حضرت داؤد علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

حضرت داؤد علیہ السلام

عمیرا علیم
ا

للہ تعالیٰ کے مقربین میں سے ایک نام حضرت داؤدؑ کا بھی ہے۔ اپنی نیک صفات کی بنا پر آپؑ کو حکومت اور نبوت دونوں عطا کی گئیں اور جیسی حکومت آپؑ کو نصیب ہوئی، وہ آپؑ سے پہلے کسی کو بھی نہ ملی۔
آپؑ پہلے بادشاہ نبی تھے۔ آپؑ کا شجرۂ نسب تیرھویں پشت میں حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ جا ملتا ہے۔ آپؑ کو بنی اسرائیل پر مبعوث کیا گیا۔ آپؑ کا قد چھوٹا، آنکھیں نیلی اور بال کمتھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پاک اور طاہر دل عطا فرمایا تھا۔
سورۃ البقرہ میں حضرت داؤدؑ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور قتل کردیا داؤد ؑ نے جالوت کو اور عطا فرمائی داؤد ؑ کو اللہ نے حکومت اور دانائی اور سکھا دیا اس کو جو چاہا۔‘‘
آپؑ سے پہلے نبوت اور بادشاہت کا سلسلہ اس طرح چلتا آرہا تھا کہ نبی ایک نسل سے مبعوث ہوتا اور بادشاہ دوسری نسل سے۔ جالوت کا قتل آپؑ کے ہاتھوں کروا کر اللہ تبارک تعالیٰ نے آپؑ کی ایسی دھاک بٹھائی کہ بنی اسرائیل آپؑ کے شیدائی ہوگئے کیوں کہ جالوت کی طاقت نے بنی اسرائیل کے دل میں خوف بٹھا رکھا تھا۔ جنگ کے دوران جب جالوت نے شہنشاہ طالوت کو للکار کر مقابلے کے لیے آنے کو کہا تو بادشاہ نے اپنے لشکر کو ترغیب دی کہ ان میں سے کوئی آئے اور اس کافر کا مقابلہ کرے۔ حضرت داؤدؑ نے اس دعوت کو قبول فرمایا اور جالوت کو قتل کردیا۔ بعد میں آپؑ بنی اسرائیل کے حاکم مقرر ہوئے۔ کچھ انبیا کرام مخصوص بستیوں کے لیے ہی مبعوث ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو وسیع حکومت عطا فرمائی اور آپؑ نے اپنی حکمت و دانائی سے بنی اسرائیل کی ازسرِنو تشکیل کی۔ تبھی تو حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے اتنا (فساد) نہیں روکتا جتنا بادشاہ کے ذریعے روکتا ہے۔‘‘
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور ہم نے داؤدؑ کو زبور دی۔‘‘ (آیت 163)۔ 
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’حضرت داؤدؑ پر قرآن (زبور) آسمان فرما دیا گیا تھا۔ یہ اپنی سواری کو تیار کرنے کا حکم دیتے اور سواری پر زین کس دی جائے اس سے پہلے ساری زبور پڑھ لیتے تھے اور صرف اپنے ہاتھ کی کمائی ہوئی روزی کھاتے تھے۔‘‘ (بخاری)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’بے شک ہم نے اپنی جناب سے داؤد ؑ کو بڑی فضیلت بخشی (ہم نے حکم دیا) اے پہاڑو! تسبیح کہو اس کے ساتھ مل کر اور پرندوں کو بھی یہی حکم دیا۔‘‘ پھر یہی بات سورۃ الانبیاء میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
’’اور ہم نے فرماں بردار بنادیا داؤد ؑ کا پہاڑوں اور پرندوں کو وہ سب ان کے ساتھ مل کر تسبیح کہا کرتے اور (یہ شان) ہم دینے والے تھے۔‘‘
سبحان اللہ! کیا شان عطا فرماتا ہے ربِ کعبہ اپنے رجوع کرنے والوں کو۔ پہاڑ اور پرندے آپ کے ساتھ مل کر اللہ کا ذکر کرتے اور اپنے رب کی شکر گزاری کرتے۔
آپؑ کی آواز بے حد خوب صورت تھی۔ ایسی آواز زمین پر کسی کو عطا نہیں کی گئی۔
آپؑ کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ پرندے آکر آپؑ کے ساتھ تسبیح میں شامل ہوتے تو پہاڑوں سے بھی ذکرِ الٰہی کی آوازیں آنے لگتی تھیں اور وہ سب صبح و شام رب تعالیٰ کی تسبیح کرتے۔ حضرت وہب ابن منبہؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کے کان میں ان کی آواز پڑ جاتی تو وہ رقص کے انداز میں اچھلنے کودنے لگتا۔ آپؑ زبور کی آیات کی ایسی خوب صورت آواز سے تلاوت کرتے کہ اُس کی مثال نہیں ملتی۔ جن وانس، چرند پرند سب آپ کی آواز سُننے کے لیے اکٹھے ہوجاتے حتیٰ کہ ان میں سے بعض تو بھوک کی وجہ سے مر جاتے مگر محل سے جانے کا نام نہ لیتے۔
امام احمد، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ایک مرتبہ حضرت موسیٰ بن الاشعری کو تلاوتِ قرآن پاک کرتے سنا توفرمایا:
’’ابو موسیٰؓ کو لحنِ داؤدی عطا کیا گیا ہے۔‘‘ 
علماء کرام فرماتے ہیں کہ روزِ قیامت حضرت داؤدؑ اللہ تعالیٰ کے پایۂ بخشش کے پاس کھڑے ہوں گے تو ارشاد ہوگا:
’’اے داؤد ؑ ! آج اسی طرح خوب صورت اور مترنم آواز میں میری مدح و ستائش کر جیسے دنیا میں کیا کرتا تھا۔ آپؑ فرمائیں گے اب یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تو نے تو وہ آواز مجھ سے لے لی ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ آج وہ آواز میں تجھے پھر سے واپس دیتا ہوں۔‘‘ حضرت داؤدؑ اس مہربانی پر بلند آواز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کریں گے تو اہلِ جنت کو تمام نعمتیں اس آواز کے مقابلے میں ہیچ محسوس ہوں گی۔

Loading

Read Previous

 محمد علی ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!