سعی

”اللہ۔ میرے اللہ۔ معاف کردیں، معاف کردیں۔اللہ سن لیں۔ اللہ۔ اللہ۔ اللہ۔“
وہ چیخے جارہی تھی، روئے جارہی تھی۔ گھبراہٹ، خوف، ڈر، اندھیرا، گھٹن اور وہ ہانپتی تھی، روتی تھی چیختی تھی لیکن وہاں کوئی آواز نہ تھی، کوئی آنسو نہ تھے۔ وہ اندھی کھائی تھی، گہرا، سیاہ کنواں تھا۔ وہ اندھیرے کا مسکن تھا۔ سیاہی کا گھر۔
”اللہ“ اس کا وجود ہلتا تھا۔ لب کھلتے نہ تھے اور اس کی گونگی فریادیں تھیں،پکاریں تھیں۔
قریب تھا کہ یوں ہی تڑپتے ہوئے، پکارتے ہوئے وہ مرنے کے باوجود ایک بار پھر مرجاتی کہ اچانک….
٭٭٭٭

اس بند کمرے میں کیا ہوا؟ کیا ہوا کہ وہ یوں باہر آئی تھی۔ اس بند کمرے میں اس کی ہر امید لوٹ لی گئی تھی۔ اُسے مایوسی کے کلنک کا ٹیکا لگا کر نکالا گیا تھا۔ اس کے گلے میں اس کی مردہ خواہش کا طوق تھا اور آنکھوں سے نوخیز خوابوں کی جوت بجھاکر اسے اندھا کردیا گیا تھا۔ اتنی بڑی خواہش تو نہیں کی تھی اس نے۔ اتنی بڑی خواہش کا اظہار تو نہ کیا تھا۔ ایسی انہونی بات تو نہ کہہ ڈالی تھی کہ اس کے ساتھ ایسا…… سلوک کیا گیا تھا۔ وہ باپ کے پاس علم مانگنے گئی تھی اور گال پر اک دہکتا احساس لے کر واپس آئی تھی۔ اسے فرسٹ ایئر میں داخلہ لینا تھا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج مسلم باغ میں پڑھنا تھا اسے انٹر، BA، MA اور پھر Ph.D کرنی تھی۔ لیکن لیکن یہ کیا ہوا۔ وہ تو باپ کو دلائل سے قائل کرنے گئی تھی۔ منانے گئی تھی اور باپ….
وہ قبائلی آدمی… قبیلے کا سردار… رسم و رواج نافذ کرنے اور کروانے والا۔ تو اس کی بیٹی کیسے تعلیم حاصل کرتی یا کرپاتی۔ آج کالج میں داخلہ فارم داخل کروانے کی آخری تاریخ تھی اور وہ باپ سے منت کرنے گئی تھی لیکن ہوا کیا….؟
”قبیلے کے کسی بھی مرد کو میرے سامنے لے آئیں ابو! میرا ذہن، میری صلاحیت کسی مرد سے، کسی بھی طرح سے کم نہ ہوگی۔ کیا تعلیم حاصل کرنا فرض نہیں؟ کیا مذہب یہ نہیں کہتا ابو؟ کیا؟…. اور…. تڑاخ….“
اس کے جوشیلے جذبات بھری تقریر کو لفظو ں نے نہیں اک ہاتھ نے ٹھنڈا کیا تھا۔ اس کا چہرہ پیچھے کی جانب گھوم گیا۔ وہ چند لمحے اسی حالت میں کھڑی، اپنے اُبلتے بلکتے آنسوؤں کو روکتی رہی۔ ناک کے نتھنے پھڑپھڑاتے تھے اور لب نیم کپکپاتے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کرکے، لبوں کو سختی سے بھینچ کر، اک زہریلا گھونٹ حلق سے اتارا، چہرہ سیدھا کیا لیکن نظر نہ اٹھائی۔
”مجھے آگے پڑھنا ہے ابو!“ مؤدب لہجے میں پھر سے درخواست پیش کی۔ اور ابو، ان کا چہرہ لمحوں میں سرخ ہوا تھا۔
”جاناں۔ اب اگر ایسی کوئی بات بھی تم نے منہ سے نکالی تو تمہاری جان ختم کر دینا مشکل کام نہ ہوگا میرے لیے۔“ گرج دار لیکن ٹھنڈے لہجے میں اس سے کہا گیا تھا اور وہ جانتی تھی کہ واقعی ان کے لیے جان لینا چنداں مشکل نہ ہوگا۔
”ابو پلیز۔“ دونوں ہاتھ باندھے…. جھکی اور نظر جھکے سر سے اسی التجائیہ انداز میں درخواست کی گئی تھی۔
”تم….“ دانت پیس کر کہتے ہوئے انہوں نے اپنی پستول نکالی تھی کہ اسی لمحے ماں کسی بھوت کی طرح آن وارد ہوئی اور ماں نے اسے بچالیا۔ وہ الگ بات کہ کمرے سے باہر آتے ہی ایسی جرأت پر مور نے بھی اسی گال پر رکھ کر تھپڑ مارا اور غصے سے روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھیں۔
جاناں نے مڑکر بند دروازے کو دیکھا۔ لیکن اسے اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی لیکن راستے یوں گڈمڈ ہو رہے تھے کہ کمرے کی بہ جائے وہ لاؤنج میں آنکلی تھی۔ غائب دماغی سے وہ صوفے پر بیٹھی تھی اور نہ جانے کتنی دیر یوں ہی بیٹھی رہتی کہ اسے بی بی کی آواز نے چونکا دیا تھا۔ بی بی ان کی ملازمہ تھی اور وہ بولتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے کانوں کی لویں چھوتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی۔
”توبہ۔ توبہ خودکشی کرلیا۔ ظالم پرنسپل، خدا کی مار پڑے اسے۔ داخلہ نہ بھیجا بچی کا۔۔۔ بچی نے جان ہی لے لیا اپنی توبہ۔ توبہ کیسا ظلم ہے۔ چھے ماہ سے احتجاج کررہا تھا ثاقبہ۔۔۔“ وہ بول رہی تھی اور جاناں کو صرف اک ہی لفظ سمجھ میں آیا تھا۔ خودکشی… ”بی بی۔ کیوں کیا اس نے خودکشی؟“ اور جب وہ یہ سوال پوچھتی تھی تو آواز ٹوٹی ہوئی سی لگتی تھی۔ مدہم، کمزور، شکستہ تر۔
اور بی بی اس کے پیروں کے پاس، نیچے قالین پر بیٹھ کر اسے ساری داستان سنانے لگی تھی۔ اور بی بی جب جاناں کو یہ داستان سُنا رہی تھی تو بالکل نہیں جانتی تھی کہ کیسی چنگاری تھی جسے وہ ہوا دے رہی تھی۔ بی بی نہیں جانتی تھی کہ وہ کیسی چنگاری تھی جو بھڑک اٹھی تھی۔
٭٭٭٭

وہ تھی اور اس کی گونگی فریادیں۔ خشک آنسو، لرزتا ٹوٹتا مگر ساکت وجود، کہ اچانک… اچانک روشنی کسی لکیر کی مانند کسی روزن سے اس اندھیری، اندھی کھائی میں راستہ بناکر داخل ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں چندھیاسی گئی تھیں اور وہ بے ساختہ خاموش ہوئی تھی۔ روشنی لکیر سے بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھی کہ وہاں روشنی کا اک زبردست جھماکا ہوا تھا اور جہاں اس نے خود کو کھڑا پایا تھا، اب وہاں نہیں تھی۔ وہ اب مزید اس اندھیرے، اس خوف میں قید نہیں رہی تھی۔ وہ ہاتھ پاؤں ہلاسکتی تھی۔ حرکت کرسکتی تھی اور…. اور…..
اس نے ہونٹ کھولے۔ اک آواز نکالی اور ہاں! وہ بول سکتی تھی۔ مارے تشکر کے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر شکر ادا کرنا چاہا تھا لیکن۔ لیکن وہاں آسمان نہ تھا۔ ہر طرف، چاروں طرف، اوپر نیچے، روشنی ہی روشنی تھی یوں جیسے اس کے وجود کو سفید روشنی میں قید کرکے رکھ دیا گیا ہو۔ وہ شاید پھر سے خوفزدہ ہوجاتی کہ سماعتوں کو یک دم کسی آواز نے متوجہ کیا تھا۔ وہ چونک کر آواز کی سمت پلٹی تھی۔
وہ اب اپنے بچپن کو دیکھ رہی تھی اور آواز اس کے ٹیچر کی تھی۔
”جب ہم مرجائیں گے تو ہم سے تین سوال پوچھے جائیں گے۔“
”ہمارا رب کون؟“
”اللہ“اس نے بچپن کی جاناں کو جواب دیتے ہوئے سنا، وہ جیسے کسی کلاس روم کا منظر تھا۔
”تمہارا مذہب کیا؟“
”اسلام!“
”ہمارا نبی کون؟“
”محمد صلی اللہ علیہ وسلم“
جو شخص اچھا مسلمان ہوگا اور اس سے کوئی بھی کبیرہ گناہ سرزد نہ ہوا ہوگا۔ وہ ان سوالات کے جوابات دے سکے گا اور جو شخص…. ٹیچر سمجھا رہا تھا۔ اور اب وہ اس آواز کی نہ سنتی تھی کیوں کہ وہ سوچتی تھی کہ تھوڑی دیر پہلے…… تھوڑی دیر پہلے تک اس سے بھی یہ سوال پوچھے جاتے تو کیا وہ جواب دے پاتی؟ وہ کیسے جواب دے پاتی کہ اس سے کبیرہ گناہ سرزد ہوا تھا۔ اس نے اپنی جان لے لی تھی۔ اس نے خودکشی کی تھی۔ جاناں کاکڑ نے خودکشی کی تھی۔ قریب تھا کہ خوف زدہ ہوکر پھر سے وہ اسی کیفیت کا شکار ہوجاتی کہ ایک سوال۔ حیرت کے معنی اوڑھے اس کے ذہن کے دالانوں میں بھاگنے لگا تھا۔
”وہ اگر مرچکی تھی تو اس سے یہ تین سوال کیوں نہ پوچھے گئے؟
کیوں؟
٭٭٭٭

”جاناں۔ جاناں بچے۔ جاناں“
یہ اس کی ماں کی آواز تھی۔ جو اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے اسے پکاررہی تھیں۔ بی بی کی بات سُن کر فیصلہ کرنے میں اس نے محض ایک رات کا وقت لیا تھا۔۔۔ اور اگلی صبح وہ مرنے سے پہلے سب کے چہرے دیکھنے اور انہیں محسوس کرنے سے باہر آئی تھی۔ ورنہ تو وہ کل سے کمرے میں بند تھی۔ اور جب صوفے پر بیٹھی وہ لٹو کو دیکھ رہی تھی تو شدید ذہنی دباؤ اور کچھ نہ کھانے کی وجہ سے اسے چکر آئے تھے۔ ”جاناں۔“ ماں نے ایک بار پھر پکارا۔ آواز اب کہ کہیں قریب سے آئی تھی۔ اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور اک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے شدید حیرت سے ماں کا چہرہ دیکھا، ارد گرد دیکھا۔ اپنے وجود پہ ہاتھ پھیر کر خود کو محسوس کیا۔ اس کمرے کو دیکھا تو وہ… وہ زندہ تھی؟؟؟ وہ اک ہسپتال کا کمرہ تھا۔ ”مور“ وہ تڑپ کر ماں کے گلے لگی تھی۔
تو وہ سب خواب تھا… اس نے خود….
اور وہ ماں کے گلے سے الگ ہوئی۔ اپنے دائیں ہاتھ کو دیکھا جو خالی تھا۔ پھر ماں کو دیکھا اور جب وہ ماں کو دیکھتی تھی تو نظریں سوال کرتی تھیں۔
”تم بے ہوش ہوگئی تھی جاناں اور جو گولیاں تمہارے ہاتھ میں تھیں وہ نیچے گرگئی تھیں۔ میں نے انہیں پھنکوادیا۔ کیوں مارنے لگی تھی خود کو؟ کیوں جاناں؟ ماں کا ذرا سا بھی نہ سوچا۔“ اس کی ماں روتے ہوئے اس سے سوال کررہی تھی۔ رو تو وہ بھی رہی تھی لیکن یہ روناپچھتاوے کا اظہار نہ تھا۔ یہ شکر کا اظہار تھا۔ اسے بچالیا گیا تھا۔ اسے مار کر پھر سے زندہ کردیا گیا تھا۔ ایک کبیرہ گناہ اس سے دور کردیا گیا تھا۔ اور یہ آنسو شکر انے کے اظہار کا بہترین ذریعہتھے۔
٭٭٭٭

Loading

Read Previous

پتھر، پارس، ہیرا

Read Next

تماشا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!