سائبان — محمد عمر حبیب

نوید کو بچپن ہی سے اے سی دیکھنے کا بہت شوق تھا جب کہ اس کی دادی کو حج کرنے کا جنون تھا۔دیکھا جائے تو اس کا شوق دادی کے شوق پر سبقت لے گیا، کیوںکہ اس کی دادی نے دس سال میں جتنے پیسے حج کے لئے گولک میں جمع کئے تھے، تین سالوں میں ہی نوید کے پاس ان سے زائد تعداد میں اے سی کی تصاویر جمع ہو چکی تھیں۔اس نے کہاں کہاں سے یہ تصاویر جمع نہ کی تھیں؟ اس کا باپ پھل فروش تھا۔روزانہ صبح جب ریڑھی پر پھل رکھنے کے لئے پھلوں کی پیٹیاں یا ٹوکریاں کھولی جاتیں، اس کی نظر اخبار کے اشتہارات پر ہوتی تھی۔ گندے نالے کے آس پاس اور کچرے میں بھی وہ اے سی کی تصاویر ہی ڈھونڈتا رہتا۔ اس نے پہلی جماعت کی اردو کی کتاب میں اے سی کے متعلق پڑھا تھا اور تب ہی سے تجسس کا شکار تھا۔چھوٹے سے گھر میںماں باپ کے علاوہ اس کے دو چھوٹے بھائی اور ایک دادی بھی رہتی تھی۔ اتنے بڑے کنبے کی پرورش صرف اس کا باپ کر رہا تھااور وہ سبزی کی ریڑھی سے صرف اتنا کما پاتا کہ گزر اوقات ہو جاتا۔ اسے اپنے بیٹے کے شوق کا تو علم تھا مگر وہ یہ بھی جانتا تھاکہ یہ دیوانے کی بڑ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کہاں ایک پس ماندہ گاؤں کا غریب گھرانہ اور کہاں اے سی۔
’’تم پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنو گے تو تمہیں سرکار اے سی والا دفتر دے گی۔‘‘ نویدکے ماسٹر کو جب اس خواہش کا پتا چلا تو انہوں نے اسے نصیحت کی۔ اس دن کے بعد وہ دل لگا کے پڑھنے لگا کہ پڑھ لکھ کر بڑا افسربنوں گا۔ مگر اس بات کو چند ہی دن ہوئے تھے کہ اس کے ابا نے اس کا سکول چھڑوا دیا۔ اس کی عمر ہی کیا تھی؟ محض گیارہ سال۔
’’آج کے بعدتم سکول نہیں جاؤ گے۔بلکہ میرے ساتھ ٹھیلے پر پھل بیچا کرو گے۔ــ‘‘ باپ کی یہ بات سُن کو وہ بھونچکا رہ گیا، اس کا خواب کرچی کرچی ہو کر بکھر رہا تھااوروہ چپ تھا۔ وہ تو بول بھی نہیں سکتا تھا۔ جب بھی وہ اپنے باپ کے سامنے بولا اسے بہت بُری طرح ڈانٹ پڑی، بعض اوقات تو اس کا باپ مارنے پر بھی اُتر آتا۔ جب کہ اس کے برعکس اس کے دونوں چھوٹے بھائیوں سے باپ کا رویہ بہت اچھا ہوتا تھا۔کچھ ایسا ہی رویہ ماں کا بھی تھا مگر وہ چپ چاپ برداشت کرتا رہا۔صرف ایک دادی تھی جو اسے بے تحاشا پیار کرتی تھی۔





’’ہو سکتا ہے کہ تم سوتیلے ہو۔‘‘ اس نے جب ایک گہرے دوست کے سامنے اپنے دُکھ کی پوٹلی کھولی تو اسے یہ جواب سننے کو ملا۔وہ یہ احمقانہ خیال سننے کے بعد ہنس دیا۔ دوست بھی چپ کر گیا۔ ماں باپ کے اس امتیازی رویے کی اور کیا توجیہہ ہو سکتی تھی؟ اتنی کم عمری میں وہ روزانہ ریڑھی لگاتا اور سردی و گرمی کا عذاب برداشت کرتا مگر اس کے باوجود بھی وہ پرانا شوق نہیں بھولا۔ آج بھی وہ اسی جوش و خروش سے روز اپنی ڈائری کھولتااور بلاناغہ اس میں کچھ مزید تصاویر کا اضافہ کرتا رہتا۔پھر شہر میں اے سی بس سروس چلی۔ چوں کہ نئی سروس چلی تھی ، اس لیے تعارف کی غرض سے کمپنی نے رعایتی کرایہ نامہ جاری کیا تھا۔ عید کے موقع پر جب سارا گھرانہ نانی کے گھر جا رہا تھا، اس نے باپ کے سامنے اے سی بس کے ذریعے سفر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
’’اے سی بس اور ویگن کے کرائے میں دس روپے کا فرق ہے۔اگر تم وہ دس روپے واپس کر دو جومیں نے تمہیں عیدی میں دیئے ہیں، تو ہم بس میں چلتے ہیں۔‘‘ اس نے ہنسی خوشی عیدی باپ کے حوالے کر دی۔مگر جب وہ اڈّے پر پہنچے تو پتا چلا کہ اے سی بس کا روٹ بدل گیا ہے، اب وہ اس شہر سے نہیں گزرا کرے گی۔ اس دن وہ بہت رویا تھا، اتنا کہ اس کا چہرہ رو رو کر مرجھا سا گیا ۔
کچھ عرصہ بعد شہر میں پہلی بار بنک کی برانچ کھلی۔ نیشنل بنک کے سامنے سے وہ روز گزرتا کیوں کہ کسی نے اسے بتایا تھا کہ وہاں اے سی لگے ہیں۔ اس نے کئی بار اندر گھسنے کی کوشش بھی کی مگر کام یاب نہ ہوا کیوں کہ سیکیورٹی گارڈ اس کے گندے کپڑے دیکھ کر اسے بھکاری سمجھ بیٹھتا اور اندر داخل نہ ہونے دیتا۔ آخر جب اگلے ماہ بجلی کا بل آیا تو وہ ڈاک خانہ جانے کی بہ جائے بنک کی طرف آیا۔ گارڈ نے روکا تو اس نے گارڈ کو روپے اور بل دکھایا۔
’’بل بھرنے آیا ہوں۔ اگر نہ بھرا تو تم بھوکے مرو گے۔ تنخواہ نہیں ملے گی۔‘‘ گارڈ نے اسے اس بری طرح گھورا کہ کچا چبا جائے مگر بہرحال اس نے نوید کو اندرجانے دیا۔ اندر جا کر نویدنے دیکھا کہ پنکھے چل رہے ہیں مگر ٹھنڈک ندارد۔ کتابوں میں اس نے اے سی کی ٹھنڈک کے متعلق جو کہانیاں پڑھی تھیں، اسے وہ سب جھوٹی معلوم ہونے لگیں۔
’’اے سی کہاں ہے؟‘‘ اس نے ایک آدمی سے پوچھا۔
’’وہ سامنے دیوار پر لگا ہے مگر آج خراب ہوا پڑا ہے۔ چل نہیں رہا۔‘‘ اس نے قریب جا کر اے سی کو دیکھا۔ بالکل ویسا ہی تھا جیسا اس نے تصاویر میں دیکھا تھا بس چل نہیں رہا تھا۔
’’معلوم نہیں جب چلتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔ـ‘‘ اس نے سوچا۔’’اگلے مہینے کا جب بل آئے گا تو پھر آؤں گا۔ اس وقت تک تو ٹھیک ہو چکا ہو گا۔‘‘
مگر اگلے مہینے کی نوبت نہ آئی۔ دو دن بعد ہی اس نے اے سی دیکھ لیا۔
٭٭٭
’’پانچ سیر آلو بخارے تول دوــ‘‘ پولیس کی وردی میں ملبوس شخص کے کندھے پر سٹارز کی تعداد یہ بات ظاہر کر رہی تھی کہ وہ ایس ایچ او ہے۔ نوید نے اسے آلو بخارے تول دیئے۔ ایس ایچ او نے تھیلا اٹھایا اور گاڑی کی طرف مڑ گیا جو کچھ ہی فاصلے پر کھڑی تھی۔
’’صاحب پیسے؟‘‘ نوید بلندآواز میں پکارا۔ایس ایچ اواس کی آواز سُن کر لاشعوری طور پر مڑا مگر کچھ نہ بولا۔
’’صاحب پیسے؟‘‘نوید پھر بولا۔ اسی ساعت ایس ایچ او نے پھلوں کا تھیلا نوید پر دے مارا۔ نوید تھیلے سے بچنے کے لیے ذرا نیچے جھکا اور تھیلا اس کے اوپر سے ہوتا ہوا فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک کتے کو جالگا۔ کتا ایک تکلیف زدہ آواز میں چلایا اور پھر شاید حالات کی سنگینی دیکھ کر چپ ہو گیا۔ ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی، ایسی خاموشی جس میں گاڑیوں کا بلندشور تھا مگر ارد گرد موجود سب لوگ ساکت و جامد کھڑے نوید اور ایس ایچ او کو دیکھ رہے تھے اور پھر اس خاموشی کی کیفیت کو نوید کی آواز نے تارتار کر دیا۔
’’کیا ہوا صاحب؟‘‘ نوید کی زبان میں ہکلاہٹ سنتے ہی ایس ایچ او کی بھنویں تن گئیں۔
’’مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا؟ تجھے ایسا نشان عبرت بناؤں گا کہ آئندہ کسی میں ہمت نہ رہے گی یہ سوال کرنے کی۔ــ‘‘ یہ کہتے ہوئے ایس ایچ او نے پھلوں کی ریڑھی الٹ دی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گاڑی کی طرف چل دیا۔ آلو بخارے، خوبانی اور جامن سڑک پر بکھرے پڑے تھے۔ اس کے لیے قیامت آچکی تھی۔ ایس ایچ او کے جانے کے بعد ایک دو بھکاری آئے اور فرش سے پھل اٹھانے لگے۔ نوید کو کچھ پتا نہ چل رہا تھا کہ کیا ہوا۔ وہ شدتِ خوف سے لرز رہا تھا۔ کوئی ریڑھی والا اس کی مدد کو نہ آیا۔ سب کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔
اس کے باپ کو پتا چلا تو وہ بپھر گیا۔
’’وردی والے سے پیسے نہیں مانگتے۔ــ‘‘
’’مجھے کیا خبر تھی کہ وہ ایسا کرے گا۔ ابھی کل ہی تو ایک وردی والا پیسے دینے کے بعد خوبانی لے کر گیا تھا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ارے میں کہتی ہوں ستیا ناس ہو اس لڑکے کا۔ اس نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب کھاؤ گے کہاں سے؟‘‘ اس کی ماں چیخ رہی تھی۔
’’چپ کر بی بی۔ میں ذرا کسی افسر سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ سنا ہے اس علاقے میں نیا اے سی آیا ہے۔‘‘ باپ کے منہ سے لفظ ’’ اے سی‘‘ سُن کر وہ چونک گیا مگر باپ شدید غیظ و غضب کی سی کیفیت سے دوچار تھا لہٰذا وہ چپ رہا۔ یہ نہ ہو کہ سوال پوچھنے پر اس کی ٹھکائی ہو جائے۔ آخر ابا نے اے سی کے دفتر جانے کا فیصلہ کیا۔ نوید کو بھی ساتھ لیا۔اسسٹنٹ کمشنر کو دیکھ کر نوید سوچ میں پڑ گیا۔
’’کرسی پر بیٹھا یہ شخص اے سی کیسے بن گیا؟ بنک میں تو وہ ایک دیوار میں لگا تھا۔ کہیں یہ کوئی روبوٹ قسم کی چیز تو نہیں۔ میں نے بنک میں جو اے سی دیکھا تھا، وہ تو خراب ہوا پڑا تھا۔ ابا اسے اے سی کہہ رہے ہیں تو اے سی ہی ہو گا۔ یہ صحیح والا اے سی ہے، تبھی تو کمرے میں بھی ٹھنڈک ہے نا۔ــ‘‘ وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں تھا کہ جب اے سی نے اسے مخاطب کیا:
’’بیٹے ایس ایچ او نے کیا کیا تھاتمہارے ساتھ؟‘‘ اے سی کی بات سن کر وہ سوچوں کی دنیا سے باہر آیا اور طوطے کی طرح فرفر کہانی سنانے لگا۔ اس کی کہانی سننے کے بعد ایس ایچ او کو بلایا گیا۔




Loading

Read Previous

خسارہ — تشمیم قریشی

Read Next

دل تو بچہ ہے جی — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!