رفیع خآور: ننھا

الف نون
”دمباز اوردمساز“ کاسکرپٹ لکھنے والے کمال احمد رضوی نے جب پی ٹی وی کی بڑھتی مقبولیت دیکھی تو دمباز اور دمساز کاسکرپٹ لے کر ایک ٹی وی ڈرامہ بنانے کا سوچا۔ان دنوں چونکہ ریکارڈنگز تو ہوتی نہیں تھیں،اس لیے اس ڈرامے کو ناظرین کے سامنے لائیودکھایا جانا تھا۔
جون 1965ء کے دن تھے جب اس نئے پروگرام کو لے کر لاہور سینٹر سے ذرا پرے ہٹ کر چار لوگوں کی ٹولی بیٹھی بحث کررہی تھی۔موضوع تھا کہ دمباز اور دمساز کا نام مناسب نہیں،اس لیے پروگرام کا نام بدلا جائے۔آغاناصر،اسلم اظہر،کمال احمد رضوی اور فضل کمال اس بات کو لے کر کافی دیر سے بحث کررہے تھے۔اس ڈرامے کا نام ہدایت کار آغاناصر کے نام پر رکھا جانے کا سوچا جارہا تھا۔”آغاناصر کاپروگرام“۔آخر اسلم اظہر اس عنوان کی بحث سے تنگ آ کر بولے:
”یہ پروگرام لکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیا نام منتخب کرتا ہے۔“فضل کمال بھی بور ہوچکے تھے اس لیے بول پڑے:
”بحث ختم کرتے ہیں۔ آغا کا الف اور ناصر کا نون الگ کرو۔پہلی قسط الف نون کے عنوان سے نشر کرتے ہیں۔ باقی بعد میں دیکھی جائے گی۔“ سب اس بات پر متفق ہو گئے۔ باقی تینوں اٹھ کر چل دئیے مگر کمال رضوی وہیں بیٹھے رہے اور اچانک چیخے۔
”ہاں یہ نام بالکل مناسب ہے،مستقل نام ہے یہ۔“کمال رضوی کے سامنے الف سے دبلے پتلے الن اور نون سے گول مٹول ننھا،ناچنے لگے۔
29جون 1965ء کے دن الف نون کی پہلی قسط ٹی وی پر نشر ہوئی۔اس میں الن کا کردار کمال احمد رضوی جبکہ ننھا کا کردار رفیع خاور نے کیا تھا۔الن ایک چالاک اور عیار شخص ہوتا ہے جو شارٹ کٹ کے ذریعے پیسے کمانا چاہتا ہے جبکہ ننھا اس کا دوست ایک بے وقوف شخص ہے جو ہمیشہ اپنی حماقتوں سے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیتاہے۔الن کی اداکاری میں عیاری جبکہ ننھا کی اداکاری میں بھولپن اور سادگی ہوتی تھی۔ یہ جوڑی ٹی وی کی سپرہٹ جوڑی بن گئی۔پڑوسی ملک بھارت میں بھی بالکل اسی طرح کی ایک جوڑی گوپ اور یعقوب مشہور تھے مگر ننھا اور الن کی جوڑی نے شہرت میں اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا۔رفیع کا اصل نام بھول کر سب اسے ننھا کہنے لگے کیونکہ یہ کردار ان پر بالکل فٹ بیٹھتا تھا۔ان کے بے ساختہ انداز نے لوگوں کو ان کا دیوانہ بنا دیا۔
الف نون ہر قسط میں معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کو بے نقاب کرتے۔خواہ وہ کوئی شادی کا فنکشن ہو،کوئی سرکاری دفتر ہو یا الف نون فٹ پاتھ پر ہوں۔ ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ معاشرے کی سیاہ کاریوں پر طنز کے تیر برسائے جاتے جسے ناظرین خوب سراہتے تھے۔
رفیع خاور اس حوالے سے بات کرتے ہوئے دلچسپ واقعات سناتے تھے۔ایسا ہی ایک واقعہ انہوں نے انٹرویو کے دوران بیان کیا۔
”ہمیں لائیو دکھایا جاتا تھا اس لیے اکثر مجھے سکرپٹ بھول جاتا تو میں الن کے گلے لگ جاتا جس کے بعد وہ میرے کان میں مجھے اگلی لائن بتاتے۔ایک دن جب میں سیٹ پر لائیو موجود تھا تو الن کافی دیر بعد کیمرے کے سامنے آیا اور ہمیشہ کی طرح پوچھا۔
”اے کیا کررہا ہے؟“اس کے بعد الن میرے گلے لگ گیا اور کان میں پوچھا۔”آگے کیا ہے؟“ننھا خود اس دن بے خبر تھا۔اس نے سرگوشی میں جواب دیا۔
”مجھے نہیں پتا!“اور بلند آواز میں بولے۔
”تم رکو!میں پانی پی کر آتا ہوں۔“اسی بہانے کے ساتھ ننھا وہاں سے غائب ہوااور سکرپٹ پڑھ کر واپس آیا تب الن پوچھتا ہے:
”پانی پی آئے۔ میرے لیے بھی لے آتے“ننھا جواب دیتا ہے:
”میں ٹوٹی سے منہ لگا کر پی آیا ہوں۔ آپ بھی پی آئیں۔“
الف نون کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ڈرامہ 1965ء سے 1985ء تک مختلف وقفوں سے چارمرتبہ پیش ہوا اور ہرمرتبہ اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کر دئیے۔الن اور ننھا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے والے اس ڈرامے کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔الف نون پر کئی دلچسپ کمنٹس پڑھنے کو ملتے ہیں جیسے مشہور مزاح نگار کرنل شفیق الرحمٰن فرماتے تھے:
”الف اور نون کو پہلی مرتبہ دیکھنے پر مقوی صحت دواؤں کے اشتہارات دماغ میں آتے ہیں جن پر استعمال سے پہلے اور استعمال سے بعد کی تصاویر نمایاں ہوتی ہیں۔“
پروین شاکر نے الف نون کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
”الف نون ہماری گھٹن سے بھرپور زندگیوں میں بارش کے جھونکے کی طرح داخل ہوااور یہاں سے وہاں تمام دریچوں پر دستک دیتا چلاگیا۔“
خود کمال رضوی اس ڈرامے کو قدرت کا دیا گیا سنہری موقع قرار دیتے تھے۔ان کا کہنا تھا:
”اگر الف نون میری زندگی میں نہ ہوتا تو میں خودکشی کر لیتا۔“ کمال رضوی نے الف نون کو کراچی میں پرفارم کیا تو اس کی ٹکٹیں بہترہزار روپے میں فروخت ہوئیں جس سے انہوں نے زمین خرید کر اپنا گھر تعمیرکیا۔80ء کی دہائی میں ان کے مالی حالات بگڑے تو انہوں نے پی ٹی وی سے دوبارہ درخواست کرکے الف نون کا سیزن ٹو شروع کر لیا۔ اب کی بار بھی ننھا اورالن کی جوڑی نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ کمال صاحب کے حالات تو بدل ہی گئے تھے۔۔ادھر ریسلر اور پہلوانی کے اکھاڑے میں اترنے کا مشورہ دل میں لیے گھومنے والے ننھا کی زندگی نے بھی اہم موڑ لیا۔
٭……٭……٭

Read Previous

اوپرا ونفرے

Read Next

اصحابِ کہف ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!