رفیع خآور: ننھا

نازلی
ایکسپریس اخبار کا ایک کالم تھا۔’کاش! ننھا کی زندگی میں نازلی نہ آتی۔‘ اس جملے کو پڑھنے کے بعد شاید ہی پاکستان فلم انڈسٹری سے دلچسپی رکھنے والا کوئی شخص اس کالم کو نہ پڑھتا۔
ننھا کے بارے میں ایک بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ ننھا معصوم شخص تھا جس کے دل میں کسی کیلئے کھوٹ نہ تھا۔وہ فطرتاً حسن پرست تھا۔ شعروشاعری اور کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔کچھ اس کا گھرانہ ایسا ہی سلجھا ہوا اور پڑھا لکھا تھا یعنی ننھا نے جس ماحول میں پرورش پائی وہ ایک خالص ماحول تھا جس میں رشتوں کی محبت شامل تھی۔ننھا نے شادی کی اور اس کے تین بیٹے علی خاور،نقی خاو ر اور رضی خاور تھے۔ اپنے خاندان کے ساتھ وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھاکہ اس کی زندگی میں نازلی داخل ہوئی۔ کاش! اس کی زندگی میں نازلی نہ آتی۔
نازلی ایک ڈانسر تھی جس نے پاکستان فلم انڈسٹری میں 1972ء میں ڈیبیو کیا۔ اس کی پہلی فلم ”انتقام“ تھی جو کے ناکام رہی۔نازلی ایک ناکام اداکارہ تھی جس کو کوئی زیادہ اہمیت نہ دیتا تھا۔یہ ننھا کے عروج کا زمانہ تھا جب ایک فلم میں ننھا کے ساتھ نازلی کو بھی کردار ملا۔یہ جوڑی فلم کی تھی مگر نجانے کونسی منحوس گھڑی تھی جب اس جوڑی نے حقیقت میں ایک دوسرے میں دلچسپی لینا شروع کردی۔نازلی پہلے فلموں میں ننھا کے ساتھ جڑی اور اس کے بعد رفتہ رفتہ اس کی زندگی پر قابض ہوتی چلی گئی۔ننھا کی معصومیت سے کون انکاری ہے، وہ عشق کے ان پیچ وخم سے ہرگز واقف نہ تھا۔اس کی نازلی کے ساتھ محبت سچی تھی، چند لمحات کی وقت گزاری ہرگز نہ تھی۔ننھا نے نازلی کو عزت اور دل میں جگہ دی ساتھ ساتھ وہ اسے اپنی فلموں میں بھی جگہ دینے پر ضد کرنے لگ گیا۔اس وقت کے پرڈیوسر سپرہٹ ننھا کی بات ماننے پر مجبور تھے اس لیے نازلی ننھا کی بدولت ترقی کرتی چلی گئی۔
روپے پیسے کی ننھا کے پاس کمی نہ تھی اس لیے نئی کوٹھی بنا کر ننھا نے نازلی کے نام کردی۔نازلی کو عشق درکار تھا یا دولت۔ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر شادی کے بغیر ننھا نے اس پر سب کچھ لٹانا شروع کردیا۔
ان کی محبت کا ثبوت دیکھنا ہو تو ان گانوں کی ویڈیودیکھیں جن میں ننھا اور نازلی ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں جیسے’ویکھ میری بانہہ ٹپدی منڈیا،اکھیاں رہندیاں مست مست،میراکرلے کوئی بندوبست۔“
ننھا کے قریبی دوستوں نے اسے بہت سمجھایا۔نازلی جس جگہ سے تھی وہاں محبت کا مطلب کیا ہے، یہ بات اسے سمجھانے کیلئے بہت لوگ آئے۔خاص طور پر علی اعجاز اور ننھا کے ساتھ مشہور جوڑی بنانے والی تمنا بیگم نے ننھا کو بار بار سمجھایا مگر ننھا بھولا بھالا انسان تھا۔کچھ سمجھ نہ سکا اور پھر اچانک سب کو ہنسانے والاننھا خاموش رہنے لگ گیا۔اس کے قہقہے تھم گئے۔لوگوں نے محسوس بہت کیا مگر کوئی وجہ نہ جان سکا۔ننھا کی خاموشی اور اداسی گہری ہوتی چلی گئی۔نازلی کے ساتھ کسی وجہ سے ننھا کی لڑائی ہو گئی۔وہ دوکشتیوں کا سوار تھا۔گھر والے کسی طور بھی نازلی کو قبول نہیں کرنا چاہتے تھے جبکہ ننھا کیلئے زندگی کا دوسرا مطلب نازلی ہوچکا تھا۔ کاش! ننھا کی زندگی میں نازلی نہ آتی۔
اس زمانے میں دور بدل رہا تھا۔سلطان ر اہی کی ایکشن فلمیں مسلسل ہٹ جا رہی تھیں۔ایک وقت میں ننھا اور علی اعجاز کی مزاحیہ فلموں نے اس کا مقابلہ کیا تھا مگر اب وقت تبدیلی کے اثر میں تھا۔
ننھا کی پریشانی سب نے محسوس کی مگر کوئی اس کا حل تلاش نہ کرسکا۔دل میں چھپا درد ننھا کسی کو نہ بتا سکا اور ایک رات۔ چپ چاپ۔ دنیا چھوڑ کر چلا گیا۔
”یار ججی! اج دی سویر نیہوں ہونی۔“
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

اوپرا ونفرے

Read Next

اصحابِ کہف ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!