سنی کا خوف — نورالسعد

دوستی
سنی اپنی شاخ پر بیٹھا کپکپا رہا تھا۔
”کہا تھا…کہا تھا میں نے کہ باہر نہ نکلا کر…مگر تو! ” سامنے کی شاخ پر غصے سے پہلو بدلتی اس کی ماں کی گھن گھرج جاری تھی۔
”تیری ہڈی پسلی چبا جائیں گے یہ انسان پھر تجھے ماں کی نصیحت یاد آئے گی۔”
دو آنسو سنی کی آنکھوں سے ٹپکے۔ ماں کو بے اختیار ترس آیا۔ وہ اڑتی ہوئی اس کے پاس آبیٹھی اور نرمی سے اس کا تربوز سا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں سمایا۔
”میرے بچے ! تو ابھی بہت چھوٹا ہے۔ اک سو سولہ سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے؟ ابھی تجھے ان مٹی والوں کی کوئی سمجھ نہیں ۔یہ لوگ بڑے چالاک ہوتے ہیں، ہمیں قابو کر لیتے ہیں…”
”مگرماں تو تو کہتی ہے کہ بھابھی نے بھائی کو قابو کر لیا ہے؟” اس خوفزدہ حالت میں بھی سنی کا حافظہ مسلّم تھا۔
”ہاں تو کیا غلط کہتی ہوں؟ ” امی کا پارہ پھر ہائی ہو گیا۔
”چڑیل کہیں کی، میرے بیٹے کو لے کر الگ مسکن کر لیا اس نے۔ دہائیوں بعد شکل دیکھنا نصیب ہوتی ہے مجھے بیٹے کی۔ وہ یہاں ہوتا تو وہی تیری کوئی تربیت کر دیتا۔ مگر نہیں، وہ تجھے بھی اپنے جیسا زن مرید بنا دیتا۔” امی کے پاس ہر علاج کے لیے ایک بیماری ہوتی تھی۔
زن کے نام پر سنی کو پھر سے وہ عجیب لمبی سوکھی سی لڑکی یاد آگئی اور وہ ماں کے پلو میں چھپ گیا۔
”ائے ہئے پتا نہیں کس سِدھل پیری کا سایہ پڑ گیا میرے بھولے بچے پر۔ آ میں تجھ پر سے معوذتین کا دم کروں۔” انہوں نے ٹھنڈے پڑتے سنی کو سامنے کیا۔دم کے بعد و ہ بولیں۔
”اچھا سن! میں جب مغرب کے بعد نکلوں گی نا تو سارا حصار باندھ کررکھنا۔ بلکہ میں سامنے والے فراست بابا کو بھی بٹھا جاؤں گی۔ ویسے تواس عمر میں بڑے میاں کو کچھ نظر نہیں آتا پر ایک سے دو بھلے۔”
ماں کے پلو میں چھپے سنی نے دھیرے سے سر ہلا دیا۔
٭…٭…٭





وہ سارا دن مرجان نے پارک میں ٹہلتے ٹہلتے گزارا تھا۔ کبھی یہاں جاتی، کبھی وہاں۔ درختوں کا وہ جھنڈ بھی اس نے دریافت کر لیا تھا جوسات سال پہلے جائے حادثہ رہا تھا۔ یہاں چہل پہل نہ ہونے کی وجہ سے سی خاموشی چھائی ہوئی تھی یا شاید اسی پر اسرار خا موشی کی وجہ سے یہاں چہل پہل نہیں تھی۔ یہاں کافی گھنے درخت تھے، کچھ نیم کے، کچھ آم کے اورسب سے کنارے کھڑابرگد کا۔ مرجان کریکرز کھاتی ،گہری نظروں سے اس درخت کو دیکھتی رہی۔ مغرب کے بعد یہاں اکیلے کھڑے رہنامرجان کو ہی جچتا تھا۔
ادھر پیڑ پر سکڑے ہوئے سنی نے نیچے کھڑی لڑکی کو دیکھ لیا تھا۔ خوف سے اس کی آواز ہی گم ہوچکی تھی۔ماں جاتے جاتے فراست چچا کو سنی کے پاس بٹھا گئی تھی مگر وہ تو کب کے سو چکے تھے اور سنی کے لاکھ ہلانے پر بھی نہ اٹھے تھے۔
سنی چار و ناچار اس لڑکی کو دیکھے گیا۔ وہ ایک بہت دبلی ، بہت لمبی لڑکی تھی ۔ اس کے موٹے موٹے بال ایک پونی ٹیل میں بندھے تھے۔ اس کے کانوں سے باریک باریک سے تار نکل رہے تھے جو اس کی پوشاک میں کہیں گم ہو رہے تھے۔ سنی اکڑوں بیٹھا ، ٹانگیں سینے سے لگائے اسے دیکھے گیا۔ اس لڑکی نے جیب سے ایک مستطیل سی تختی نکالی جس سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ سنی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیا یہ لڑکی جادوگرنی ہے؟ دو باریک تار بھی اسی تختی سے منسلک تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس تختی کو سنی کے درخت کی جانب اٹھایا اور ‘کلک کلک’ کی آواز کے ساتھ سنی اندھا ہو گیا۔
اس کی آنکھوں کے آگے تاروں کی برأت ناچ گئی تھی۔وہ بے اختیار چیخ اٹھا۔ درخت پر پھدکتے اس نے چندھیائی آنکھوں کے ساتھ بس یہی دیکھا کہ وہ لڑکی مسکراتی ہوئی اپنی تختی پر انگلیوں سے کوئی منتر پڑھتی چلی گئی۔
٭…٭…٭
”کیا کہا، منتر پڑھتی ہوئی؟” سنی کی امی نے دل پکڑ لیا۔ سنی نے اثبات میں سر ہلایا۔
”یعنی وہ جادوگرنی ہے؟” سنی نے کندھے اچکائے۔
”یہ جادوگر یہاں بھی پہنچ گئے؟ صرف سو سال ہی ہوئے تھے یہاں رہتے ہوئے۔ اب پھر گھر بدلنا پڑے گا کیا؟” ماں کی فکریں ہی الگ تھیں۔
”مگر ماں!” سنی ہچکچاتے ہوئے بولا۔
”جیسا آپ نے جادوگروں کا بتایا تھا یہ ویسی تو نہیں تھی۔ یہ تو کافی…” ماں کے گھور کر دیکھنے پر وہ گڑبڑا گیا۔
”مطلب ڈراؤنی نہیں تھی۔”
”تم نہیں جانتے ان جیسوں کو۔” ماں پر سوچ انداز میں اڑتی ہوئی اوپری شاخ پر بیٹھ گئی۔ ”آج کل نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اس چکر میں آرہے ہیں۔ وہ ہمیں پریشان کرنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈھتے ہیں اور اسے ‘تھرل’ کہتے ہیں۔ ” ماں نے منہ بنا کر کہا۔
”تھرل؟ یہ کیا ہوتا ہے؟”
”خداجانے! مگرتم فکر نہ کرو… میں اس کا علاج کرتی ہوں۔” ماں کے لہجے میں عزم تھا۔
اگلے کچھ دن مرجان پارک نہیں آئی۔ ماں ساراسارا دن گھات لگائے بیٹھی رہتی مگر بے سود۔ چھٹے دن وہ آتی دکھائی دی۔ ماں نے اپنا حلیہ کچھ مزید بگاڑا اور چیل کی طرح اس کے سر پر سے اڑان بھرتی ہوئی گزر گئیں۔ مقصد اسے خوفزدہ کرنا تھا۔مرجان ایک لمحے کو چونکی پھر ‘انٹرسٹنگ ‘ کہتی ہوئی وہیں بیٹھ گئی۔
سنی کی ماں نے یہ منظر دیکھا تو حیران رہ گئی۔ یہ لڑکی میرے اس روپ سے بھی نہیں ڈری؟ آخر ماجرا کیا ہے؟ اور ماجرا دیکھنے وہ نیچے اتر آئی۔
مرجان زیرِ لب مسکراہٹ لیے اسے نیچے اترتا دیکھتی رہی ، پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔
اس کے کام کا وقت ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
سنی بے چینی سے اپنے درخت کے قریب اڑ رہا تھا۔ ماں کو اتنی دیر کیوں ہو گئی؟ کہیں وہ کسی خطرے میں تو نہیں پڑ گئیں؟ مگر وہ لڑکی اتنی خطرناک تو نہیں دکھتی تھی کہ اس کی ماں جیسی کو قابو کر سکے؟ مگر کیا معلوم؟ کچھ دیر اسی تذبذب میں رہنے کے بعد سنی سے رہا نہ گیا۔ وہ ماں کو ڈھونڈنے کے ارادے سے نکلنے ہی لگا تھا کہ ماں آتی دکھائی دی۔ سنی نے سکون کا سانس لیا۔ وہ خیریت سے تھی اور…اور خوش تھی؟ خوش کس بات پر؟ یہ اس کے لاکھ پوچھنے پر بھی ماں نے نہیں بتایا۔ بس یہ کہا کہ اس لڑکی کی طرف سے بے فکر ہو جائے، بلکہ اس سے میل ملاپ میں بھی کوئی حرج نہیں۔” یہ سن کر سنی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
وہ لڑکی یا تو کوئی بہت احمق انسان ہے جس سے کوئی خطرہ نہیں یا پھر وہ کوئی بہت بڑی جادوگرنی ہے۔ سنی سوچ کے رہ گیا۔
٭…٭…٭
دنیا
سنی کی محدود سمجھ اور غیر موجود تجربے سے ماں کا رویہ باہر تھا۔ پھر بھی وہ ماں کی دی ہوئی اس آزادی کے بارے میں پر جوش تھا۔ اسی لیے آج پورے استحقاق سے پارک کی اس بنچ پر بیٹھا تھا جو اس کی پسندیدہ تھی۔پارک رات میں ڈوبا ہوا تھا اور اکا دکا لوگ ہی گھوم رہے تھے اور وہ تھی کہ بغیر گھومے سیدھے اس تک آگئی تھی۔ سنی نے بنچ کی سیٹ دونوں ہاتھوں سے پکڑ لی۔دیدے پھاڑے وہ اسے دیکھتا رہا جو گہری نیلی جینز اور شرٹ کے ساتھ ہلکی نیلی جیکٹ پہنے اس کی طرف مسکراتے ہوئے آ رہی تھی۔
”نہیں! سنی خوفزدہ نہیں ہونا، خوفزدہ نہیں ہونا١۔ اچھا ہوجانا مگر پتا نہیں چلنے دینا۔ سنی کے دماغ میں بحث چھڑی تھی۔
”ہائے! کیسے ہو سنی؟ ” وہ بے تکلفی سے اس کے برابر بیٹھ گئی۔
”میں مرجان ہوں!” اس نے ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
سنی کے دانت بھنچے تھے۔ کوئی انسان اس کے اتنا قریب بیٹھا تھا۔ اس کے سر میں دھواں سا بھرنے لگا۔مرجان کا لمبا سا سفید ہاتھ اسے دھندلا سا دکھ رہا تھا۔
”ارے ہاتھ تو ملاؤ، کیا تمہارے یہاں ہاتھ نہیں ملایا جاتا؟” مرجان نے ہنس کے کہا، تو سنی کی غیرت جاگی۔ہاتھ فوکس میں آیا اور اس نے اپنے ہاتھ سے اسے تھام لیا۔ کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا۔ نہ ٹھنڈا نہ گرم، مناسب سا۔ مرجان البتہ کھل کے مسکرائی۔
”تو تمہارا نام سنی ہے ہاں؟” اس نے دلچسپی سے پوچھا۔ سنی نے ہاں میں گردن ہلائی۔
”مجھے بڑا مزہ آیا تم سے مل کر۔ سچی! مگر اس دن تم مجھے دیکھ کر بھاگ کیوں گئے تھے؟”
”میں … میں۔’ ‘ سنی سے کہا نہیں گیا۔
”تم مجھے دیکھ کر ڈر گئے تھے؟” مرجان نے ہمدردی سے پوچھا۔ یہ اور بات کہ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔سنی کے جسم سے ایک ناگواری کی لہر دوڑ گئی۔
”وہ میں سمجھا تھا کہ تم کوئی خطرہ ہو۔ جیسے… جیسے کچھ انسان ہوتے ہیں۔” اس نے بات بنائی۔
”کیسے ہوتے ہیں کچھ انسان؟” مرجان ٹھوڑی تلے مٹھی رکھے اس کی طرف گھوم گئی۔
”وہ… ہوتے ہیں نا، خبائث میں سے۔ چوٹ پہنچاتے ہیں ہمیں۔ نقصان پہنچاتے ہیں۔”
”انسان؟ میں نہیں مانتی۔ انسان اتنے خطرناک تو نہیں ہوتے؟ تم لوگ زیادہ خطرناک ہو شاید…” اس نے ناک پر سے مکھی اڑائی۔
”جی نہیں! ہوتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تمہارے والوں کے کچھ بچوں نے ہمارے گھر پر حملہ کر دیا تھا۔ ایک گولہ تاک کے مارا تھا، میری ناک ٹوٹ گئی تھی۔ ” سنی نے معاملہ کی سنگینی کااحساس دلانا چاہا۔ مگر یہ کیا، مرجان تو قہقہہ مار کے ہنس پڑی ۔
”ارے بدھو! وہ گولہ نہیں تھا، بال تھی جس سے کھیلا جاتا ہے اور وہ بچے بھی کھیل ہی رہے تھے۔ کھیلنے میں تو کھلاڑی کو بھی چوٹ لگ ہی جاتی ہے اور تم اتنی سی بات کو حملے کا نام دے رہے ہو۔”
اس بار سنی کو ناگواری محسوس نہ ہوئی۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔بچے کھیلتے ہی ہیں اور کھیل میں چوٹ بھی لگتی ہے۔ اس کے شیطان بھتیجے بھتیجیاں بھی تو غدر مچا کر رکھتے تھے۔ اسے اپنے بیوقوفی بھرے خوف پر خود ہی ہنسی آگئی۔ بس اتنی سی بات تھی؟
اس کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے اور وہ قدرے خود اعتمادی سے بیٹھ گیا۔مرجان بغور اس کا جائزہ لے رہی تھی جیسے اس کی ہر سوچ پڑھ رہی ہو۔اتنے میں قریب کی جھاڑیوں میں ہلچل سی ہوئی۔
”محمد خان!” مرجان یک دم سے چیخی اور اٹھ کر اسے کان سے پکڑے بر آمد کر لائی۔
”تم چھپ کر ہماری باتیں کیوں سن رہے تھے؟”
”او باجی معافی دے دیو… ام سن نہیں رہا تھا کام کر رہا تھا۔’ ‘ محمد خان منمناتا ہوا وضاحت دینے لگا۔
”جاؤ اور دوبارہ نظر آئے نا تو!” مرجان نے اسے دھمکی دی اور محمد خان سر پر پیر رکھ کر بھاگ گیا۔
”تو؟ اب تمہیں باہرگھومنے کی اجازت دے دی تمہاری ماں نے؟”واپس بیٹھتے ہوئے اس نے مسکراہٹ دباکر سنی سے پوچھا۔سنی نے بخوشی اپنا بڑا سا سر ہلایا۔
”تو چلو پھر!” وہ ایک دم اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
”ارے کہاں؟” سنی بوکھلا گیا۔
”چلو تو۔ تمہیں ‘دنیا’ دکھاؤں۔” وہ ہنستی ہوئی اسے گھسیٹنے لگی اور سنی کچھ ڈر اور کچھ جوش کے ساتھ اس کے ساتھ گھسٹتا گیا۔
مرجان اسے لیے جانے کس بازار میں آگئی تھی۔ تنگ گلیاں ایسا لگتا تھا تین اطراف میں دکانوں سے گھری تھیں۔ وہ ہکا بکا منہ کھولے مرجان کے پیچھے پیچھے چلتا جا رہاتھا۔ انسان اور اتنے انسان؟ اس واقعے سے پہلے بھی وہ گھر سے بہت ہی کم نکلا تھا ۔ نکلا بھی تھا تو چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے کچھ خاص یاد نہیں تھا۔ اب جو یوں بھانت بھانت کے انسان دیکھے،ان کی دنیا دیکھی تو وہ دنگ رہ گیا۔ کوئی کسی دکان یا پتھارے کی دوسری طرف کھڑا گاہک کو گھیر رہا تھا، کوئی دکان کے باہر کھڑا چیزیں کھنگال رہا تھا۔ کوئی مرجان کی طرح کانوں میں تار لٹکائے بلا وجہ مسکرا رہا تھاتو کوئی دنیا سے بیزار اپنی چمکتی ہوئی تختی جس کا نام مرجان نے ‘موبائل’ بتایا تھا پر انگلیاں پھیر رہا تھا۔ مرجان اس کے ساتھ اس کے آگے چلتی کمنٹری نشر کرتی جا رہی تھی۔ یہ یہ ہے، وہ وہ ہے،یہ اس لیے ہوتا ہے، وہ اس لیے ہوتا ہے اور سنی کو یوں معلوم ہوا کہ وہ دونوں بھی اس ہجوم کے لیے عجوبہ ہیں۔ اس نے کئی مردوں اور عورتوں کو اس جانب گھورتے ہوئے پایا۔ مرجان شاید اس سب کی عادی تھی اسی لیے مزے سے ہنستے بولتے چلتی جا رہی تھی۔
”یہ سب لوگ ہمیں ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟” سنی نے ابھی مرجان کے کان میں سرگوشی کی ہی تھی کہ سامنے چلتی مرجان اور اس کے ساتھ لگ لگ کر چلتی ایک عورت پر گردوغبار کا ایک بادل سا آگیا۔ سنی نے سر اٹھا کر دیکھا تو کسی دکان کی اوپر کی منزل کی کھڑکی کھلی تھی اور ایک عورت اپنا مٹی سے اٹا پائیدان بے نیازی سے گلی میں جھاڑ رہی تھی۔مرجان کے ساتھ چلتی عورت کو کھانسی کا دورہ سا پڑا اور وہ غصے سے سر اٹھا کر بک جھک کرنے لگی، جس کا جواب اوپر سے انہی جیسے الفاظ سے آیا۔ مرجان نے البتہ بس اپنا سر اور کپڑے جھاڑے اور اطمینان سے اس کی طرف مڑی۔
”یہ لوگ ہمیں اس لیے گھور رہے ہیں کہ تم شکل سے ان کے اٹھارہ بیس سال کے برابر کے بچے لگتے ہو، مگر ان سب کو ایسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ددیکھ رہے ہو جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہے ہو۔ ریلیکس رہو اور شکل پہ سے یہ ہراس کے تاثرات ہٹاؤ۔” اس نے گھرکا تو سنی نے حتی الامکان کمر سیدھی کی اور ذرا پر اعتماد نظر آنے کی کوشش کرنے لگا۔
اب رات گہری ہونے لگی تھی۔ وہ چلتے چلتے ایک ویران سے گوشے میں آ نکلے تھے۔ بازار کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ کوئی رہاشی علاقہ تھا مگر یہاں گھر بھی دور دور بنے ہوئے تھے۔ وہ مرجان سے اس کے متعلق جاننا چاہتا تھا۔
”میرے ماں باپ تو پتہ نہیں کون اور کہاں ہیں۔ایک خدا ترس اماں نے مجھے پالا۔ دنیا میں کیسے رہنا ہے، لوگوں سے کیسے نمٹنا ہے، سب انہوں نے مجھے گھول کر پلا دیا۔ پھر وہ بھی ایک دن ایسی باہر نکلیں کہ واپس نہ آئیں۔ مگر میں تب تک سمجھدار ہو چکی تھی۔اپنے آپ کو میں نے بآسانی سنبھال لیا۔” وہ ایک خالی پلاٹ کے پاس پڑے پتھر پر بیٹھ گئی۔اس کے پیچھے کسی عمارت کی بنیادوں کے لیے گہری کھدائی ہوئی تھی۔شاید کسی کمرشل پلازا کی بنیاد ڈل رہی تھی اس لیے خاصی گہری کھائی سی بنی ہوئی تھی۔
”تو اب تم کیا کرتی ہو؟” سنی بھی وہیں بیٹھ گیا۔
”میں؟” اس کی آنکھیں چمکیں۔
”میں انویسٹی گیٹو جرنلزم کرتی ہوں۔”
”اس میں کیا ہوتا ہے؟” سنی کو کچھ معلوم نہیں تھا پھر بھی وہ متاثر ہوگیا۔
”میں ریسرچ کرتی ہوں۔ کہیں کوئی جرم ہو، کہیں کوئی مشکوک معاملہ ہو تو میں اس کی جاسوسی کرتی ہوں۔ پھر اس کی رپورٹ بناتی ہوں اور ٹی وی پر اسے پیش کرتی ہوں۔”
”وہی ٹی وی جو تم نے مجھے دکھایا تھا؟ تم اس پر آتی ہو؟” سنی اب سچ میں متاثر ہوا۔
”ارے! کہیں اسی لیے تو لوگ تمہیں نہیں دیکھ رہے تھے کہ تم ٹی وی پر آتی ہو؟”
”ہو سکتا ہے۔” مرجان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”واہ!” وہ کیسے نہ متاثر ہوتا، کتنی بہادر تھی نا وہ؟
”مگر تم نے مجھ سے دوستی کیوں کی؟” یہ سوال اس کے ذہن میں کب سے کلبلا رہا تھا۔
”تم سے؟” مرجان نے ایک لمحہ سوچا۔
”تم مختلف ہو، تم معصوم ہو، مگر تم خود کو ابھی پہچانے نہیں ہو۔”
”خود کو پہچانے نہیں ہو؟ کیا مطلب؟ میںجانتا ہوں میں سنی ہوں۔” اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے حیرت سے کہا۔
”نہیں! تم سنی نہیں ہو۔ تم صیان ہو، حفاظت کرنے والا، نگہبان، پہریدار اور تم ہو کہ کسی ڈڈو کی طرح ڈرپوک بنے ہوئے ہو۔”
ہاں! یہ تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔ اس کے نام کا مطلب تو یہ تھا، پھر اسے اتنا بزدل تو نہیں ہونا چاہیے؟
”مگر میں کیا کروں؟ ” وہ منہ لٹکائے بولا۔
”سب سے پہلے تو اپنے آپ کو ‘ماما کا سَنی ‘سمجھنا بند کرو۔ اچھی خاصی عمر ہے تمہاری۔ اس عمر میں تو انسان پیدا ہو کر، زندگی گزا ر کر مر بھی چکے ہوتے ہیں۔ ” مرجان نے بے رحمی سے اس کا تیا پانچا کیا۔
”اوراندر کا خوف ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ….” وہ کھڑی ہوئی۔
”کسی اپنے کو بچانے کے لیے خطرے میں کود جاؤ۔”
”ہیں؟ وہ کیسے؟” مگر سنی کے الفاظ اس کے حلق میں ہی رہ گئے کیونکہ مرجان پیچھے موجود گڑھے میں کود چکی تھی۔
اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ہوا میں اڑااورخود بھی کھائی میں کود گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کنکر — عمیرہ احمد

Read Next

بل ہے کہ مانتا نہیں — سید محسن علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!