رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر

سونا کسے پسند نہیں ہوتا، خواتین سونے پر جان دیتی ہیں تو بعض حضرات اس کے لیے جان لے بھی لیتے ہیں۔ سونے کے بھاؤ بڑھنیکے ساتھ اقدار کا نرخ کم ہو گیا ہے اور انسانی جان بے حد ارزاں۔ امن و امان کی اسی ناقص صورتِ حال کے باعث سونا تو دور کی بات اب لوگوں نے سونے جیسی خصوصیات سے بھی دور رہنا شروع کر دیا ہے۔ سونے میں تولنے کے قابل باتیں کرنا یاباتوں ہی باتوں میں کسی کو سونے میں تول دینا خود اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔
ان ہی وجوہات کی بنا پر بچے بھی اب منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونا پسند نہیں کرتے البتہ پیدا ہوتے ہی موبائل یا ٹیبلٹ لے لیں تووہ الگ بات ہے ۔ مہنگائی کی وجہ سے سونے کی خرید و فروخت میں نمایاں کمی دیکھ کر حکومت نے عوامی مفاد میں اشیائے خوردونوش کو سونے کے بھاؤ کر دیا ہے تا کہ عوام کو قیمتی چیز حاصل کرنے کا لطف بھی آ جائے اور سنبھال کر رکھنے کا جھنجھٹ بھی نہ ہو ۔ فوری خریدو اور کھا کر ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلو ۔جیسا کہ کہا جاتا ہے ہر کام کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہوتا ہے تو سونے کی قیمتوں میں بہ تدریج اضافے سے آرٹیفیشلزیورات کی صنعت کو فروغ ملا ہے ۔ پہلے شادی بیاہ پر دلہن کو سونے سے پیلا کردیتے تھے۔ اب اگر سونا نہ بھی میسر ہو تو لباس کے ہم رنگ زیورات پہنا کر لال نیلا ضرور کر دیتے ہیں۔ پھر بھی اگر کسی کا پیلا ہونے کا دل چاہے تو وہ آرٹیفیشل زیور ہی ایسے لیتا ہے کہ چمک دمک میں سونے کو مات دیں ۔ پیلے تو بعض اوقات دلہا بھی ہو جاتے ہیں، دلہن کا میک اپ اترنے کے بعد۔ لیکن اس پیلے پن میں سونے جیسی چمک دمک کہاں؟ بجھے ہوئے چہرے کے ساتھ ان کی سائیڈ پر رکھی وگ اور دانت دلہن کو غصے سے جامنی کر دیتے ہیں اور یوں رنگوں کا کھیل چلتا رہتا ہے ۔
ہماری ایک پڑوسن ہمہ وقت اپنے سونے کے زیورات دکھا دکھا کر محلے کے گھروں میں لڑائی کا باعث بنتی تھیں۔ جب وہ ناز سے اپنے کنگن چھنکا کر بتاتیں:
’’انہوں نے کہا ہے، رانی اسے اتارنا مت۔‘‘ تو ان کی اتراہٹ سننے والی خواتین کے دل میں خنجر کی طرح اتر جاتی بلکہ گڑ جاتی۔ قصور ان خاتون کا بھی اتنا نہیں تھا ، ’’سونے دی تعویتڑی‘‘ اور ’’لیا دے مینوں گولڈن جھمکے‘‘ سننے والی تمام خواتین اپنے شوہر سے یہی شکوہ کرتی ہیں کہ:
’’آپ نے تو کبھی مجھے سونے کی چیز نہ دلائی، آپ کو تو مجھ سے سچی محبت ہی نہیں ۔ ‘‘
حضرات شاید یہ سوچتے ہیں کہ اگر یہ فرمائش برابر میں بیٹھی ظالم کی بہ جائے سامنے اسکرین پر مٹکتی حسینہ کرتی تو دل، جگر، گردے سب بیچ کر پوری کرتے۔ اپنے محلِ وقوع میں اضافے کے بعد اہلیہ اب اس کی اہل نہیں رہیں ۔ آخر محلہ بھر کی نظر لگی اور ایک دن گلی میں انہیں چند لٹیرے مل گئے ۔ گن پوائنٹ پر پہلے ہاتھوں کے موٹے موٹے کنگن اتروائے ۔ زندگی سے بڑھ کر کیا تھا، چپ چاپ اتار دیے پھر انگوٹھیاں اور چین اتروانے کے بعد جب انہوں نے کانوں کے چھوٹے چھوٹے ٹاپس بھی اتروانے چاہے تو وہ بے ساختہ بولیں:
’’یہ تو اصلی ہیں۔‘‘ اس کے بعد ڈاکوؤں نے انہیں کیا کہا وہ تو معلوم نہیں لیکن چھپ چھپ کر کھڑکی سے منظر دیکھتی خواتین کے سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ۔ سونا چاندی کا ساتھ تو ہمیشہ سے ہے، صرف ڈرامے میں ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی ہے۔ تب ہی، تو بادشاہوں کو سونے کی پیالی میں اور چاندی کے ورق سے سجی کھیر پیش کی جاتی تھی ۔ بڑھتی مہنگائی نے سونا، چاندی کو خواب کردیا تو طلائی رنگت والی فصل ہی ہماری قومی محبوبہ بن گئی۔ زرعی ملک میں بھی گندم عوام سے آگے بھاگنے لگی ۔گندم کی سنہری سونے جیسی بالیوں کی قدر میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوام میں چاندی جیسی سفید چمکتی رنگت بھی مقبول ہو گئی۔ شاید گندم کے پیچھے خوار ہونے کے بعد لوگ گندمی رنگت کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہتے۔ وجہ چاہے جو بھی ہو لیکن اس چاندی جیسی رنگت کے عشاق نے بیوٹی پارلر اور رنگ گورا کرنے کی کریم بنانے والوں کی چاندی کر دی ہے۔ وقت اور پیسے کے بے دریغ زیاں سے حاصل ہونے والی چاندی رنگت بھی جب اصلی چاندی کی طرح کچھ ہی عرصے میں ماند پڑنے لگتی ہے تو سب کی عقل ٹھکانے لگتی ہے ۔جیسے ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح ہر چمکتی چیز چاندی بھی نہیں ہوتی ۔جب سونا چاندی پہنچ سے دور ہوا تو انگور کھٹے ہیں کہ مصداق ایسے جملے سنائی دینے لگے۔
’’حیا خواتین کا زیور ہے۔‘‘
’’تعلیم ہی اصل زیور ہے۔‘‘
یہ سن سن کر بعض سادگی پسند خواتین نے زیور سے تعلق توڑ لیا، حیا اور تعلیم والے زیور سے۔ اب گہنے تو پہننے ہیں نا تو ضروت سے زائد کیوں ہوں ؟ کچھ خواتین یہ بھی سمجھتی ہیں:
’’ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی۔‘‘ تب ہی وہ اپنی خوبیوں پر نازاں شرم و حیا کو پاس نہیں پھٹکنے دیتیں۔ بعض مرد حضرات کو اس پر اکثر اعتراض رہتا ہے کہ ہر قسم کا زیور خواتین کے لیے ہی کیوں؟بھئی اگر خواتین رانی ہیں تو وہ بھی تو راجا ہیں ، انہیں بھی آرائش کا حق ہے، سو وہ بھی ہر طرح کے زیور سے آراستہ رہنے لگے۔
پہلے وقتوں میں اماں کو لڑکی پسند آتی توجھٹ ہاتھ سے انگوٹھی یا کنگن اتار کر نشانی کے طور پر پہنا دیتیں، لیں بہو مانگ لی گئی اور آج کل یہ کام لڑکے خود کرتے ہیں ۔ جب منگنی کا دل چاہا، لڑکی کو انگوٹھی اتار کر پہنا دی ۔ اپنی افتاد طبع سے یہ لڑکے بہ خوبی آگاہ ہیں ، تب ہی ہاتھ میں ایک وقت میں کئی کئی انگوٹھیاں پہنتے ہیں اور وہ بھی آرٹیفیشل ۔ یوں تو آج کل کی لڑکیاں بھی کم نہیں،سونے کا پانی چڑھا نقلی زیور لے کر بے وقوف بننے کی بجائے ادا سے فرمائش کرتی ہیں:
’’ڈارلنگ اپنا آئی فون دے دو مجھے، اس میں تمہارے ہاتھوں کی خوش بو بسی ہے۔‘‘ اب ڈارلنگ انہیں کیا بتائے کہ صرف ہاتھوں کی خوش بو نہیں بلکہ پوری کی پوری خوش بو اپنی ہوش ربا تصاویر کے ساتھ اس میں بسی ہے ۔
حقوقِ مرداں کے دعوے دار بعض حضرات تو لباس میں بھی خواتین کا مقابلہ کرتے ہیں اور ’’مرد اور عورت برابر ہیں‘‘ کا نعرہ بلند کرتے لہنگے اور دوپٹے پہن کر ریمپ پر گھومتے ہیں ۔اب جنہیں خواتین کے مردانہ کپڑے پہننے پر اعتراض نہیں ، وہ ان پر کیوں انگلی اٹھاتے ہیں ۔ یہ رواج ابھی ریمپ سے معاشرے میں نہیں آیا لیکن دیکھا جائے تو یہ بھی آج کل کی بڑھتی مہنگائی سے مقابلے کی ہی صورت ہے ۔ گھر میں الگ الگ کپڑوں کی ضرورت نہیں ،کبھی شوہر صاحب بیگم کی ساڑھی پہن گئے تو کبھی بیگم صاحبہ جینز، ٹی شرٹ پہن گئیں ۔اس سے پیار بڑھے گا اور خرچا گھٹے گا بلکہ جن خواتین کو شکوہ رہتا ہے کہ ہمارے شوہر دوپٹے پیکو کروانے نہیں لے جاتے، ان کا مسئلہ بھی حل ہو گا ۔ جب صاحب نے اگلے دن پہننا ہو گا تو خود ہی ٹیلر اور پیکو والے کے چکر کاٹیں گے اور ملک میں برابری کی سطح بھی جنم لے گی ۔ میاں بیوی میں اتفاق بڑھے گا تو نئی نسل پر سکون ماحول میں پروان چڑھے گی اور ملک بھی ترقی کرے گا۔ یوں کہانیوں کی طرح سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ اب اگر ایسے میں چند پرانے خیالات کے لوگ مردوں کا یہ حق تسلیم کرنے میں ناک بھوں چڑھائیں بھی تو ان تنگ نظر لوگوں کے رونے پرملکی ترقی تو قربان نہیں کی جا سکتی نا۔ آخر ہمارے جوانوں نے بھی دنیا کے ساتھ چلنا ہے ۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پھوہڑ — ثمینہ طاہر بٹ

Read Next

گھر — مدیحہ ریاض

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!