سائبان — محمد عمر حبیب

’’گردن کو سیدھا کریںـ۔‘‘
’’اوپر دیکھیں۔‘‘
’’ہاتھ ذرا گود میں رکھ لیں۔‘‘
یہ فوٹو گرافر کے الفاظ تھے، جن پر تیزی سے عمل کرتے ہوئے وہ خود کو سیٹ کررہا تھا۔سیاہ کپڑوں میں ملبوس وہ نوجوان خوب بن سنور کے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا کے دفتر آیا تھا۔ بالوں میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ خوب نمایاں تھا۔بہ غور جائزہ لیا جاتا تو کھلے گریبان سے نظر آتا پاؤڈر بھی بآسانی دیکھاجا سکتا تھا جو دفتر کے باہر شدید گرمی میں ایک گھنٹے تک طویل قطار میں کھڑے رہنے کے سبب جم کر پلستر کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اس وقت وہ اپنی آنکھیں کیمرے کے لینز کی طرف مرکوز کیے ہوئے تھا۔ آنکھیں تقریباً باہر کو اُبلی ہوئی تھیں، قیاس تھا کہ شاید اس نے زبردستی آنکھیں پھاڑ رکھی ہیں تاکہ کیمرے کی فلیش سے اس کی آنکھیں بند نہ ہو جائیں اور اگر اس کی بند آنکھوں والی تصویر شناختی کارڈ پر آگئی تو اُف۔۔۔اس کے ساتھی تو اسے اندھا اندھا کہہ کر پکارا کریں گے۔اسے یاد ہے کہ یونین کونسل کے انتخابات کے موقع پر ایک لیڈر کے خلاف مخالف پارٹی نے لنگڑا کہہ کہہ کر نعرہ بازی کی تھی کیوں کہ اس نے انتخابی مہم کے دوران تصاویر کھنچواتے ہوئے ایک ٹانگ پر زیادہ زور دے رکھا تھا۔ نوجوان نہیں چاہتا تھا اس کی تصویر میں کوئی ایسا نـُقص ہو جو اس کے لئے ایک پھبتی بن جائے تب ہی تو وہ خوب احتیاط سے بیٹھا تھا۔ ریاضی کے وہ کُلیے جن کے مطابق کسی بھی جسم کا وزن یکساں رکھا جاتا تھا اسے آج اچھی طرح یاد تھے۔حساب اور طبیعیات کے وہ فارمولے خودبہ خود اس کے ذہن میں چلے آرہے تھے، جواس نے کبھی پڑھے بھی نہیں تھے اور جن کی نشان دہی کرنے کے لیے ریاضی دانوں نے مدتیں کھپا دی تھیں۔بلاشبہ اس وقت وہ کسی الخوارزمی سے بھی بڑا ریاضی دان بنا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر بیٹھا رہا، خلاف توقع نہ توکوئی فلیش لائٹ چمکی اور نہ ہی کلک کی آواز آئی ، پھر یکایک فوٹو گرافر نے اسے اُٹھنے کا اشارہ دے دیا۔ وہ حیرت سے کبھی فوٹو گرافر کو دیکھتا، کبھی کیمرے کو اور کبھی خود کو۔ فوٹو گرافر بھی عاجز آگیا۔





’’باہر تشریف لے جائیے سرکار۔ لائن میں موجود اگلا شخص اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ــ‘‘
’’مگر تم نے تو میری تصویر کھینچی ہی نہیں ۔ کیا تم مجھے الو سمجھتے ہو کہ بغیر تصویر کھینچے ٹرخا دو گے؟ـــ نہ کوئی فلیش، آواز اور نہ تصویر خدا جانے خود بہ خود کیسے کھنچ گئی۔ کیمرہ نہ ہوا کوئی منتر ہو گیا‘‘ نوجوان بپھر ا تو معاملہ مزید بڑھ گیا۔شور و غل بڑھا تو سیکیورٹی گارڈ بھی اندر آگیا۔ اس نے نوجوان کوسمجھا بُجھا کے باہر نکالا اور معاملہ رفع دفع ہوا۔پھر اس نے نوجوان کی رہنمائی ایک اور میز تک کی۔ساتھ ساتھ وہ بتا رہا تھا:
’’ارے میاں جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے اب تم گھوڑوں اور خچروں والے دور میں نہیں ر ہ رہے ۔ دیکھتے نہیں کہ یہ انگوٹھے کے نشانات لینے کا کیسا جدید بائیو میٹرک سسٹم آگیا ہے۔ نہ روشنائی سے انگوٹھے گندے ہوتے ہیں اور نہ ہی کاغذ پر سیاہی پھیلتی ہے۔ اِدھر تم انگوٹھا سکینر پر رکھتے ہو اور اُدھر اُس کا نشان آناً فاناً کمپیوٹر میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ــ‘‘
نوجوان بھی سر ہلاتا رہا۔مختلف میزوں سے گزرتا ہوا وہ آخر میں ایک ایسے کاؤنٹر کے سامنے جا پہنچا جہاں حتمی معلومات کا اندراج کیا جانا تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے ایک قدرے پست قد کا مالک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی نوجوان کاؤنٹر کے قریب پہنچا تو وہ شخص کھڑا ہو گیا۔
’’شکریہ شکریہ بیٹھ جایئے۔ـــ‘‘ نوجوان سمجھا کہ شاید وہ اس کو عزت دینے کے لئے کھڑا ہوا ہے، اس لیے بلاساختہ بول پڑا۔ وہ شخص بھی سمجھ گیاکہ نوجوان نے یہ الفاظ کیوں ادا کیے ہیں، آخر اس کا روز کا کام تھا۔لہٰذا فوراً بولا:
’’میں آپ کے استقبال کے لئے نہیں بلکہ اس تصدیق کے لئے کھڑا ہوا تھا کہ آیا آپ ہی وہی آدمی ہیں، جن صاحب کی تصویر مجھ تک پہنچی ہے۔ــ ‘‘ یہ کہتا ہوا وہ شخص اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اورنوجوان کھسیانا ہو گیا۔ کوائف کا اندراج ہونے لگا۔
’’نام بتائیے۔ــ‘‘اس نے پوچھا۔
’’نوید عارف۔ــ‘‘نوجوان نے جواب دیا۔کاؤنٹر کے پیچھے موجود شخص اس کے نام کے ایک ایک حرف کو چبا چبا کر دہرا تے ہوئے ٹائپ کرتا جا رہا تھا۔
’’والد کا نام؟ــ‘‘ پوچھا گیا۔ نوید کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اس نے چند لمحوں کا وقفہ لیااوربڑی مشکل سے نام لکھوایا۔ اس کے باپ کے نام سُن کر کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھا شخص چونکا۔
’’کہیں یہ وہی تو نہیں یا …پھر …ہو سکتا ہے کہ کوئی… ہم نام ہے؟‘‘ وہ شخص بُڑبُڑایا اور پھر نوید سے پوچھ ہی بیٹھا:
’’کیا یہ پورا نام ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اس سے پہلے عبدالستارتو نہیں آتا؟‘‘ اس شخص کے لہجے میں ہلکے سے تجسس کی لہر نمایاں تھی۔
نوید نے جواب نہ دیا اور پھر اس کے بیان کردہ نام کا اندراج کر لیا گیا۔
’’موجودہ پتا لکھوائیے۔ــ‘‘ اس نے فوراً اس کمرے کا پتا بتایا جو اس نے چار مزدوروں کے ہمراہ کرائے پر لے رکھا تھا۔ یہاں تک تو نوید کسی حد تک مطمئن سا کھڑا تھا مگر کاؤنٹر کے دوسری جانب سے برآمد ہونے والے نئے سوال نے اسے بے چین کر دیا، وہ سوال اس کے لئے کسی دھماکے سے کم ثابت نہ ہوا۔
’’مستقل پتا لکھوایئے!‘‘ اسے کہا گیا۔
’’مگر میرا تو کوئی مستقل پتا ہے ہی نہیں۔‘‘ اس نے کورا جواب دیا۔
’’اپنا نہیں تو والد کا لکھوا دیجیے۔‘‘ ٹھگنے قد کے آدمی نے جواب دیا۔
’’والد کا۔۔۔‘‘ یہ الفاظ اس کے دماغ میں ہتھوڑا بن کر برسنے لگے۔ باکل ویسے ہی جس طرح چودہ اگست کی شام کوآپ اپنی گلی سے گزریں اور شرارتی بچے آپ پر کوئی پٹاخہ اچھال پھینکیں جو آپ کے پاؤں تلے آ کر پھٹے اور پھر زمین ہل جائے، کان پھٹ جائیں ۔ اسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ زمین شاید مدار سے نکل چکی تھی اور اب لٹو کی طرح بے ہنگم گھومے چلی جارہی تھی۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا تھا، اسے لگا سب کچھ سیاہ ہو گیا ہے، اور زمین بلیک ہول کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے۔ سہارا لینے کے لئے اس نے قریب پڑی کرسی کو مضبوطی سے تھام لیا جب کہ کاؤنٹر کے دوسری طرف سے آواز آرہی تھی:
’’ جلدی بتائیے، وقت کم ہے۔ـ‘‘ اسے یہ آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

خسارہ — تشمیم قریشی

Read Next

دل تو بچہ ہے جی — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!