دوسرے مسافر نے جواب دیا۔
وہ شخص قہقہہ لگا کر ہنسا پھر اس نے رکھائی سے پوچھا:
’’جواردار صاحب! آپ کو اپنے والد گرامی کا نام تو یاد ہو گا؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
دوسرے مسافر نے جواب دیا:
’’میرے والد کا نام غلام رحمان جواردار ہے۔‘‘
وہ شخص پھر ہنسا اوراچانک ہنسی روک کر برہمی سے بولا:
’’آپ کا دماغ تو صحیح ہے؟‘‘
دوسرا مسافر حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا:
’’کیوں؟‘‘
’’مجھے تو ایسا نہیں لگتا کہ آپ کا دماغ صحیح ہے۔‘‘
وہ شخص بولا۔
’’جوار دار خاندان کا کوئی گدھا بھی اس گاؤں میں نہیں ہے، آدمی ہونا تو دور کی بات ہے۔‘‘
’’تم جھوٹ بکتے ہو۔‘‘
دوسرے مسافر کو غصہ آگیا۔
’’یہ سب کچھ میرا ہے، سبھی کچھ میرا ہے، تم کون ہو؟‘‘
بات جب آپ سے تم تک جا پہنچی تو اس شخص کو بھی غصہ آگیا۔
’’زبان سنبھال کر شریفوں کی طرح بات کیجیے۔ میرا نام سلیمان ملک ہے۔ یہ اراضی، یہ باغ، یہ تالاب، یہ عمارت اور دالان جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، سب میرا ہے۔‘‘
’’خوب، تمہارے کہنے سے یہ سب تمہارا کیسے ہو گیا؟‘‘
دوسرے مسافر نے غصے سے کہا:
’’یہ سب کچھ میرا ہے۔‘‘
’’خاموش، دغا باز کہیں کا۔‘‘
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ شخص غصے سے غرایا۔
’’کیا کہا؟‘‘
دوسرا مسافر آپے سے باہر ہو گیا۔
’’میں اپنی چیز اپنی کہنے سے دغا باز ہو گیا؟‘‘
’’میں کہتا ہوں، یہاں سے چلے جاوؑ۔‘‘
وہ شخص بولا۔
’’اسی میں تمہاری بھلائی ہے، ورنہ مار کھانی پڑے گی اور ہاتھ میں ہتھ کڑی بھی لگ سکتی ہے۔‘‘
’’تم بکواس کر رہے ہو۔‘‘
دوسرے مسافر نے کہا۔
وہ شخص آگے بڑھ آیا، اس نے دوسرے مسافر کے گال پر ایک تھپڑ جڑ دیا۔ پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کرنے لگے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے دیکھ کر پہلا مسافر دونوں کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سلیمان ملک نے اس کا چہرہ دیکھ کر ہاتھ روک لیا۔
دوسرا مسافر چیخا: ’’یہ تمام جائیداد میری ہے۔ یہ سبھی کچھ میرا ہے۔‘‘
وہ شخص اسے طمانچہ مارنے کے لیے پھر آگے بڑھا مگر پہلا مسافر درمیان میں آگیا۔
دونوں کی چیخ پکار سن کر کچھ لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے آ پہنچے۔ ایک آدمی نے آگے بڑھ کر اس شخص سے کہا:
’’بڑے صاحب! میں آپ کی آواز سن کر بھاگتا ہوا آیا ہوں، کیا بات ہے؟‘‘
سلیمان ملک نے دوسرے مسافر کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’اس درویش کے پیچھے یہ جو ایک آدمی کھڑا ہے، یہ جواردار نہ ٹواردار، اس سالے کا یہاں کسی نے نام بھی نہیں سنا، کہتا ہے کہ یہ زمین جائیداد، باغ، تالاب اور مکان اس کا ہے، اس کی یہ ہمت؟‘‘
’’حکم دیجیے۔ میں ابھی اس سالے کا سر دو ٹکڑے کر دوں گا۔‘‘
لٹھ بند آدمی بولا۔
دوسرے مسافر نے حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی۔ پہلا مسافر آگے بڑھ آیا:
’’یہ میرے ہم سفر ہیں۔ زمین، جائیداد کا جھگڑا تو عدالت کے ذریعے طے ہو سکتا ہے، اس طرح قضیہ کرنا مناسب نہیں۔ میں انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں لیکن اس سے پہلے آپ سب کو ایک گانا سنانا چاہتا ہوں۔‘‘
سلیمان ملک کا غصہ فرو ہو گیا۔ اس نے کہا:
’’جناب درویش صاحب! آپ کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ بہت تھکے ہوئے ہیں۔ پہلے ناریل کا پانی پی لیجیے۔ پھر گانا سنائیے گا۔‘‘
’’نہیں بھائی میں بالکل تھکا ہوا نہیں ہوں۔‘‘
پہلے مسافر نے جواب دیا۔
’’مجھے بہت کم بھوک اور پیاس لگتی ہے۔‘‘
’’تو پھر بیٹھ جائیے۔‘‘
سلیمان ملک نے کہا۔
’’نہیں، مجھے کھڑے ہو کر گانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔‘‘
درویش گانے لگا:
اے انسان! اے میرے بھائی! اپنی عقل سے کام لو
تمہیں حال ہی میں ان مول چیزیں مل جائیں گی
جنت تو مرنے کے بعد ملے گی
یہ سن کر کسی کا دل خوش نہیں ہوتا
لالن کا کہنا ہے کہ باقی کے لالچ میں
وہ کون ہے جس نے اس دنیا میں
نقد حاصل کرنا چھوڑ دیا ہے۔
گرمی کی اس ڈھلتی ہوئی دوپہر میں دھوپ کی حدت نغمے کی آواز میں تحلیل ہو گئی اور اس کی نغمگی لوگوں کے دلوں میں لرزش پیدا کرنے لگی۔ بہت سارے لوگ جمع ہو گئے۔ کتنے ہی لوگ سروں کی نغمگی سے مسحور ہو کر اپنے کام دھندے چھوڑ کر وہاں آگئے تھے اور سب نغمہ سن کر مبہوت تھے۔
گانا ختم ہونے کے بعد سلیمان ملک نے پوچھا:
’’معاف کیجیے گا جناب! آپ کا نام؟‘‘
’’میرا نام لالن شاہ ہے۔‘‘
پہلے مسافر نے جواب دیا۔
’’آپ کا نام لالن فقیر ہے؟‘‘
ایک آدمی نے حیرت سے پوچھا۔
’’کشٹیا کے لالن فقیر؟‘‘
دوسرے نے تصدیق چاہی۔
’’ہاں بھائی!‘‘
پہلے مسافر نے جواب دیا۔
لالن فقیر کا نام سن کر تمام لوگوں میں ہل چل سی مچ گئی۔ ایک آدمی چیختا ہوا گاوؑں کی طرف دوڑنے لگا:
’’بھائیو! سنو، لالن فقیر واپس آگئے ہیں، لالن فقیر واپس آگئے ہیں۔ لوگو! جلدی سے یہاں آجاؤ۔ یہاں آکر گانا سنو، آؤ، اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر لو، آؤ، جلدی آؤ۔‘‘
ایک آدمی لالن کے قریب آکر بولا:
’’میں نے اپنے دادا سے آپ کا نام سنا تھا اور میرے دادا نے اپنے دادا سے آپ کا نام سنا تھا۔ ان سے میں نے آپ کا کلام بھی سنا تھا۔ اب ہم آپ کو یہاں سے نہیں جانے دیں گے۔ جہاں ہم کھڑے ہیں، یہاں جگہ بہت کم ہے۔ آپ گاؤں کے میدان میں چلیے۔ وہاں بہت زیادہ لوگ جمع ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’چلیے۔‘‘
پہلے مسافر نے کہا۔
لوگوں نے اسے کندھوں پر اٹھا لیا۔ وہ منت سماجت کرتا رہا لیکن کسی نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا۔ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا شاعر، ان کا مطرب پیدل چلے۔ چاروں طرف سے لوگ جوق در جوق چلے آرہے تھے۔
لالن شاہ نے کہا:
’’آپ لوگ میرے ہم سفر کا خیال رکھیے گا، وہ کہیں اس بھیڑ میں پس نہ جائے۔‘‘
لوگوں نے دوسرے مسافر کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے مسافر کے قریب ہی کھڑا تھا۔
ہزاروں آدمی دور دراز کی آبادیوں سے آتے رہے۔ سبھی مگن تھے اور بلند آواز میں اس امر پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ لالن فقیر لوٹ آیا ہے۔
گانے کی محفل دیر تک جمی رہی۔ لالن فقیر گاتا رہا۔ لوگ جھومتے رہے۔ موسیقی فضا میں اُبھرتی رہی۔ لوگ خاموش ہو گئے۔ ہر طرف سکوت چھا گیا۔ موسیقی اور شراب میں فرق ہی کتنا ہے؟
محفل کے بعد دوسرے مسافر نے پہلے کو مخاطب کیا:
’’شاعر بھائی!‘‘
’’کیا ہے جناب؟‘‘
’’میں تو سمجھا تھا کہ یہاں آکر تمہیں قیدی بننا پڑے گا۔‘‘
دوسرے مسافر نے کہا۔
’’یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘
پہلا مسافر بولا۔
’’میں وہاں سے یہ کہہ کر آیا ہوں کہ یہاں ایک دن سے زیادہ نہیں رکوں گا۔ آج صبح ہی مجھے اپنے ٹھکانے پہنچنا ہے۔ ایک دن کے لیے باہر نکلا تھا۔ اب صبح کا ستارہ طلوع ہو گیا ہے۔ چلو، ہم دونوں ہواؤں میں تحلیل ہو جائیں۔‘‘
’’میں بھی ایک ہی دن کی چھٹی لے کر دنیا دیکھنے آیا تھا۔‘‘
دوسرے مسافر نے کہا۔
’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘
’’مجھے یہاں کوئی بھی نہیں پہچانتا، کوئی میرا نام تک نہیں جانتا۔‘‘
دوسرے مسافر نے جواب دیا۔
’’اور کیا دیکھا؟‘‘
’’اور تو میں نے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
دوسرے نے جواب دیا۔
’’تم میں یہی سب سے بڑی خرابی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
دوسرے مسافر نے پوچھا۔
’’تم نے اور کچھ نہیں دیکھا؟‘‘
پہلے مسافر نے سوال کیا۔
’’کیا دیکھنے کی بات پوچھ رہے ہو؟‘‘
دوسرا مسافر بولا۔
پہلے مسافر نے غور سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا:
’’کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ ایک دن دنیا میں تمہارے پاس کتنا کچھ تھا اور تمہارے برعکس میرے پاس کچھ نہیں تھا، لیکن آج میرے پاس بہت کچھ ہے، تمہارے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});