سعی

نامعلوم کائنات کی کس جگہ، کسی سنگھاسن پر وہ براجمان تھی کہ سب ہوتا دیکھ سکتی تھی۔ یوں جیسے کوئی خاص طاقت اسے بخش دی گئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں نے چیختے ہوئے اسے سیدھا کیا تھا۔ اس کے منہ سے جھاگ بہ رہی تھی اور وہ آخری سانسیں بس پوری کرچکی تھی۔ چند ہی لمحوں میں اس کا باپ بھی وہاں آگیا تھا۔ اسے اب گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے جایا جارہا تھا۔ اسے اب اپنی تکلیف نہیں رُلارہی تھی۔ اسے اب اپنا ماں کی تکلیف رُلارہی تھی۔ وہ کس طرح بلکی تھی کس طرح روئی تھی،کرلائی تھی۔۔۔۔اس کا بھائی۔ کیسے وہ آپی آپی کرکے اسے پکار رہا تھا اور جب وہ اسے یوں پکار تا تو اس کا دل اس پکار پر پھٹتا تھا۔ اس کے اختیار میں ہوتا تو لمحوں میں اُٹھ کر اسے گلے سے لگالیتی۔ اسے یوں تکلیف سے پکارنے ہی نہ دیتی۔ وہ کرتی تو کرتی کیا آخر؟ پوری طاقت لگادینے کے باوجود، ساری قوتیں جمع کرکے زور لگادینے کے باوجود وہ اٹھ نہ پائی تھی۔ اس کا جسم یوں تھا کہ جیسے اینٹھ گیا ہو۔ لوہے کی طرح سخت…. اور جب اس پر یہ انکشاف ہوا تو اس کا دل دھک کے رہ گیا تھا۔ دور سے آتی رونے،کرلا نے کی آوازیں۔ اسٹریچر کے ٹائروں کی گھسٹنے کی آواز…. چند لوگوں کے دوڑتے بھاگتے قدموں کی آوازیں اور اس کا اندھیرے میں ڈوبتا، تیرتا وجود۔ معلوم نہیں کہ وہ کہاں تھی؟ کیا یہ آسماں تھا یا کہ خلا یا پھر شاید زیر زمین کوئی جگہ۔ وہ کیا تھا؟
٭٭٭٭

”مور!آخر آپ بات کیوں نہیں کرتیں۔ داخلے کی تاریخ نکل جائے گی۔ کچھ کریں نا مور.. خدا کے لیے… میں…. میں مرجاؤں گی۔“ وہ شدید پریشان تھی اتنی کہ وہ واقعی جاں بلب دکھائی دیتی تھی۔
”جاناں تم جانتی ہو یہ ممکن نہیں میں نے بات کی تھی لیکن۔“
”کیا۔ کیا ممکن نہیں مور۔ کیا؟ میں نے اتنے سال محنت کی۔ قطرہ قطرہ کرکے میں دریا بھرا اور اب۔ اب آپ کہتی ہیں یہ ممکن نہیں؟“ غصہ تھا، شاک تھا اور بے چینی بھی۔ وہ نم مگر دہکتے گالوں کے ساتھ، سلگتے لہجے میں بات کرتی تھی۔ ”جاناں!…..“ اور مور کے لہجے میں بے چارگی تھی۔
”مجھے….. مجھے خدا نے وہ ذہن دیا مور! جو قلعہ سیف اللہ کی کسی لڑکی، کسی بیٹی کے پاس نہیں اور اسے۔ اسے میں ضائع کردوں؟ کیسے؟ کیسے مور! ایسا مت کریں۔ میرے ساتھ یوں تو نہ کریں۔۔۔“اس کی ماں اس کے یوں بلکنے پر چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔ بے بسی کے ساتھ کہ وہ کچھ بھی نہ کرسکتی تھی۔ وہ قبائلی علاقے کی عورت تھی۔ بے بس اور مجبور۔
جاناں ان کی گود میں سر رکھے بلک رہی تھی اور وہ کیسی مجبور تھیں کاش کہ کوئی جانتا… جان پاتا۔ انہوں نے اک جھٹکے سے جاناں کا سر اٹھایا۔ سختی سے اس کے چہرے کو ہاتھوں میں پکڑا۔ ”چپ…. چپ جاناں۔“ یوں سختی سے اسے ڈپٹتے ہوئے آواز کانپتی تھی اور آنسوؤں کا نمکین پانی گلے کو کاٹتا تھا۔
”جو تمہاری قسمت میں تھا تمہیں مل گیا۔ اب اس سے زیادہ اور نہیں مل سکتا۔ اس پر صبر کرلو۔ جتنا ماتم کرنا ہے کرو اور اسی پر صبرو کرو۔“ اور پھر جھٹکے سے اسے پرے کرتے ہوئے وہ اٹھ کر چلی گئی تھیں اور جاناں…. وہ خاموش ضرور ہوگئی تھی لیکن نجانے کیوں اس کی خاموشی۔ خاموشی کم سکتہ زیادہ لگتا تھا۔ ”مور“ چند لمحوں بعد وہ دل خراش لہجے میں چلائی تھی:
”ایسا مت کریں۔ ایسا مت کریں۔“
ایک بیٹی کمرے میں بلکتی تھی اور اک ماں دیوار کے ساتھ لگی گھٹتی چلی جاتی تھی۔ وہ اپنے خشک آنسوؤں کو گیلا ہونے سے روکتی تھی اور آواز کا گلا گھونٹ کر روتی تھی۔

٭٭٭٭
وہ مررہی تھی؟ مرچکی تھی یا کہ پھر دونوں کیفیات کے درمیان کہیں معلق تھی۔ یہ….. یہ اندھیرا کیسا… گھٹن کیوں؟ سانس کہاں تھا؟ کہاں؟…. ”کوئی ہے؟“ اس نے چلانا چاہا مگر آواز… ہونٹ ہلے لیکن آواز نہ نکل سکی تھی۔ گھبراہٹ کچھ اور بڑھی۔۔۔۔
”کوئی ہے؟“ ”پانی“ اس نے زور لگاکر کہنا چاہا لیکن وہ ایک بار پھر سے ناکام رہی تھی۔ اندھیرا یوں جیسے ناک کے نتھنوں میں گھس کر سانس بند کررہا تھا۔ وہ کسی تنگ و تاریک جگہ پر تھی۔
اس نے ہاتھ پاؤں مارکر باہر نکلنا چاہا۔ لیکن ایک دفعہ پھر سے اس پر ہول ناک انکشاف ہوا کہ وہ اپنے جسم کو ہلانے پر قادر نہ تھی۔ گھبراہٹ اتنی تھی کہ لفظ اسے بیان نہیں کرسکتے تھے۔
”یا اللہ“ وہ اب کہ گونگی آواز میں چلائی۔
”اللہ… میرے اللہ…“ ہانپتے کانپتے، لرزتے ہونٹوں محض ہلتے تھے۔ لفظ ابھرتے نہ تھے۔
”اللہ مجھے معاف کردیں… مم“‘ اور وہ یک دم ٹھٹھک کر ساکت ہوئی تھی۔ وہ کس گناہ کی معافی مانگ رہی تھی، کس گناہ کی؟ اور جب اسے معلوم ہوا کہ اس نے کس لیے معافی مانگی تو پچھلا ہر احساس جیسے مٹ گیا تھا۔ اک خون آشام خوف نے اس کے دل کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ لرزنے لگی تھی۔ کانپنے لگی تھی اتنا کہ اس کی ہڈیاں تک لرز اٹھیں۔ وہ اپنے پورے وجود پر لرزہ طاری ہوتے محسوس کرسکتی تھی۔ ”تو اللہ اب اس کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا تھا کیا؟؟؟“
٭٭٭٭

”آج داخلے کی آخری تاریخ تھی اور اسے ہر حال میں داخلہ جمع کروانا تھا…. سنا آپ نے…. ہر حال میں۔“
وہ کچھ نہ کرسکتی تھیں۔ اس نے دیکھ لیا تھا۔ جان لیا تھا۔ جاناں چند لمحے اضطراری انداز میں اپنے ناخن کترتی رہی اور پھر اک فیصلہ کن انداز میں اٹھی اور میزپر پڑی چادر اٹھائی۔ اسے لپیٹتے ہوئے وہ مصمم ارادے سے دروازے کی طرف بڑھی لیکن دروازے تک پہنچتے ہی حوصلہ جیسے اک دم ہی جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کرکے ایک گہرا سانس لیا۔ حلق سے نیچے کچھ اتارا اور خود کو پرسکون کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکلی۔ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکن کچھ اور تیز ہوجاتی تھی۔ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ بجلی کی اک نئی لہر اس کے پورے بدن میں اُٹھتی تھی۔ ماتھے پر پسینے کے قطروں میں چند اور قطروں کا اضافہ ہوجاتا تھا۔ بدن سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوتی اور وہ بار بار خود کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں بے حال نظر آتی تھی۔ اور پھر…. پھر وہ یک دم ان کے دروازے کے باہر جاکر ساکت ہوگئی تھی۔ ہمت پھر سے کئی ٹکروں میں ٹوٹ کر بکھری تھی۔ وہ بے اختیار چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپاکر گھٹے گھٹے سے انداز میں رو پڑی۔ چند لمحے یوں ہی گھٹ گھٹ کر رونے کے بعد، اس نے کانپتے ہاتھوں اور اک عزم سے چہرہ چادر سے رگڑ کر صاف کیا۔ جب جب وہ چہرہ صاف کرتی تو مزید آنسو گالوں پر لڑھک آتے تھے۔ چند لمحے صرف کئے تھے اس نے خود پر قابو پانے پر…. ڈر اپنی انتہا پہ تھا لیکن وہ کوشش ترک نہیں کرسکتی تھی۔ وہ آخری حد تک جانا چاہتی تھی۔ اپنی ہر طاقت آزمادینا چاہتی تھی اور حوصلہ لڑادینا چاہتی تھی۔ کچھ لمبے اور گہرے گہرے سانس بھرے اور پھر سانس کو اک پھونک کی مانند خارج کرتے ہوئے اس نے گھبراہٹ دور کرنا چاہی جو ظاہر ہے نہیں ہوسکی تھی۔ اس نے دستک دینے کے لیے ہاتھ اٹھایا…. ہاتھ کچھ وقت کے لیے فضا میں معلق ہوکر ساکت رہا اور پھر….
آنکھیں زور سے بند کیے اس نے دروازے پر دستک دے ہی دی کہ کیا پتا یہ دستک اس کے مستقبل کے بند دروازے کو ہی کھول دے۔ کیا پتا؟؟؟
٭٭٭٭

Loading

Read Previous

پتھر، پارس، ہیرا

Read Next

تماشا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!