وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔ بکھرے ہوئے لمبے گرد سے اٹے بال شانوں تک آرہے تھے۔ بڑھی ہوئی ڈاڑھی، مونچھیں، لمبی سی قمیص، کئی جگہوں سے ٹانکے لگی چپلیں اور ہاتھ میں لکڑی کا عصا جو دیگر عام ملنگوں کا حلیہ ہوتا ہے۔ عُمر میں جوانی کی منزل سے گزر کر اُدھیڑ عمری کے راستے میں پڑاؤ ڈالے دِکھتا تھا۔ عام ملنگوں سے انفرادیت کی بات یہ تھی کہ وہ گردو پیش سے بے نیاز چُپ چاپ چلا جارہا تھا۔ وہاں ’’اللہ کے نام پر دے دو بابا‘‘ والی کوئی صدا نہ تھی اور یہ بے نیازی تو اُس کی ادا میں شامل تھی ورنہ درحقیقت ہر چیز اُس کے دل و دماغ میں اُترتی جارہی تھی۔ غور سے دیکھا جاتا تو آنکھوں میں یاسیت تھی۔ صاف ستھری سڑک تھی۔ دونوں اطراف بنگلے بنے ہوئے تھے جن کے سامنے قیمتی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ سکون آمیز سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ان بڑے لوگوں کے مہنگے علاقوں میں ایسی ہی خاموشی اور سکون ہوتا ہے وہاں پہنچ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی میں ٹھہراؤ سا آگیا ہو۔ ان کی زندگیوں میں کتنا سکون ہے ہوتا ہے؟ کون جانتا ہے۔ وہ دو آنکھیں جو ملنگ کو دیکھ رہی تھیں اُن میں اُداس اور اضطراب ہلکورے لے رہا تھا۔ وہ ایک عالیشان بنگلے کے ادھ کُھلے دروازے میں کھڑی لڑکی تھی۔ خوبصورت، دلکش سراپے کی حامل، قیمتی لباس میں ملبوس، آنکھوں میں اُداسی لیے۔ تپتی دوپہر میں اُس گلی کے سو نے پن کی طرح اُس کے دل میں بھی سُونا پن تھا۔ وہ غور سے ملنگ کو دیکھ رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس ملنگ کی زندگی کتنی پرُ سکون ہے۔ اسے کسی چیز کی پروا نہیں۔ یہ اپنے حال میں مست اور راضی ہے۔ اس کی زندگی اسے ڈگر سے شروع ہوئی اور اسی ڈگر پر ختم ہوجائے گی۔ اُس کے ذہن میں کئی سوالات اُبھر رہے تھے۔ کیا یہ واقعی اپنے حال میں خوش ہے؟ کیا اس کے دل میں کبھی کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا ہوگا اور کوئی خواہش جنم نہ لی ہوگی؟ اس کو دل کی بے کلی نے کبھی بے چین نہیں کیا ہوگا؟ کیا کبھی اس کا دل اُچاٹ نہیں ہوتا اس زندگی سے؟ اُس کی بے چینی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اُس کی بے چینی گاہ بہ گاہ اُس کو پریشان کرتی۔ شاید یہ اُس کی فطرت کا حصہ تھی۔ فطرت یا عادت؟ ایک اور سوال اُس کے ذہن میں اُمڈ آیا تھا۔ اُس نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ عادت ہر بار انجام دینے کے بعد مزید پُختہ ہوجاتی ہے اور ایک مرحلے پر آکر یہ عادت فطرتِ ثاینہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ’’فطرت میں سب کی جبلتیں ہی ہوتی ہیں اور جبلتیں یکساں ہوتی ہیں۔ شاید یہ عادت ہے جو میری فطرت ثاینہ بن چُکی ہے‘‘ اپنے تئیں اُس نے فطرت و عادت کے جھگڑے کا مقفیہ کرلیا تھا۔ ایک عرصے سے اُسے شدت سے اس بے چینی کا احساس ہورہا تھا۔ اُس نے کئی بار اپنے دل سے اس بے چینی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت بھی وہ اس ادھیڑ بُن میں مصروف تھی۔ امیر کبیر خاندان سے تعلق رکھنے کے باعث کبھی دولت کی کمی نہیں رہی تھی۔ زندگی کی تمام ضروریات اور آسائشات دسترس میں تھیں۔ امیر باپ کے گھر سے شادی کرکے شوہر کے گھر آئی تو وہاں بھی دولت و قسمت کی دیوی مہربان رہی۔ دولت، بنگلہ، گاڑی سب کچھ دسترس میں تھا۔ سب سے بڑھ کر محبت کرنے والا شوہر جس کے دل اور گھر پر وہ بلاشرکت غیرے مالک تھی۔ اس کے باوجود یہ بے چینی، سمجھ سے بالاتر تھی۔ ’’آخر کون سا خلا ہے میرے وجود میں۔‘‘ اپنے اندر کی اس جنگ سے وہ عاجز آچکی تھی۔ رُوح کا کرب اُس کی سانسوں کو چھلنی کررہا تھا۔ اُس کا شوہر بھی اُس کے رویّے کو محسوس کرنے لگا تھا۔ اُس نے کئی دفعہ اُس سے جاننے کی کوشش بھی کی تھی اور سے سمجھایا بھی تھا۔ اُسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا تو وہ شوہر کو کیا بتاتی۔ آخر دل کا سکون کس چیز سے مشروط ہے۔ دنیا کی کوئی سائنس آج تک خواہشات کے پورا ہونے کے معیار کو جانچ نہ سکی۔ کبھی کبھی اُسے اس دنیا کی ہر چیز سے اُکتاہٹ ہونے لگتی۔ اُسے لگتا کہ اُس کی رُوح بدن کا قفس توڑ کر باہر نکل آئے گی۔ کئی بار اُس کے کچھ جاننے والوں نے کہا کہ اُسے کسی ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔ وہ سوچتی، ’’ماہر نفسیات؟‘‘۔ اس نے خود نفسیات و فلسفہ کی اتنی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں کہ اُس کے ذہن میں ان کا ایک ملغوبہ سا بن گیا تھا اور ملغوبہ میں سالم کیا چیز ملتی؟۔ شعور و لاشعور کے تجزیے میں اب اُس کو اپنا شعور کہیں کھویا ہوا محسوس ہوتا اور لاشعور کا تو پیدا کردہ یہ سارا عذاب تھا۔ کبھی اُلجھی ہوئی ڈوریں اتنی اُلجھی ہوئی نہیں ہوتیں۔ جتنی اُلجھی نظر آتی ہیں۔ اُن کا سلجھا نا آسان ہوتا ہے بس ذرا باریک بینی اور تحمل سے سرا ڈھونڈو۔ سلیقے اور ترتیب سے سُلجھانا شروع کرو ڈور سلجھتی چلی جاتی ہے لیکن نظریں دھوکا کھا جاتی ہیں۔ نظروں سے پہلے احساس دھوکا کھاتا ہے اور اُس اُلجھی ہوئی ڈور کو اُلجھن سے جلدی جلدی سلجھایا جاتا ہے۔ ڈور نہیں سلجھتی سلجھانے والا مزید اُلجھ جاتا ہے۔ وہ بھی الجھ گئی تھی لاینحل مضمون میں۔ کسی شے کی کوئی سمت مقرر ہیں تھی۔ احساسات و خیالات بے سمت پنچھی تھے جس جانب چاہتے اُڑتے جہاں چاہتے بسیرا کرتے۔ اُس وقت ملنگ کو دیکھتے دیکھتے اچانک اُس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔ شاید کوئی تصویر تھی جو کیمرے کے فریم میں آگئی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ میں نے کبھی خود کو صرف ایک ناظر کی منظر سے نہیں دیکھا۔ میں ہمیشہ یوں اُلجھی رہی کہ میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اپنا محسوس کرکے اپنی نظر سے دیکھا۔ مجھے اپنے آپ کو ایک ناظر کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ وہ کھڑے کھڑے اپنے اندر جھانکنے لگی۔ وہ اپنے اندر کا نظارہ اس طرح کررہی تھی کہ جیسے کسی دوسرے شخص کو دیکھا جائے یا فلم میں کوئی فلم دیکھے۔ جہاں ناظر اور منظر ایک نہیں ہوتے بلکہ دونوں کا وجود الگ الگ ہوتا ہے۔ ایک تماشا ہوتا ہے اور ایک تماشائی۔ گزرے وقت کی جب فلم چلنی شروع ہوئی تو پہلا منظر بچپن کا تھا۔ وہاں اُسے مالی لحاظ سے ایک خوش حال گھرانہ نظر آیا۔ اُس کے والد صبح اپنے ذاتی دفتر جاتے اور شام کو گھر لوٹ آتے۔ اُس کی ماں کم سِنی میں ہی فوت ہوگئی۔ وہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اُس کے باپ نے دوسری شادی کرلی لیکن ماں کی وفات کے بعد دوسرے ماں کے آنے سے اُسے خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ اُس کے وہی روز و شب رہے۔ سوتیلی ماں اور اُس کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ رہا تھا۔ سوتیلی ماں نے اُس سے کبھی محبت جتائی اور نہ اُس پر ظُلم کیا اور نہ ہی کبھی اُس کے امور میں مداخلت کی۔ اُس کا باپ شام کو گھر آتا تو کبھی اُس کا سامنا اپنے باپ سے ہوتا اور کبھی نہیں اور پھر کاروباری مصروفیت کے بعد اُس کا زیادہ تر وقت اپنی دوسری بیوی کے ساتھ گزرتا۔ لیکن اُس کے باپ نے کبھی اُس کی ضروریات میں کمی نہیں کی تھی۔ اچھے اسکول میں تعلیم پائی۔ خدمت کے لیے گھر میں نوکر چاکر تھے۔ ایک گورننس تھی جو اُس کے لیے مختص تھی۔ کمی رہی تو صرف باپ کی توجہ و شفقت اور ماں کی ممتا کی۔ وہ سارا وقت خود اپنے ساتھ یا پھر اپنی کتابوں کے ساتھ گزارتی۔ وقت بھی نجانے کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ وہ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی دہلیز پر آگئی اور اب وہ شادی کے بعد کسی کی توجہ کا مرکز بھی بن گئی تھی۔ شادی کے وقت اُس کے باپ نے اُسے بہت سا جہیز دیا تھا اور ہوش و حواس سنبھالنے کے بعد پہلی بار گلے بھی لگایا تھا۔ جس نے اپنی ساری زندگی۔ زندگی کو کامیاب اور پر آسائش بنانے اور پھر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ گزار دی تھی اور بھول گیا تھا کہ اُس کی ایک بیٹی بھی اُس کی توجہ کی مستحق ہے۔ شاید اُس کی نگاہ میں دولت و آسائشات محبت کا نعم البدل تھی۔ یوں صرف توجہ کی کمی کے علاوہ بچپن کی کوئی بڑی یاد نہیں تھی اُس کے ذہن میں۔ ’’شاید یہی خلا ہے میری زندگی میں۔ اُس نے سوچا۔ ’’یہ سب میرا ماضی ہے۔ موجودہ وقت میرا حال ہے۔ مجھے اپنے اندر کے اس طوفان پر قابو رکھنا ہوگا کہیں یہ میرے موجودہ وقت اور صحبت کو بھی ساتھ بہانہ لے جائے۔‘‘ جس لمحے اُس لڑکی نے اپنے اندر کی عدالت ختم کی اُسی لمحے وہ ملنگ اپنے دل پر جبر کر رہا تھا لیکن اُس کا مقدمہ ذرا مختلف تھا۔ وہ اپنے دل کو ان اونچے اور خوبصورت مکانوں کو دیکھ کر بہکنے سے روک رہا تھا۔ حسرتِ نا تمام اُس کی آنکھوں سے چھلکنے لگی تھی۔ وہ وہیں کنارے پر ایک درخت کے نیچے سستا کر دوبارہ اُٹھ رہا تھا۔ اُٹھ کر اُس نے ایک انگڑائی لی اور ڈنڈا اُٹھا کر چلنے کی تیاری کرنے لگا۔ لڑکی کی توجہ پھر اُس طرف ہوئی تو جانے اُس کے جی میں کیا آئی کہ جلدی سے اندر گئی اور جب باہر آئی تو اُس کے ایک ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا اور دوسری مٹھی میں ایک نوٹ بند تھا۔ اُس نے ملنگ کو آواز دی ملنگ جو آگے جاچکا تھا پلٹ کر دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا ہوا آیا۔ لڑکی نے پہلے پانی کا گلاس پیش کیا۔ ملنگ نے ایک نظر اُس کو دیکھا اور گلاس تھام لیا۔ وہ جب پانی پی چکا اور گلاس واپس کیا تو لڑکی نے دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا تو اُس کے ہاتھ میں پانچ سو ایک کڑک نوٹ گویا چمک رہا تھا۔ ملنگ کے چہرے پر حیرت نمودار ہوئی پھر اُس کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ اُبھری۔ نوٹ لے کر وہ اپنے رستے پر چل دیا۔ لڑکی بھی دروازہ بند کرکے گھر کے اندر چلی گئی لیکن ملنگ کے دل میں برسوں سے بُجھی پڑی آگ کی راکھ سُلگنا شروع ہوچکی تھی۔ وہ نوٹ دیکھتا، چلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اب وہ اس نوٹ کو خرچ نہیں کرے گا اور اپنے پاس سنبھال کررکھے گا۔
٭…٭…٭