سائبان — محمد عمر حبیب

’’صاحب میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ میں گاڑی لے کر گزر رہا تھا کہ دیکھا ایک ریڑھی سڑک پر آئی ہوئی ہے۔ میں اتر کے آیا اور پیار سے اسے سمجھایا کہ ریڑھی پیچھے کر لو۔ اگر کوئی اس حد سے گاڑی آگے لائے تو سزا ہوتی ہے۔ اس نے میری بات نہ سنی۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا باپ کہاں ہے۔ اس کے خلاف تو چائلڈ لیبر کے تحت مقدمہ بنتا ہے۔اس پر بھی یہ چپ رہا۔میں اسے پکڑ کر تھانے لانے لگا تو بس یہ ہتھے سے اکھڑ گیا، میرے اوپر فروٹ اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگا۔ساتھ والے ٹھیلے کا مالک مجھے بچانے آیا تو اس کو ٹھوکر لگی اور ریڑھی الٹ گئی۔ اب یہ مجھ پر الزام عائد کر رہاہے۔مجھے تو دماغی طور پر معذور لگتا ہے۔ اس کا قصور نہیں ہے، اس کے باپ نے ہی اسے یہ کہانی ازبر کروائی ہے۔ــ‘‘ ایس ایچ او کی بات سننے کے بعد اے سی نے بازار کے دیگرخوانچہ فروشوں کو طلب کیا۔ کچھ تو مکر گئے کہ ہم نے دیکھا ہی نہیں جب کہ کچھ پہلے ہی ایس ایچ او سے ملے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایس ایچ او کی ہاں میں ہاں ملائی۔ نوید کے باپ پر چائلڈ لیبر کے قانون کے تحت بھاری جرمانہ ہوا اور بُری طرح رسوا ہو کر وہ واپس آئے۔ جرمانہ بھرنے کے لئے نوید کی ماں کو اپنا زیور بیچنا پڑا۔اس رات اس کی ماں اس پر بہت برسی۔ اس کو طرح طرح کے طعنے دئیے اور جوش ہی جوش میں حقیقت بتلا بیٹھی۔





’’تم ہماری اولا د نہیں۔ عارف اور میری شادی کے پانچ برس بعد بھی ہماری اولاد نہ ہوئی تو ہم نے تمہیں ایدھی سنٹر سے لیا تھا۔تمہارے بھائی اس کے بعد پیدا ہوئے ۔ ہمارے اس احسان کا تم نے یہ صلہ دیا؟ یہ صلہ؟‘‘ وہ جوش میں بولتی چلی گئی۔
’’تمہارا تو کوئی باپ ہی نہیں تھا۔ ہم نے تمہارے باپ کے خانے کو پر کیا۔ تمہیں تو کوئی جھولے میں ڈال گیا تھا اپنا داغِ ندامت مٹانے کے لئے۔ہم نے تمہیں اپنی جھولی میںلیا۔ لیکن اب ــنکل جاؤ ہمارے گھر سے۔‘‘وہ اپنے کمرے میں گیا۔ کیایہ وہ عورت تھی جسے وہ اپنی ماں سمجھتا تھا؟ چیختی ہوئے کمرے میں آ موجود ہوئی۔
’’تمہاری نحوست کب ختم ہو گی ہمارے سر سے؟‘‘
’’میں ابھی جا رہا ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں آنسوئوں کی نمی تھی۔ وہ الماری میں سے کچھ نکالنے لگا۔
’’کوئی ضرورت نہیں کپڑے اٹھانے کی۔خود خرید کر پہننا۔ ہماری دولت پر خوب عیش کر لیا تم نے۔‘‘
’’میں کپڑے نہیں بس یہ ڈائری لینے آیا تھا۔‘‘ اس نے رنجیدہ سی آواز میں کہا اور اے سی کی تصاویر والی ڈائری اٹھانے کے بعد گھر کے دروازے سے باہر نکل آیا۔ باپ بھی خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا، کسی نے اسے نہ روکا۔ اس نے باہر آ کر اے سی کی تمام تصاویر جلا دیں۔ اسے اے سی سے ٹھنڈک نہیں ملی تھی۔ اے سی نے اسے جھلسا دیا تھا اور اب وہ اے سی کو جلا رہا تھا۔ کبھی کبھار بدلہ ایسے بھی لیا جاتا ہے۔
٭٭٭
وہ سوال مستقل پتے کے متعلق تھا۔ اس سے اس کا مستقل پتا پوچھا جا رہا تھا مگر وہ کیا بتاتا؟اس کا مستقل پتا تو کوئی تھا ہی نہیں۔ اس کی ماں تو اسے ایدھی سنٹر چھوڑ آئی تھی۔ پھر اسے عارف بیٹا بنا کے گھر لے آیا مگر اپنے بیٹے پیدا ہونے پر اس کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ وہ ایک بار پھر لاچار ہو گیا۔ گیارہ سال کی عمر میں اسے اور تو کچھ نہ سوجھا اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے عارف رضا نے اسے لیا تھا۔
جی ہاں ایدھی سنٹر!کیوںکہ یہی ایک جگہ تھی، جس سے وہ واقف تھا۔ وہاں ایک بار پھر اسے داخل کر لیا گیا۔ اسے کپڑے سینا سکھایا گیا اور وہ ایک درزی بن گیا۔ آج وہ ایک درزی کی دکان میں کاری گر کے طور پر کام کرتا ہے اور ایدھی کو دعا دیتا ہے جس نے اسے ہر لمحہ سہارا دیا۔
وہ پتا بتاتے ہوئے اسی وجہ سے رُکا تھا کہ اس کے منہ سے عارف رضا کے گھر کا پتا نکلنے لگا تھا۔ وہ گھر جہاں سے اسے کئی سال پہلے نکال دیا گیا تھا۔ ہاں وہی گھر جو اس کا کبھی تھا ہی نہیں۔ تو پھر اس کا گھر کون سا تھا؟ایدھی سینٹر؟ تو کیا وہ ایدھی سینٹر کا نام لکھوا دے مگر جب اس کے کوائف کی تصدیق ہونے لگے گی تو اس کے پتے پر اعتراض عائد نہ کر دیا جائے۔ یہ سوچ ذہن میں آتے ہی اسے ایسے لگا کہ گویا سب لوگ اس کی سوچ پر ہنس رہے ہوں۔ اسے قہقہے سنائی دینے لگے۔ لوگوں کے زوردار قہقہے، جو اس کے حواسِ خمسہ کو نا کارہ کیے چلے جارہے تھے۔ وہ بولنے کی ہمت کھو چکا تھا۔ بولنا چاہتا بھی تو اسے پتا نہیں تھا کہ کیا بولنا ہے۔ پتا نہیں اس سے پہلے وہ والد کے نام والے خانے میں بھی ایدھی کا نام لکھوانے کی ہمت کہاں سے لایا تھا، جو اب پتا لکھواتے ہوئے مفقود ہو چکی تھی۔ آخر جب کاؤنٹر کے پیچھے سے تیسری دفعہ سوال دُہرایا گیاتو اس نے حواس مجتمع کیے، اور کرسی کو چھوڑ کر تن کے کھڑا ہو گیااور پھر وہ روانی کے ساتھ ایدھی سنٹر کا پتا لکھوانے لگا۔
کلرک کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’کیا آپ واقعی عبدالستار ایدھی کے فرزند ہیں؟‘‘ اس نے سوال کیا، اس کے لہجے میں احترام اور محبت عود کر آئی تھی۔
’’ہاں۔‘‘ اس کے لہجے میں چٹانوں کی سی مضبوطی تھی۔
’’کیا آپ کے والد کے نام کے ساتھ مرحوم لکھ دوں؟‘‘
’’نہیں ایدھی مرتا نہیں۔ وہ زندہ ہے مجھ جیسے ان لاکھوں نوجوانوں کی صورت میں جنہیں معاشرہ بنا کسی جرم کے مار دیتا تھا۔ مگر ایدھی بچوں پر یہ ظلم برداشت نہ کر سکا اور وہ ان بچوں کا سائباں بن گیا۔ اس نے ان بچوں کو نئی زندگی دی۔ ایک شناخت دی۔ وہ باپ سے بڑھ کر تھا۔ وہ انسان نہیں فرشتہ تھا۔ اور فرشتے مرتے نہیں۔‘‘
اس کے آخری الفاظ پر جذباتی ہو کر وہ پست قد کلرک بھی اٹھ کھڑا ہوا اور ایدھی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جھک سا گیا۔ اور پھر اسے ایسا لگا کہ ساری انسانیت ایدھی کے سامنے احترام کے طور پر جھکی ہوئی ہے یا پھر اس کے احسان تلے دبی ہوئی ہے۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

خسارہ — تشمیم قریشی

Read Next

دل تو بچہ ہے جی — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!