دیوانی — عطیہ خالد

”جب سے تم گئے سنا ہے معطر دیوانی ہو گئی۔تمہارے چچا نے تو اسی روز درمیان کا دروازہ میخیں ٹھوک کر بند کر دیا تھا اور بڑے دروازے کوپھلانگنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن سب یہی بتاتے ہیں کہ معطر دیوانی ہوگئی ہے۔”تائی نے سات سال بعد لوٹنے والے حزیم کو بتایا۔
”اماں آپ چچا، چچی سے بات تو کر کے دیکھیں۔اماں غلطی تو میری بھی تھی۔نہ میں ضد کرتا نہ چچا کو اتنا غصہ آتا۔ آپ لوگوںنے بھی مجھے نہ سمجھایا الٹا غلط بات پر میرا ساتھ دیا۔” حزیم تین سال بعد لوٹ آیا تھا۔ پاکستان آکر اسے پتا چلا تھا کہ معطر دیوانی ہو گئی ہے۔ حزیم چچا سے ملنے کے بجائے دکان پر فراز سے ملا۔فراز کو غصہ بے حد تھا، مگر اس نے اپنی سمجھ پر غصے کو غالب نہ آنے دیا۔اسے اپنی بہن سے دلی محبت اور ہمدردی تھی۔
شام میں اس نے من وعن حزیم کی بات اماں،ابا کو سامنے دہرا دی۔
”اماں سوچئے نا آپا کی زندگی کیا اسی طرح گزر ے گی۔ وہ ساری عمر یوں ہی خود سے باتیں کرتی رہیں گی۔”
”اور جو اس کا دیوانہ پن دیکھ کر حزیم نے کل کلاں کو نہ بسایا تو پھر…؟ اماں کی آواز میں اندیشے ہی اندیشے تھے۔”
”اماں،آپا کی بہتری ہونے کی امید اسی بات میں ہے کہ ان کی شادی ہو۔”اور رات مسکراتی ہوئی گڈو سے کھیلتی ہوئی معطر سے فراز نے پوچھا:
”آپا حزیم بھائی واپس آگئے ہیں۔”معطر نے یوں سوالیہ نگاہیں اٹھائیں جیسے کہتی ہو:
”وہ گیا ہی کب تھا؟”
”آپا ہم چاہتے ہیں آپ کی رخصتی ہو جائے۔”اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔




دو دن بعد ہی رخصتی کی تقریب رکھ لی گئی۔فروزی کامدار کرتے اور سنہری دوپٹے میں معطر کی چھب ہی نرالی تھی۔ حزیم نے چوری چوری کتنی ہی بار اس کی طرف دیکھا اور اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر مسکرادیا۔ رات جب وہ کمرے میں آیا تو معطر بیڈ پر نہیں تھی۔شاید ڈریسنگ روم میں تھی۔پردے کے اس طرف بھی روشنی تھی۔کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد وہ اسے آواز دیتا ہوا ڈریسنگ رو م میں چلا آیا، لیکن ڈریسنگ روم بھی خالی تھا۔واش روم کا دروازہ کھلا ہو اتھا وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔وہ گھبرا کر باہر نکلا ،بر آمدہ ،صحن سب خالی پڑا تھا۔’اماں’ کا کمرا بند تھا۔اس نے باورچی خانے اور غسل خانے میں بھی جھانک لیا۔
”کہاں چلی گئی؟” مہمانوں کو رخصت کرنے سے قبل وہ خود اس کو کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔چاروں طرف گھومتی اس کی نظر چچا اور اپنے گھر کی درمیانی دیوار پر پڑی۔دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔ وہ تیزی سے اس طرف آیا۔ کیا وہ واپس گھر چلی گئی تھی؟اگر ہاں۔ تو کیوں؟
حزیم نے دروازے کے پٹ تھام کر چچا کے صحن میں نظر ڈالی۔وہاں مکمل خاموشی تھی۔سخت سردی کی وجہ سے سب لوگ اندر کمروں میں جا چکے تھے۔رات کا ایک بج چکا تھا۔ حزیم کی کنپٹیوں سے پسینا بہنے لگا۔ شدید پریشانی نے اس کے ہوش اُڑا دیے تھے۔ وہ چچا کی طرف آکر سوچ رہا تھا کہ کیا کرے کہ اُسے کو چھت پر آہٹ محسوس ہوئی۔ سنہرے زرتارآنچل کا کونا چھت کی منڈیر پر پڑا نظر آرہا تھا۔
”یہ معطر اس وقت چھت پر کیا کر رہی ہے۔”وہ سیڑھیاں پھلانگتا اس کے سر پر جا پہنچا۔
وہ سخت سردی سے بے پرواگھٹنوں پر اپنا سر رکھے فرش پر بیٹھی تھی۔ زرتار آنچل سار ے کا سارا اس کے پیچھے منڈیر پر جا پڑا تھا۔
”ہاں تو اتنے دن کیوں لگادیے تم نے۔”
”میں انتظار کرتی رہی تمہارا…” وہ نہ جانے کس سے باتیں کر رہی تھی۔حزیم کی پریشانی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔
”بس اب نہ جانے دوں گی تمہیں… بھلے سے اماںروکیں یا ابا جی ۔میں تمہارے ساتھ جاؤں گی۔”
”لو بھلا مجازی خدا کو ناراض کر لوں ماں باپ کے پیچھے…گناہ گار بن جاؤں…مجھے تو صرف تمہاری ماننی ہے ۔” حزیم با لکل ساتھ کھڑا تھا مگر اُسے کچھ خبر نہیں تھی۔حزیم نے آواز دی پھر آہستہ سے کندھا ہلایا۔وہ ایک دم چونکی اورخوف زدہ ہو گئی۔ پھر اٹھ کر بھاگنے لگی، تو حزیم نے کھینچ کر ساتھ لگالیا اور اسی حالت میں نیچے چلا آیا۔
وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی…”لوگوں کے لیے مجازی خدا کو ناراض کر لوں۔”
وہ اسے کھینچ کھانچ کر بستر پر لایا۔ اس کے یخ بستہ وجود کو لحاف میں چھپایا۔معطر تو چند لمحوں بعد ہی سو گئی مگر حزیم رات بھر جاگتا رہا۔یہ کیا کر بیٹھا تھا وہ اپنے ہاتھوں اپنی محبت کو اپنی معطر کو گنوا بیٹھا تھا۔ صبح تک وہ بخار میں پھنک رہی تھی۔ حزیم ڈاکٹر کو گھر بلا لایا۔ ڈاکٹر نے دوا دی اور یہ بھی کہا کہ سائیکا لوجسٹ کو دکھائیں۔ حزیم معطر کا بخار کم ہوتے ہی اُسے سائیکا ٹرسٹ کے پاس لے گیا۔
”ڈاکٹر صاحب یہ ٹھیک تو ہوجائے گی۔” حزیم کی پریشانی اس کے لہجے سے ہویدا تھی۔
”ان شاء اللہ بہت جلد…اگر بر وقت علاج معالجے پر توجہ دی جاتی تو… خیر ابھی بھی بہت امید ہے۔”ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق حزیم نے خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ تما م باتیں بنانے والے رشتہ داروں سے ملنا ملانا موقوف کر دیا۔معطر کی بے ربط باتوں اور خود کلامی کا اشتہار لگانا اسے بہت تکلیف دہ لگ رہا تھا۔اماں بھی ڈاکٹر کی ہدایت پر بھر پور عمل کر رہی تھیں۔معطر کی حالت دیکھ دیکھ کر ان کا دل کڑھتا۔ تین مہینے گزرے تو معطر کافی ہو شمندی کی باتیں کرنے لگی۔ کسی کسی وقت تو لگتا وہ با لکل ٹھیک ہے۔ انہی دنوں معطر کے امی ابا نے ان سب کو رات کھانے پر بلایا۔ کھانا کھا کر سب بیٹھے باتوں میں مشغول تھے۔ معطر کی بھابی کافی بنا لائی۔ کافی ختم کرتے ہی حزیم اٹھ کھڑا ہو ا اور بولا:
”آؤ معطر گھر چلیں۔”وہ فوراً اٹھی تو چچی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:
”آج یہیں رہ جاؤ معطر۔” اور بس جیسے انہونی ہو گئی۔معطر کی حالت غیر ہو گئی ،منہ سے کف نکلنے لگا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔ حزیم اور فراز اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگے۔ڈاکٹر نے فوری ٹرنکولائیزر انجکشن دے کر اسپتال میںایڈمٹ کر لیا ۔ان کا کہنا تھا جب وہ ہوش میں آئے گی تو با لکل ٹھیک ہوگی۔ یوں تو علاج طویل تھا، لیکن سوچ سمجھ کر کیا گیا یہ عمل ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق تھا اور خدا کے فضل سے مطلوبہ نتائج ملنے کی امید تھی سب کو معطر کے ہوش میں آنے کا انتظار تھا۔
٭…٭…٭
”حزیم آپ مانو کو پکڑیں میں ذرا جلدی سے چائے لے آؤں۔” معطر نے مانو کو حزیم کی طرف بڑھایا۔
”آجاؤ میری مانو میرے پاس۔”حزیم نے سات ماہ کی گول مٹول مانو کو اٹھا کر بھینچ لیا۔ یہ روسی بلی فریم کے ایک دوست نے گفٹ کی تھی۔
”چائے پی کر ڈاکٹر اعجاز کے کلینک کا چکر لگا لیا جائے؟”معطر نے چائے پیتے پیتے پوچھا۔
”خیر تو ہے۔طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟”حزیم نے فکر مندی سے پوچھا۔
”جی طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے، لیکن میرا وزن کافی بڑھ گیا ہے۔سوچتی ہوں ڈاکٹر سے مشورہ کر کے دوائی کم کر دوں۔کہیں بہت زیادہ موٹی نہ ہو جاؤں۔”
”ڈاکٹر اعجاز کی طرف ضرور چلتے ہیں، لیکن مجھے موٹی بیوی ہی پسند ہے۔”حزیم نے پیش بندی کی۔کیوں کہ اسے ڈاکٹر اعجاز بتا چکے تھے کہ ان دوائیوں سے وزن بڑھ جا تا ہے۔
”لیں بھلا کسی کو موٹی بیوی بھی پسند ہوتی ہے؟”
”مجھے تو بے حد پسند ہے۔”
حزیم نے چائے کا کپ رکھ کرمانو کو گود میں اٹھا لیا جو کہ سو چکی تھی۔اسے دادی کے پاس چھوڑ کر دونوں ڈاکٹر اعجاز کے کلینک کی طرف چل دیے۔
باتیں بنانے والے سارے خاندان کی پروا کیے بغیر حزیم نے اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرکے حقیقی جنت کو پالیاتھا۔ اس نے جان لیا کہ وجہ کوئی بھی ہو ذہن بھی بدن کی طرح بیمار ہو سکتا ہے اور اس کی شفا کے سامان بھی مولا کریم نے اتارے ہیں۔بس ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آخری کیس — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

باپ — (تحریر بجورنسٹرین بجورنسن – مترجم ایس چغتائی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!