رعونت — عائشہ احمد

فاخرہ بیگم کی حیثیت اب گھر میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ صباحت نے گھر کا سارا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس نے کام کے لیے ایک نوکرانی بھی رکھ لی تھی جو گھر کے سارے کام کرتی تھی۔ اس نے اپنے ذمہ صرف کھانا پکانا رکھا ۔ اکثر وہ باہر ہی علی کے ساتھ کھانا کھانے جاتی تھی۔ فاخرہ بیگم یہ سب دیکھ کر اندر ہی اندر جلتی رہتیں۔ وہ علی سے صباحت کی شکایتیں کرتی لیکن علی ہمیشہ صباحت کی حمایت کرتا۔ فاخرہ بیگم یہ سن کر کوئلہ ہو جاتیں۔ کہتے ہیں مظلوم کی آہ عرش تک جاتی ہے اور مکافات کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ فاخرہ بیگم کے ساتھ ہو رہا تھا۔
ایک دن صباحت دوپہر کا کھانا بنانے کچن میں گئیں۔ علی نے آج اسے فون کرکے کہا تھا کہ وہ دوپہر کا کھانا گھر میں کھائے گا۔ ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ گھر میں کھانا کھائے۔ اس لیے صباحت نے آج بریانی بنانے کا سوچا۔ نوکرانی نے چاول چن کر بھگو دیے تھے اور اب وہ سلا د کاٹ رہی تھی۔ خود صباحت چکن فرائی کر رہی تھی جب فاخرہ بیگم کچن میں داخل ہوئیں۔ ان کے چہرے پر شدید غصے کے تاثرات تھے۔
“واہ کیا بات ہے مہارانی کی! جب دل کرتا ہے کچن میں آجاتی ہے اور اپنی مرضی سے جب دل کرتا ہے پکا لیتی ہے۔” فاخرہ نے طنزاً کہا تو صباحت نے ایک نظر اُن پر ڈالی اور پھر سے کام میں لگ گئی۔
“میں تم سے مخاطب ہوں ،یہاںتمہارا باپ نہیں کماتا کہ تم یوں پیسے کو کھانے پینے میں ضائع کر دو” اس بار ان کا لہجہ پہلے سے زیادہ تلخ تھا۔
“میں اپنے شوہر کی کمائی کھاتی ہوں اور ویسے بھی یہ میرا گھر ہے اور میں جو چاہے کر سکتی ہوں۔” صباحت نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
“او ہو! بڑی آئی گھر والی،یہ میر اگھر ہے، اور یہاں میری مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔” فاخرہ بیگم غصے سے پھنکاریں۔
“میں ایشل نہیںہوں کہ چُپ رہوں۔غلط فہمی ہے آپ کی ،علی میرا ہے اور وہ میرے بغیر پانی بھی نہیں پیتا۔آپ اس گھر پر حکمرانی کے خواب چھوڑ دیں۔” اس بار صباحت کا لہجہ بھی پہلے سے زیادہ زہرخند تھا۔ علی آفس سے آچکا تھا اور وہ سیدھا کچن میں آیا تھا۔ صباحت اسے دیکھ چکی تھی لیکن فاخرہ اس سے بے خبر تھیں۔





“تم مجھے جانتی نہیں ہو۔یہ میرا گھر ہے اور یہاں وہی رہتا ہے جسے میں پسند کرتی ہوں۔ میں نے تمہیں اس گھر سے نہ نکلوایا تو میرا نام بھی فاخرہ نہیں۔” فاخرہ بیگم شعلہ بیان لہجے میں بولیں۔ علی جو یہ سب سن کر غصے سے پیچ و تاب کھا رہا تھا تیز آواز میں بولا:
“بس امی بس! اس سے آگے ایک لفظ نہیں۔” فاخرہ بیگم نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
“کتنی ظالم ہیں آپ؟ آپ کو تھوڑا سا بھی اﷲ کا خوف نہیں آتا کسی کا گھر اجاڑتے ہوئے۔” علی کے لہجے میں کرب تھا۔
“ع۔ع۔ع۔علی بیٹا۔۔۔۔۔!” فاخرہ بیگم ہکلاتے ہوئے بولیں۔
“مت کہیں مجھے بیٹا! نہیں ہوں میں آپ کا بیٹا، جو ماں بیٹے کا گھر اجاڑ دے، بہو کو بیٹی نہ سمجھے، اسے ماں کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔” علی غصے سے پھنکارا۔ اس کے لہجے میں ایسی تھرتھراہٹ تھی کہ ایک لمحے کے لیے صباحت بھی کانپ گئی تھی۔ فاخرہ کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔
“پہلے آپ نے ایشل کو برباد کیا اور اب صباحت کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔ ایشل کے ساتھ جو ظلم ہوا اس کا ازالہ میں اپنی جان دے کر بھی نہیں کر سکتا۔میرا بیٹا مجھ سے دور ہو گیا۔اگر بہو کو بسانا نہیں ہوتا تو مائیں اپنے بیٹے کی شادی کیوں کرتی ہیں؟ کاش! میں اس وقت سمجھ جاتا، کاش کوئی مر د اپنی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اپنا ہنستا بستا گھر نہ اجاڑے اور اپنی ذمہ داری کا احسا س کرتے ہوئے گھر میں توازن رکھے تو گھر چلتا ہے۔اب میں ایشل والی کہانی نہیں دُہرائوں گا،اگر آپ نے زیادہ تنگ کیا تو میں صباحت کو لے کر یہاں سے چلا جائوں گا۔ پھر رہیے گا اپنے اس بڑے سے گھر میں حکمران بن کر۔” علی کی آواز بھرا گئی تھی۔ اس نے صباحت کا ہاتھ پکڑا اور کچن سے باہر چلا گیا۔ فاخرہ بت بنی کھڑی تھیں۔ علی کی باتیں ان کے سر پر ہتھوڑا بن کر برس رہی تھیں۔ ان کا جسم کمزور پڑتا جارہا تھا۔ وہ دھم سے فرش پر گر گئیں۔
٭…٭…٭
فاخرہ بیگم کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ان کی طبیعت ابھی سنبھلی نہیں تھی کہ ان پر فالج کا اٹیک بھی ہوگیا۔ ان کا سارا جسم مفلوج ہو گیا۔ اب وہ صرف دیکھ اور سن سکتی تھی، لیکن بول نہیں سکتی تھیں۔ علی اور صباحت نے ہر ممکن طریقے سے اُن کا خیال رکھا، لیکن فاخرہ بیگم کی طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی۔ ڈاکٹر نے ان کے بچنے کے بہت کم امکان بتائے تھے۔ وہ بار بار کوما میں چلی جاتیں اور جب بھی ہوش آتا تو کچھ کہنے کی کوشش کرتیں، جسے علی سمجھ نہیں پاتا تھا۔ ڈاکٹرز بھی ان کی اس حالت سے پریشا ن تھے۔
“ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ان کی حالت بگڑ کیوں رہی ہے؟” ڈاکٹر علی کے پاس آکر پریشان کن لہجے میں بولا۔
“آپ کچھ کریں ڈاکٹر صاحب! میری امی کو بچا لیں۔” علی رو دینے والے لہجے میں بولا۔
“ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن پر بوجھ ہے، کچھ ایسا ہے جو ان کو آہستہ آہستہ موت کی طرف لے کر جا رہا ہے۔” ڈاکٹر اسے تفصیل بتاتے ہوئے بولا علی چونک گیا لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا۔ وہ ڈاکٹر کو کیا معلوم کہ اس کی امی سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔
٭…٭…٭
فاخرہ بیگم کی طبیعت مزید بگڑگئی تھی۔ ان پر بے ہوشی کے دورے پڑ رہے تھے اور جب بھی ہوش میں آتی تو ایشل کا نام لیتیں۔
“آپ جلدی سے ایشل کو بلائیے، وہ جو بھی ہیں، ان کے آنے سے آپ کی امی کی زندگی بچ سکتی ہے۔” ڈاکٹر نے علی کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تو علی نے بے بسی سے صباحت کی طرف دیکھا، صباحت نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
ایشل نے علی سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس کا بھائی عارف شدید غصے میں تھا۔قریب تھا کہ وہ علی پر ہاتھ اٹھا دیتا لیکن میاں نثار اسے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ انہوں نے عارف کو اپنے کمرے میں جانے کو کہا۔
“اس گھٹیا آدمی سے کہیں کہ یہ یہاں سے چلا جائے ،ورنہ میرے ہاتھوں مارا جائے گا۔” عارف غصے میں پھنکارا اور پائوں پٹختا ہوا وہاں سے چلا گیا۔میاں نثار نے دکھ سے علی کی طرف دیکھا تو اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
“بہتر ہے تم یہاں سے چلے جائو۔ میں اب عارف کو نہیں روک سکوں گا۔” نثار دھیمے لہجے میں علی سے بولے۔
“پلیز انکل! صرف ایک بار ایشل سے کہیں مجھ سے مل لے۔ میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ وہ بار بار ایشل کو پکار رہی ہیں۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہیں۔” علی ملتجی نظروں سے نثار کو دیکھتے ہوئے بولا تو نثار نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں۔
“تم لوگ شرمندہ بھی ہوتے ہو؟” میاں نثار نے طنز کیا تو علی شرمندہ سا ہو گیا۔
“ایک باپ کے لیے سب سے تکلیف دہ لمحہ تب ہوتا ہے جب اس کی بیٹی ماتھے پر طلاق کا داغ لے کر اس کی چوکھٹ پہ آ بیٹھے۔” علی چپ چاپ نظریں جھکائے سن رہا تھا۔نثار میاں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
“ماں باپ بیٹی کے اچھے نصیب کی دعائیں کرتے قبر میں چلے جاتے ہیں لیکن بیٹی کا نصیب پھر بھی نہیں سنورتا۔ پتا نہیں کیوں مرد بیوی اور ماںمیں انصاف نہیں کر پاتا؟ حالاں کہ یہ اس کے اختیار میں ہوتا ہے۔ مرد کو اﷲ نے گھر کا سر براہ بنایا ہے۔ لیکن وہ بہ طور شوہر بری طرح ناکام ہو جاتا ہے اور اس کا سارا الزام عورت پر آتا ہے۔ مرد کی ذرا سی غلطی ایک پوری نسل اجاڑ دیتی ہے۔ لیکن قصور وار ہمیشہ عورت ہی ٹھہرائی جاتی ہے۔” ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ بیٹی کا دکھ انہیں اندر سے توڑ چکا ہے ،بس ایک بے جان جسم رہ گیا ہے جسے وہ مجبوری میں سنبھالے ہوئے ہیں۔
“کتنا مجبور ہوتا ہے نا ایک بیٹی کا باپ؟ اپنی انا،عزت اور غرور کو بیٹی کے سکھ پہ قربان کر کے بھی اسے آباد نہیں کر سکتا “انہوں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر منہ دوسری طرف کر لیا۔
“جائو! جا کر مل لو اس سے۔” یہ آخری بات انہوں نے روہانسی انداز میں کہی تھی۔
٭…٭…٭
فاخرہ بیگم نے اپنے دونوں ہاتھ ایشل کے سامنے جوڑ دیے۔ وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ فالج نے ان کے جسم کو ناکارہ کر دیا تھا۔ بڑی مشکل سے ہاتھ ہی وہ ہلا پائی تھیں۔ آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔دکھ، پچھتاوا، ملال اور ندامت کیا کیا نہیں تھا ان کی آنکھوں میں۔ ایشل کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی تھی جسے اس نے ضبط کر لیا تھا۔
“مجھے آپ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں۔بیٹیوں کے نصیب ایسے ہی ہوتے ہیں،ہاں بس اتنا دکھ ضرور ہوتا ہے کہ ایک ماں جب ساس بنتی ہے تو وہ ماں کے رتبے سے کیوں گر جاتی ہے۔اس لیے کہ وہ صرف اپنی اولاد کو ہی اپنا سمجھتی ہے اور باقی رشتے اس کے لیے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ ماں تو نام ہی محبت ہے لیکن پتا نہیں بیٹے کی ماں یہ کیوں نہیں سوچتی کہ اس نے ساری زندگی دنیا میں نہیں رہنا بلکہ ایک دن دنیا سے چلے جانا ہے اور اس کا غرور، تکبر، انا، حکمرانی سب یہیں رہ جائے گی اور ساتھ لے کر جائے گی تو بس اپنے نیک اعمال۔” وہ کسی فلسفی کی طرح بول رہی تھی اور فاخرہ بیگم کا چہرہ آنسوئوں سے تر ہورہا تھا۔
“میں نے آپ کو معاف کیا۔ اپنے اوپر کیے گئے ہر ظلم کو معاف کیا۔ اﷲ بھی آپ کو معاف کرے۔” ایشل نے آنسوئوں کو انگلی سے صاف کیا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔فاخرہ بیگم کو ایک جھٹکا لگا اور ان کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا۔
بس یہی زندگی ہے انسان کی۔ایک سانس کے فاصلے پہ موت کھڑی ہوتی ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے تکبر کے خول سے باہر نہیں آتا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اﷲ جب انسان کی پکڑ کرتا ہے تو بڑے سے بڑے فرعون بھی مٹی میں مل جاتے ہیں اور انسان کی رعونت اﷲ کو بالکل پسندنہیں، ا س لیے کہ اس پوری کائنات میں اﷲ کے سوا کوئی بے نیاز نہیں ہے، لیکن جب انسان بے نیاز ہونے لگتا ہے تو اﷲ کی پکڑ میں آجاتا ہے۔ اور یہی کچھ فاخرہ بیگم کے ساتھ ہوا تھا۔آج وہ اپنے تمام غرور ،انا اور تکبر کے ساتھ منوں مٹی تلے جا کر سو گئی تھیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!