سعی

”تم غلط نہ تھیں، تم بالکل ٹھیک تھیں۔ تمہارا مطالبہ جائز تھا۔ تمہارا حق تھا کہ تمہیں امتحان میں بیٹھنے دیا جاتا۔ مشکل زیادہ تھی لیکن تم نے ہار جلدی مان لی، بہت جلدی۔ پر نسپل کا قصور چھوٹا تھا، تم نے اس سے بڑی غلطی کرڈالی۔ تم نے کیوں ہار مانی؟کیوں؟ اس سال نہ سہی۔ اگلے سا ل تو تمہارا داخلہ جاسکتا تھانا۔ تمہیں لڑنا چاہیے تھا۔ فائٹ کرنی چاہیے تھی۔ اس طرح سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے تھا۔ کیا ہوا؟ کس کو فرق پڑا؟ صرف اور صرف تمہارے گھر والوں کو… تمہیں… اور کسی کو بھی نہیں۔ تم نے کوشش کیوں ترک کردی؟ تم نے کیوں یہ پیغام دیا اپنے ساتھیوں کو…. اپنی آنے والی نسلوں کو کہ ”موت“ احتجاج کا بہترین طریقہ ہے۔ نہیں، احتجاج کا بہترین طریقہ مزاحمت ہے۔ لگاتار، مسلسل اور اَن تھک کوشش ہے۔ مجھے دیکھو۔ مجھے جاناں کاکڑ کو۔ جو آج ڈاکٹر جاناں کاکڑ ہے۔ میرے باپ نے مجھے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے نہیں دی۔ میں نے پرائیویٹ پڑھا اور اس کی اجازت بھی مجھے تین سال کی مسلسل کوشش اور محنت سے ملی اور پھر جیسے راستے کھلتے گئے۔ مجھے میری کوشش کا انعام بن کر وہ شخص ملا جو یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے۔ میرا شوہر ہے اور اسی کی بدولت میں آج ڈاکٹر جاناں کاکڑ ہوں۔ سنا تم نے…. ڈاکٹر جاناں کاکڑ“ وہ ہاتھ میں ڈگری لیے۔ اس کی قبر پر، اتنے سالوں بعد آئی تھی۔ خاموشی کی زبان میں بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس سے گفتگو کرتے ہوئے۔ وہ اسے بتارہی تھی کہ وہ ڈاکٹر جاناں کاکڑ ہے۔ اور یہ کہ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں اور یہ کہ وہ بزدل بھی نہیں۔ امید ایک کونپل کی مانند دل میں پھوٹتی ہے اور اُسے پروان چڑھانے والا کوئی اور نہیں صرف آپ کا یقین ہوتا ہے، پختہ یقین۔ اور بھلا کس پر،”اللہ پر“۔جاناں اب ہاتھ اٹھائے اس کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہی تھی۔
اگر کوشش کچھ نہ ہوتی تو اللہ کبھی اپنی مقدس کتاب میں یہ آیت نہ اتارتا۔
لیس للانسان الا ما سعیٰ (القرآن)“
٭٭٭٭

Loading

Read Previous

پتھر، پارس، ہیرا

Read Next

تماشا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!