلائے گا اور ام کو کچھ الٹا پلٹا بولا نا تو اچھا نئیں ہوگا!” محمد خان کے خدشات اپنی جگہ تھے۔
”ٹھیک ہے مرجان؟ سنی نے جھجکتے ہوئے آواز لگائی۔
”ٹھیک ہے۔” گتے کے ڈبے سے ایک غصیلی آوازابھری۔
٭…٭…٭
وہ خوف کا اک نیا سفر
”شو تو بہت اچھا گیا مرجان… واقعی تہلکہ مچ گیا، مگر تمہیں محمد خان کو ایک ہفتہ درخت سے نہیں لٹکانا چاہیے تھا۔” سنی نے کہا۔ وہ دونوں اس وقت منوڑہ کے قریب ایک لائٹ ہاؤس پر بیٹھے تھے۔
”کیوں نہیں چاہیے تھا؟” مرجان جو کنو کھا رہی تھی اس کے بیج تھوکتے ہوئے بولی۔
”اسے سبق سکھانا بہت ضروری تھا۔ اس نے مجھے دوستی کے نام پر دھوکا دیا تھا۔ یہ بات میں اسے وقتاً فوقتاً یاد دلاتی رہوں گی۔”
”کیا کرو گی تم اس کے ساتھ؟” سنی نے فکر مندی سے پوچھا۔
”کچھ خاص نہیں۔ بس کبھی کبھار اپنے اصل روپ میں ملنے جاتی رہوں گی اس سے۔” مرجان کی آنکھیں چمکیں۔
”تم اصل روپ میں آؤ نا مجھے … مجھے وہ پسند ہے۔” سنی نے شرماتے ہوئے کہا۔
مرجان نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا اور… دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جگہ ایک بکھرے لمبے بالوں ، زرد رنگت اور سرخ آنکھوں والی لڑکی بیٹھی تھی۔ سنی اپنا گال ہتھیلی پر ترچھا ٹکائے اسے آسودگی سے دیکھ رہا تھا۔
”تم پہلی دفعہ ہی ایسے میرے سامنے آتیں تو میں اتنا خوف زدہ نہ ہوتا۔” اس نے کہا۔
”ہمم! پہلی دفعہ تو نہیں مگر دوسری دفعہ ضرور آجاتی۔ اگر تمہاری ماں نے مجھے منع نہ کیا ہوتا۔” مرجان مسکرائی۔
”اور ماں سے یاد آیا اب وہ تمہیں ڈرپوک تو نہیں سمجھتیں نا؟ آخر تم نے انہیں قید سے چھڑایا۔ ”
”نہیں۔” سنی نے مزے لے کر کہا۔
”اور میرے بھائی نے بھی میری بہت تعریف کی۔ ”
”چلو اچھا ہے۔ تمہارے بھائی بھی تمہاری شادی پر خوشی سے شرکت کریں گے۔” مرجان نے اطمینان سے کہا اور سنی کا طمینان رخصت ہو گیا۔
”میری شا… شادی؟” سنی کی نظروں کے سامنے اپنے بھائی کی شادی شدہ زندگی گزر گئی۔
”کس سے؟”
”مجھ سے اور کس سے بدھو!” مرجان ہنستے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں تمہیں صرف تین چار دن ہی الٹا لٹکایا کروں گی۔”
اور سنی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ڈراؤنی کہانی تو اب شروع ہوئی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کنکر — عمیرہ احمد

Read Next

بل ہے کہ مانتا نہیں — سید محسن علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!