کامیابیاں
الف نون کی کامیابی نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا تو فلم ڈائریکٹراور پرڈیوسر کی نظریں بھی الن اور ننھا کی طرف اٹھ گئیں۔ انہی لوگوں میں شباب کیرانوی صاحب بھی شامل تھے۔ اس دن الف نون کی قسط دیکھنے کے بعد انہوں نے اسٹوڈیو میں گھومنے والے یٰسین گوریجہ کو اپنے پاس بلایا۔رسمی کلمات کے بعد انہوں نے پوچھا۔
”گوریجہ صاحب!یہ الف نون میں اداکاری کرنے والا ننھا وہی ہے جسے اس دن آپ ہمارے پاس لائے تھے؟“
”جی! یہ وہی ہے جسے آپ نے پہلوانی کا مشورہ دیا تھا“گوریجہ صاحب نے مسکرا کرجواب دیا۔
”اسے میرے پاس لے آؤ۔میرے پاس ایک کردار ہے اس کے لیے۔“انہوں نے کہا تو گوریجہ صاحب نے دوبارہ ننھا سے بات کی۔ننھا کیلئے یہ گولڈن چانس تھا۔اس نے ہامی بھر لی۔شباب کیرانوی کا اس زمانے میں ایک نام تھا۔ان کی فلم میں کام ملنے کا مطلب لالی ووڈ میں اپنی جگہ پکی کرناتھا۔شباب صاحب نے ننھا کو دیکھ کر کہا:
”گوریجہ صاحب اب اسے آپ میرے پاس لے آئے ہیں تو یہ میری فلموں کا آرٹسٹ ہو گیا۔“
1966ء میں ننھا کو ”وطن کا سپاہی“فلم میں ایک کردار ملا جس کے بعد ننھا نے مڑ کر نہ دیکھا۔وہ ہر فلم کا لازمی حصہ بنتے چلے گئے۔مین رول سے ہٹ کر انہوں نے اگلے چند سال جن کامیاب فلموں میں کام کیا وہ یہ تھیں۔
٭انسانیت کا بدلہ(گولڈن جوبلی)1968ء
٭دھی رانی 1969ء
٭ات خدا دا ویر1970ء
٭آنسو1971ء
٭پردے میں رہنے دو1972ء
1973ء کے سال میں ننھا کی اداکار محمد علی کے ساتھ کچھ ان بن ہو گئی جس کے بعد انہوں نے اپنی فلم میں کسی اور مزاحیہ اداکار کی سفارش شروع کردی۔ننھا کیلئے یہ افسوس ناک بات تھی کیونکہ ان کا رویہ اپنے ساتھی اداکاروں کے ساتھ بہت اچھا تھا اور ہر شخص اس کی تعریف کرتا تھا۔1973ء میں علی سفیان آفاقی نے جب فلم آس بنائی تواس میں ننھا کے لیے کردار رکھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ فلم کے ہیرو کے طور پر محمد علی شامل تھے۔ننھا کو جب علی سفیان نے اپنے پاس بلایا تو ننھا اداکاروں کی لسٹ دیکھ کر بولے۔
”آپ نے محمد علی سے پوچھا ہے؟“علی سفیان کچھ حیران ہوئے۔
”کیا پوچھنا تھا؟“
”میرے بارے میں۔ کہ میرا کردار بھی ہے اس فلم میں۔“
”ننھا صاحب فلم میری ہے،محمد علی کی نہیں۔“ننھا کچھ جذباتی ہوئے اور آنکھوں میں نمی لا کر بولے:
”آفاقی صاحب! میری محمد علی سے کچھ ان بن ہو گئی ہے۔شباب کیرانوی صاحب نے بھی اپنی فلم سے کٹ کر دیا ہے۔“ آفاقی صاحب کواس بات کا افسوس ہوا اور انہوں نے یقین دلایا کہ اب کی بار ایسا نہیں ہو گا۔یوں آس فلم میں ننھا نے کام کیا۔محمد علی البتہ خاموش رہے۔
اس کے بعد ننھا نے اسی سال ایک کامیاب فلم میں پاورفل کردار ادا کیا۔فلم ”ضدی“1973ء میں کامیاب رہی تو 1975ء میں ننھا کے لیے فلم نوکر نے کامیابیوں کے نئے دروازے کھول دیے۔ انہیں اداکار ہ تمنا بیگم کے ساتھ جوڑی میں پسند کیا گیاجس کے ساتھ انہوں نے باپ،دادا اور نوکروں کے کردار ادا کئے۔
1979ء میں انہیں فلم”تھیکا پہلوان“ میں لیڈ رول ملا۔یہ ننھا کیلئے عروج کا زمانہ تھا۔اس نے ہٹ پر ہٹ فلم دی۔اسی سال حیدر چوہدری کی فلم ”دبئی چلو“نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔یہاں ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی نے رنگ جمایا تھا۔یوں تو ننھا نے لاتعداد کردار ادا کئے مگر جن سپرہٹ فلموں میں ننھا لیڈ رول میں تھا ان کی لسٹ یہ ہے۔
٭نوکر:1976ء
٭دبئی چلو 1979:ء
٭سہرا تے جوائی:1980ء
٭اتھرا پتر:1981ء
٭سالا صاحب:1981ء
٭جی دار:1981ء
٭دوستانہ:1981ء
٭نوکر تے مالک:1982ء
٭سونا چاندی:1983ء
٭جدائی:1984ء
٭شعلے:1984ء
٭کامیابی:1984ء
٭غلامی:1985ء
٭چوڑیاں:1985ء
ننھا نے کل 391فلموں میں کام کیا جن میں 166اردو، 221پنجابی، تین پشتو اور ایک سندھی فلم شامل ہے۔
ننھا،علی اعجاز اور منور ظریف جس سیٹ پر ہوتے وہاں قہقہوں کا طوفان برپا ہوتا۔ننھا زندہ دل انسان تھے جو کبھی پریشان نہیں ہوئے۔وہ ان لوگوں سے نفرت کرتے تھے جو چھوٹے آرٹسٹس کے ساتھ برا سلوک کرتے۔
ننھا اپنے محسن یٰسین گوریجہ کو کبھی نہیں بھولا تھا۔جب بھی گوریجہ صاحب محفل میں تشریف لاتے،ننھا اٹھ کر ان کے پیر چھولیتااور انتہائی ادب سے بات کرتا تھا۔وہ ان لوگوں میں سے تھا جو احسان کبھی نہیں بھولتے۔
ننھا کی زندگی پر لکھنے والے چند لوگوں نے یہ لکھا ہے کہ آخری وقت میں ننھا مالی طور پر کمزور تھا اور وہ فلاپ فلمیں دے رہا تھا مگر اس بات میں کوئی حقیقت دکھائی نہیں دیتی۔ننھا کے آخری سال تک ریلیز ہونے والی فلمیں کامیاب تھیں اور ننھا جتنے سال لالی ووڈ میں رہا، اس کے بعد روپے پیسے کی کمی ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے شخص کو کائنات کے ایک خوبصورت جذبے نے کیسے شکست دی۔ اس کے بارے میں بھی لکھتے ہوئے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔
٭……٭……٭