حضرت داؤد علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو لوہے کی صنعت کا طریقہ بھی سکھایا۔ ارشاد ہوتا ہے:
’’نیز ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کردیا اور حکم دیا کہ کشادہ زر ہیں بناؤ اور (ان کے) حلقے جاڑنے میں اندازے کا خیال رکھو اور (اے آلِ داؤد ؑ ) نیک کام کیا کرو، بلاشبہ جو کچھ تم کرتے ہو میں انہیں خوب دیکھ رہا ہوں۔‘‘ آپؑ زر ہیں اپنے ہاتھ سے بناتے تاکہ دشمن کے ساتھ حملوں میں ان کی مدد سے محفوظ رہا جائے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں :
’’اللہ نے حضرت داؤدؑ کے لیے لوہے کو اتنا نرم کردیا تھا کہ آپؑ اسے ہاتھ سے بٹتے، آگ میں گرم کرنے اور کوٹنے کی ضرورت نہ پڑتی۔‘‘حضورؐ نے آپ کی خوبی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’پاکیزہ ترین رزق وہ ہے جسے ایک شخص اپنے ہاتھ سے کماتا ہے۔ اللہ کے نبی حضرت داؤدؑ اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔‘‘
آپؑ عبادتِ الٰہیمیں بہت مشغول رہتے۔ آپؑ کی نماز اور روزہ اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میرے متعلق رسولؐ اللہ کو یہ بات پہنچائی گئی کہ میں نے یہ کہا ہے :
’’ اللہ کی قسم! میں زندگی بھر ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا اور ہمیشہ راتوں کو قیام کیا کروں گا۔‘‘ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’ تم نے یہ کہا ہے کہ میں زندگی بھر ہمیشہ دن کو روزے رکھا کروں گا اور ہمیشہ راتوں کو قیام کیا کروں گا؟‘‘ میں نے جواب دیا:
’’جی یہی کہا ہے۔‘‘ فرمایا:
’’تم یہ نہیں کرسکو گے۔ یوں کرو کہ روزے رکھا کرو اور چھوڑا بھی کرو۔ راتوں کو قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو۔ ہفتے میں تین دن کے روزے رکھ لیا کرو۔ چوں کہ نیکی کا ثواب دس گنا ہے تو یہ ہمیشہ کے روزے رکھنے جیسی بات ہوجائے گی۔‘‘ میں عرض گزار ہوا:
’’ یارسولؐ اللہ! میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔‘‘اللہ کے نبی نے فرمایا:
’’تو ایک روزہ رکھ کر دو خالی چھوڑ دیا کرو۔‘‘ میں نے پھر عرض کی:
’’ میں اس سے زیادہ رکھ سکتا ہوں۔‘‘ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’تو ایک دن روزہ رکھو اور دوسرے دن نہ رکھو۔ یہ داؤدی روزہ ہے معتدل بھی۔‘‘ میں پھر عرض گزار ہوا:
’’ یا رسولؐ اللہ! میں اس سے زیادہ رکھ سکتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا:
’’اس سے زیادہ میں فضیلت نہیں ہے۔‘‘
داؤدی نماز اللہ تعالیٰ کو سب نمازوں سے زیادہ پسند ہے اور داؤدی روزہ اللہ تعالیٰ کو سب روزوں سے زیادہ پسند ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے پھر تہائی رات قیام کرتے۔ اس کے بعد باقی چھٹا حصہ بھی سوتے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیا کرتے۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: 
’’میرے پاس رسولؐ اللہ کو سوتے ہوئے سحر ہوئی۔‘‘
حضورؐ نے ارشاد فرمایا :
’’شب میں ایک وقت ایسا ہوتا کہ داؤدؑ اپنے اہلِ خانہ کو جگا دیتے اور فرماتے، اے آلِ داؤد! اُٹھو اور نماز ادا کرو کیوں کہ یہ وقت ایسا مقبول ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی طرف رجوع کرنے والے بندوں کی دعا قبول فرماتا ہے، سوائے جادوگر اور (ظلم سے) عشر وصول کرنے والے شخص کے۔‘‘ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے داؤد ؑ کا ذکر حضور نبی کریمؐ سے کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو جو بڑی قوتوں کا مالک تھا۔ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔‘‘ (سورۃ ص، آیت ۱۷)۔ 
اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بہت سی قوتیں عطا فرمائیں جن میں سے ایک جسمانی قوت ہے، جس کا مظاہرہ جالوت کے ساتھ جنگ میں آپؑ نے کیا۔ فوجی اور سیاسی قوت جس کی مدد سے آپؑ نے اردگرد کی غیر اسلامی قوتوں کو شکست دی۔ اخلاقی قوت جس کی وجہ سے انہوں نے خلافت و بادشاہی کے منصب کے باوجود تقویٰ اختیار کیا۔ عبادت کی قوت جس کی بہ دولت اتنی بڑی سلطنت کی فرما روائی کے باوجود اللہ کی پسندیدہ عبادت کی یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے اور روزانہ ایک تہائی رات عبادت میں گزارتے۔ امام بخاری اپنی تاریخ میں حضرت ابو الدَّرْداء کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت داؤدؑ کا ذکر آتا تو حضور کریمؐ فرماتے:
’’کَانَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ(وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے۔)‘‘
اللہ تعالیٰ حضرت داؤدؑ سے فرماتے ہیں:
’’اے داؤد ؑ ! ہم نے تجھے زمین پر خلیفہ بنایا ہے لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقیناًاُن کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے۔‘‘ (سورۃ ص، آیت ۲۶)
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو خلافت کی بھاری ذمہ داری سونپی لیکن ساتھ تنبیہ کی کہ امور کی نگہداشت اور عدل و انصاف کے معاملہ میں کوتاہی سرزد نہ ہو اور فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے میں نفس کی غلامی حاوی نہ ہو۔ حضرت ابو سعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’ قیامت کے روز اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ اور مجلسِ باری تعالیٰ میں سے سب سے قرب کا مستحق عادل امام ہوگا اور قیامت کے روز زیادہ عذاب کا مستحق ظالم ہوگا۔‘‘
اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں کہ انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ نور کے منبروں پر تشریف فرما ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ مقام انہیں نصیب ہوگا جو اپنے اہلِ خانہ میں انصاف کرتے تھے اور جس چیز پر انہیں امارت دی جاتی اس میں انصاف کرتے تھے۔‘‘
ایک مرتبہ دو آدمی حضرت داؤدؑ کی خدمت میں ایک گائے سے متعلق مقدمہ لے کر آئے۔ اُن میں سے ایک کا دعویٰ تھا کہ مدِمقابل نے گائے مجھے سے چھینی ہے جب کہ دوسرا شخص اس بات سے انکاری تھا۔ آپؑ معاملہ رات پر اٹھا رکھتے ہیں۔ رات کو بہ ذریعہ وحی آپ کو حکم ملتا ہے کہ مدعی کو قتل کردو۔ صبح کے وقت حضرت داؤدؑ مدعی سے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تجھے قتل کردیا جائے۔ اب میں تجھے قتل کروں گا۔ تیرے دعویٰ کی حقیقت کیا ہے؟ وہ بولا کہ اے اللہ کے نبی! اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اپنے دعوے میں درست ہوں۔ ہاں لیکن اس سے پہلے میں نے اس کے باپ کے کھیت سے غلہ لیا تھا۔ آپؑ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرما دیا اور وہ قتل کر دیاگیا۔ بنی اسرائیل پر حضرت داؤدؑ کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ آپ کے مطیع ہوگئے۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے بہ طورِ خاص حضرت داؤدؑ کو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کا حکم دیا۔ لیکن یہ ربِ کریم کی عطا ہے کہ حکمت و فہم جس کو چاہے عطا کرے۔ سورۃ الانبیاء میں ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’اور اسی نعمت سے ہم نے داؤد ؑ و سلیمانؑ کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جب کہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کررہے تھے جس میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں اور ہم اُن کی عدالت دیکھ رہے تھے۔ اس وقت صحیح فیصلہ سلیمانؑ کو سمجھا دیا، حالاں کہ حُکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیے تھے۔‘‘ (آیات: ۷۹۔۷۸)۔

Loading

Read Previous

 محمد علی ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!