راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

”رنجیت سنگھ کے ساتھ ہم اپنے چھورے بھی بھیج دیوے گیں۔ رات کے کھانے کی دیری ہے بس اب۔” پتھر کے میزسمیت سبھی بے جان چیزوں نے چا ہا کہ وہ سننے کی صلاحیت سے محر وم ہو جائیں ۔ محفل کب برخاست ہوئی اورکب وہ کھیتوں میں نکلا اپنے دکھ میں، اس نے دھیان نہیں دیا۔ وہ شاید کبھی بھی ایسی جی داری نہیں دکھاسکتا تھا۔ مایوسی میں ڈبکیاں کھاتے دل نے سجھا یا کہ وہ رات کھانے کے وقت غائب بھی ہو سکتا ہے۔اب باپو کے جوتے کے ڈر سے وہ دیدی کو یونیورسٹی جانے سے تو نہیں روک سکتا تھا اور نہ ہی پچھلے گودام والے کمرے میں بند کر سکتا تھا۔اس نے دیدی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ چودہ سال کا ہو کر بھی اسے گودام سے نکلنے والی بلی سے ڈر لگتا ہے جس کہ ڈر سے چھوٹے ہوتے اسکول جایا کرتا تھا اوروہ بلی جو کبھی بھی اس کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔اس کے اس رات گھر نہ جانے ،اگلے دن ساون کے گھر چھپے رہنے اور اگلی رات دیدی کہ آ کر جگانے، کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بھاگنا، اپنے پیچھے سنائی پڑتے قدموں کی دھمک میں دیدی کہ خراب حالت کی وجہ بھی نہ پوچھ پانا۔ اگلے سارے منظر دھندلے سے دکھائی پڑ رہے تھے۔
٭…٭…٭
کچھ الفاظ بدلے ہیں
رسمیں اب بھی باقی ہیں
بس انداز بدلے ہیں
دفنائی اب بھی جاتی ہیں
یقتور نے اپنی موندی موندی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ کمرے میں کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ فرش، چھت، زندہ اانسانوں کے جلتے جسم اور ہوا میں موجود عناصر کی مقدار ۔باقی لوگوں کے بر عکس اس کی یادداشت جسے وہ بد ترین یادداشت کہا کرتی تھی، جانے کیوں اس وقت بالکل ٹھیک کام کر رہی تھی۔ اسے سب ٹھیک ٹھیک یاد تھا ۔ جلتے گوشت کی سرخ رنگت اسے یاد دلا رہی کہ اسے اور ارسلان کو اس دن اپنی شادی کا جوڑا پسند کرنے جانا تھا بلکہ اس نے پسند کرنا تھا اورارسلان نے قیمت ادا تھی۔ وہ اپنا عروسی جوڑا ایسا بنوانا چاہتی تھی جو مشرقی اور مغربی روایتی جوڑے کا امتزاج ہو، بالکل اس کی اپنی شخصیت کی طرح جو مغرب میں رہتی تھی اور وہاں کسی سے پیچھے نہیں تھی مگر اپنی بنیادی اور مشرقی اقدار کا اسے ہمیشہ سے پاس تھا۔ وہ یہیں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی تھی۔ پاکستان تو وہ بس کبھی کبھار چھٹیوں میں ہی گئی تھی مگر پھر بھی وہاں کی اقدار سے واقف ضرور تھی ۔ وہ بھی تھینکس ٹو باباجو کافی سال پہلے امریکا آئے، یہیں ایک ترک خاتون سے شادی کی اور پھر یہیں کہ ہو بھی رہے مگر اپنا ملک اپنی روایات انہیں سب ابھی بھی بہت پیاری تھیں۔ اسے ان کے اپنی روایات کو گلے لگائے رکھنے پہ قطعاً کوئی اعتراض نہیں تھا مگر خود کو ان کے اس شوق کی بھینٹ بہرحا ل اسے نہیں چڑھنا تھا۔وہ امریکا میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی۔ وہ ہر دوسری چیز سے پہلے امریکن تھی۔ جیسے بابا یہ بات نہیں سمجھ پا رہے تھے ویسے ہی انہیں وہ یہ بھی نہیں سمجھا پا رہی تھی کہ اب وہ واپس پاکستان شادی نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہاں ایڈجسٹ ہو سکتی ہے۔




یہاں جب برگر لینے کے لیے ہم قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے پیچھے فیس بک کا مالک بھی کھڑا ہو وہ اپنی باری آنے تک لائن میں ہی کھڑا رہے گا۔ ہم یہاں سب برابر ہیں۔” اس نے بہت اعتماد سے اپنی دوست سے کہا تھا۔
”میں کلاس سوسائٹی کے چکر میں کسی پاکستانی نمونے سے شادی نہیں کر سکتی۔” اس نے اضافہ کیا تھا۔اس کے دوست، ایجوکیشن اور بچپن سب یہیں پر تھا۔ بابا کے بر خلاف وہ اپنی جڑیں برصغیر میں نہیں سمجھتی تھی۔ وہ پلی بڑھی یہیں تھی، بوڑھا بھی یہیں ہونا چاہتی تھی اور یہ خواہش ریحان کے ساتھ بوڑھا ہونے کی خواہش میں کب بدلی، وہ نہیں جان سکی۔ریحان جو اس کا یونیورسٹی فیلو تھا اور وہ جو اپنے سرکل میں اپنے بات کرنے کے انداز سے پہچانی جاتی تھی، کو لگتا تھا یہاں آکر الفاظ ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں یا شاید سارے الفاظ ہیچ لگنے لگتے تھے۔وہ پریکٹیکل اپروچ والی لڑکی تھی اور رومینٹک فینٹیسز سے اس کے لیے نہیں تھیں، اس کا اپنے بارے میں یہ ہی خیال تھا ۔اس دن سے پہلے جب ریحان نے کاریڈور میں روک کر پوچھا تھا اگر وہ کمیٹڈ یا انگیجڈ نہیں تو کیا وہ اپنے پیرنٹس کو ان کے گھر بھجوا سکتاہے ؟اور اُسی دن کے بعد پہلی بار پتا چلا کہ وہ بھی پاکستانی ڈراموں کی ہیروئن کی طرح نروس ہو سکتی ہے اوربھی کئی نئی باتیں تھیں جن کا ادراک اسے دن کے بعد ہوا۔ جیسے محبت نامی شے انسان کو عقل سے پیدل کرے، ایسا قصے کہانیوں کی دنیا سے باہر بھی ممکن ہے ۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان سے بابا کے رشتے کو انکار کیے سال ہونے کو تھا۔ جب اس نے ریحان سے پوچھا تھا کہ وہ دوبارہ کب تک پرپوزل بھجوا رہاہے ۔پہلی بار باباکے اسی رشتے دارکی وجہ سے انکار کیا گیا تھا جسے بغیر دیکھے ہی بابا کو اس کے ولی ہونے کا یقین تھا۔اس سے آگے کا جو منظر اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا، وہ اس وقت بند آنکھوں سے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اس لیے اس نے سر گھما کر اطراف میں دیکھا ۔وہاں موجود لوگوں کی آنکھوں سے جھانکتی ویرانی کے علاوہ ان میں مشترکہ چیز ان کے گلے میں موجود اسٹوڈنٹ کارڈسے مشابہت رکھنے والے کارڈز موجود تھے جن پرغالباً ان کی آبائی زبانوں میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ اس نے اس لفظ کو پڑھنے پر اپنے اردگرد موجود دوسری چیزوں کو سوچنے پر ترجیح دی۔ یہاں موجود چیزوں کی ماہیئت نے اسے بتایا کہ وہ کائنات کے جس حصے میں موجودہے، وہ سیارہ زمین سے بالکل مختلف ہے۔تبھی ان کے جلتے جسم تکلیف کا سبب نہیں بن رہے تھے۔یہ ہوش میں آنے سے اب تک پہلی بار اسے کسی ان ہونی کے احساس سے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی۔
٭…٭…٭
جیا نے اپنی جلن سے لدی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ میری اس تحریر کے باقی کرداروں کے برعکس اس کے دماغ میں نہ تو اپنی یادداشت کا خیال تھا، نہ ہی اس بات کی فکر کہ وہ کائنات کہ کس خطے پر موجود ہے کہ اس کی آنکھوں کو جلے ہوئے خو ابوں کی راکھ دان کی گئی ہے ۔ ایسی آنکھیں جنہیں دیکھ کر قافلوں کے راہ بھول جانے کے قصے ہم نے فیری ٹیلزمیں پڑھا ہے۔ وہ ان ہی خوب صورت شہزادیوں جیسی دکھتی تھی جنہیں دیکھ کر دوردیس کے شہزادے اجنبی راہوں کی مسافت پر راضی ہو جایا کرتے ہیں۔جس کی آواز سن کر قافلے دور صحرائوں میں اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھیں۔مگرمیں تمہیں بتائوں کہ یہ فیری ٹیل نہیں ہے۔ اس قصے کی ہیروئن شہزادی بھی نہیں ہے اور کیامیں تمہیں اس قصے کا ایک اور راز بتائوں؟ وہ شہزادی نہیں تھی، اگر ہوتی تو اس قسم کی جو خود شہزادے کی خاطر در در کی خاک چھاننے پر راضی ہو جاتی۔ ہاں اس داستان میں ایک شے فیری ٹیلز کی دنیا جیسی ہی ہے ۔شہزادے کے لہجے میں ایساطلسم جو اس داستان گو کے لہجے میں ہوتا ہے جسے سننے کے لیے لوگ اپنی راتوںکا سکون تیاگ کر مشعلوں کی روشنی میں آیا کرتے ہیں۔ اگلے دن چڑھتے سورج کہ ساتھ عہد باندھتے ہیں کہ اب اس ساحر کی محفل میں نہیں جائیں گے اوراگلی رات پھر وہ سحر انہیں اپنے آپ سے بغاوت پر آمادہ کر دے۔ اسے بھی کر دیاتھا۔ اس نے انجام جانتے ہوئے بھی سب خدشات کے ساتھ اس راہ کا مسافر ہونا چنا تھا۔جب لاسٹ سیمسٹر کے آخری دنوں میں ذیشان نے اس سے پوچھا وہ اپنے پیرنٹس کو اس کے گھر بھیجے، تو اسے لگا تپتی دوپہر میں یکایک ابرِباراں نے اسے ڈھانپ لیاہو۔ اردگرد موجود ہوا نے بہار کی آمد کا اعلان یوں کیا ہو جیسے رعایا کی دل پسند شہزادی کی آمد پر کیاجاتاہے۔
٭…٭…٭
رنجیت سنگھ کی آنکھیں وہ دھندلے منظر صاف دیکھ سکتی تھیں جنہیں دیکھنا نہیں چاہتی تھیں۔ دیدی اور وہ اپنے پیچھے بھاگتے قدموں کی دھمک سنتے اور بغیر یہ دیکھے کہ قدم کہاں پڑھ رہے ہیں، بس بھاگے جا رہے تھے۔ پیچھے انہیں اپنے ناموں کی آوازکے ساتھ گالیاں بہ خوبی سنائی پڑ رہی تھیں۔ اسے بھاگتے ہوئے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ پیچھے آنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں ہتھیار کیوں ہیں؟ تب بھی نہیں جب سر پہ لگنے والی گولی کے با عث اسے لگا کہ سارے جسم میں مرچیں بھر گئی ہوں۔اب اسے سامنے کی قطار میں دیدی بیٹھی نظر آ رہی تھی مگروہ اس سے پوچھنے نہیں اٹھا۔ پوچھنے کو کچھ رہا ہی نہیں تھا۔ اسے یاد تھا جب اس نے ایک بار تلخ لہجے میں بتایا تھا کہ آنر کلنگ میں خاندان کی عزت بچانے کے لیے معاونت نہ کرنے والے مردوں کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔
٭…٭…٭
نیلی آنکھوں والی لڑکی کے چہرے کی سرخی اب کالے رنگ میں ڈھلنے لگی تھی۔ جیسے غروب آفتاب کے وقت کی سرخی کالے بادلوں میں چھپنے لگے۔ آنکھوں کی نیلی رنگت پر بے بسی کا پیلا رنگ چھپاتی دکھائی پڑتی تھی اورٹوٹے خوابوں کی کرچیوں کی جھلک بتاتی تھیکہ یہ اپنی چبھن کا عکس خواب توڑنے والے کی آنکھوں میں بھی چھوڑیں گی اوراس نیلاہٹ کے پیچھے سے جھانکتی سرخی ماتم کناں دکھائی پڑتی کہ قطعاً بے ضرر خواب دیکھنے کی قیمت اتنی مہنگی کیوں پڑی۔وہ جو اپنا پوٹینشل لوگوں کے بھلے کے لیے استعمال کرناچاہتی تھی، اگراس نے ہم خیال شخص کو ہم سفربنانے کی خواہش پر عمل پیراہوئی تو کیا برا کیا؟ اس نے مذہبی اوراخلاقی اقدار تو نہیں توڑی تھیں جو وہ قابلِ مذمت ہوئی۔ وہ جو جورڈن کی عورتوں کو اور اس سے آگے مڈل ایسٹ کی ہر عورت کو بتا نا چاہتی تھی کہ دنیا کے ہر لٹریچر میں ”گرل” لکھا جاتا ہے صرف ایک اللہ نے ”ال انفا” کہا ہے ، ”دا گرل۔” ”ال” جو تکریم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔وہ اللہ کے لیے خاص تھی۔ اسے اتنا ہی فخر تھا اس بات پہ ۔وہ جو غلامی کی حدوں کو چھوتے خیالات کی حامل عورتوں کی مددکرنا چا ہتی تھی، قبول ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ آنر کلنگ میں مارے جانے والے گروہ کا حصہ ہے ۔جن کے گلے میں سوسائٹی ”راندۂ درگاہ” ہونے کے کارڈ لٹکا کر اندھیری قبروں میں اس لیے اتارتی ہے کہ وہ اس سڑاند اٹھتے معاشرے کے معیارات پر پورے نہیں اترتے۔اردگرد موجود لوگوں میں رنگ و نسل یا قومیت کی کوئی قید نہیں تھی۔ سکھ، ہندواورعیسائی لڑکیاں تو وہ دیکھ ہی رہی تھی۔افغانستان، ترکی، مصر، سیریا اور تو اور اسرائیل کی بھی، گو کہ وہ کم تعداد میں تھیں۔ ہر دن غیرت کے نام پر قتل ہونے والی تیرہ عورتوں میں سے یہ ایک تھی اور ساتھ دکھائی پڑتے لڑکے ان علاقوں سے تھے جہاں خاندان کی عزت بچانے کو اپنی ہی عورتوں کو قتل کرنے کو تیار نہ ہونے والے کو بھی ساتھ ہی مار دیا جاتا ہے۔ان سب پر پڑتی اس کی نظریں غصے کی لپک میں اضافہ کر رہی تھی اور کچھ نہ کر پانے کی کڑھن، غصہ اوربے بسی نے لفظوں کی شکل اختیار کرلی۔
اے ربِ ذوالجلال! ان علاقوںکو جہنم کا نمونہ بنا دے، ان کی افواج اورعوام کو اس میں بھسم کر دے۔ہم زندگی کی پوری قوت سے ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ انہیں زندگی کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہو۔ربِ ذوالجلال! ان پر ہمیشہ کے لیے ویرانی مسلط رہے اور ان لفظوں پر آمین اس نے سب کے چہرے سے پڑھی۔ان علاقوں کی فضائوں نے ان لفظوں کو حقیقت کی شکل میں ڈھلتے دیکھا، جہاں جورڈن کے آسمان نے جس گھرکی بیٹی کو بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا تھا وہیں سے خاتونِ خانہ کو منہ ڈھانپے پولیس وین میں داخل ہوتے دیکھا، جو بیٹے کا الزام اپنے سر لے رہی تھی کہ یوں سزا کم ہوتی ہے اور یہی منظر ہو بہ ہو اس گروہ میں شامل پاکستانی فردکہ گھربھی دہرایا جا رہا تھا۔برطانیہ کے ٹی وی پر چلتی پریس کانفرس میں حقیقت سے آنکھیں بند کرکے سب مسلمانوں کا قصور قرار دیا جا رہاتھا۔ تار پر بیٹھے کوے سمیت باقی گواہان کو بھی بددعا کی زد میں آئے کسی کردار سے ہم دردی نہیں تھی۔
ہاں مگر یہ ہی منظر دیکھتے محلے والوں کے نظریات ان سے کافی مختلف تھے۔ انہیں اس سارے گھرانے پر ترس آرہا تھا جس کو ایک عورت کی وجہ سے یہ سب دیکھنا پڑا تھا۔
”اب ظاہر ہے کوئی نہ کوئی تو وجہ ہو گئی جو ماں اور بھائی نے مارا ،توبہ ایسی عورتوں کا یہ ہی انجام ہوا کرتا ہے۔” رشیدہ نے ساتھ کھڑی ہمسائی کو بتایا۔دونوں نے متفقہ انداز میں سر ہلایا۔اب اگلے کئی دنوں باتیں کرنے کو ایک دل چسپ موضوع ہاتھ لگا تھا جسے برسوں تک عبرت کا نشان بنے رہنا تھا، باقی لڑکیوں کے لیے، جن میں بہت سی کا انجام عبرت کا نشان بنے رہنا ہی تھا۔
جیا نے سرگھما کر دیکھا، اب ساتھ والی لڑکی سے آگ اس کا دامن پکڑ رہی تھی، مگر اسے کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا۔انہیں جہاں جانا تھا، وہاں دنیا کی غلاظتیں اتار کر ہی جانا تھا ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!