حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

حضرت سلیمان علیہ السلام

عمیرا علیم


حضرت سلیمان ؑ ، حضرت داؤد ؑ کے بیٹے تھے۔ آپ ؑ کا سلسلہ نسب چودھویں پشت میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ سے جاملتا ہے۔ آپ ؑ کو نبوت اور ملک دونوں عطاکیے گئے۔ آپ ؑ کی تعریف اللہ سبحان تعالیٰ نے سورۃ صٓ میں ان الفاظ میں فرمائی ہے: ’’اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا فرمایا‘ کیااچھا بندہ، بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔‘‘ پھر سورۃ نمل میں ارشاد فرمایا: ’’اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا۔ ‘‘ حضرت داؤد ؑ کے حضرت سلیمان ؑ کے علاوہ اور بھی بیٹے تھے۔ جو دنیاوی مال میں حصہ دار تھے۔ مفسرین کے مطابق یہاں مال کی وراثت مراد نہیں بلکہ وارث ہونے کامطلب نبوت اور خلافت کی جانشینی ہوسکتاہے۔ مالی وراثت کے متعلق حضر ت محمد ؐ نے واضح فرمایا ہے کہ ’’نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا، جو کچھ وہ چھوڑتا ہے وہ مسلمانوں فقراء اور مساکین میں تقسیم کیاجاتاہے۔‘‘
نبوت ایسی نعمتِ خداوندی ہے، جو رب تعالیٰ اپنے پاکیزہ اور چُنے ہوئے بندوں کو عطا کرتاہے اور حضرت سلیمان ؑ ان چیندہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ 
آپ ؑ کی مملکت فلسطین و مشرق اردن پر پھیلی ہوئی تھی اور ملک شام کا بھی کچھ حصہ اس میں شامل تھا۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ بہت نیک اور عابدہ خاتون تھیں۔ سلیمان ؑ کی والدہ کی بزرگی اور پاکیزگی کا اندازہ نبی پاکﷺ کی اس حدیثِ پاک سے لگایا جاسکتاہے جس میں آپﷺ نے فرمایا: ’’سلیمان بن داؤد کی والدہ نے ایک مرتبہ سلیمان ؑ کویہ نصیحت کی کہ بیٹا رات بھر نہ سوتے رہا کرو، رات کے اکثر حصے کو نیند میں گزارنا انسان کو قیامت کے دن اعمالِ خیر سے محتاج بنا دیتاہے۔ ‘‘
حضرت سلیمان ؑ کو اللہ تبارک تعالیٰ نے عظیم الشان نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ آپ کی مملکت بہت وسیع تھی۔ آپ کے لاؤ لشکر میں ایسے خدمت گار تھے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ عام بادشاہوں کی رعایا صرف انسانوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو آپ کے تابع کردیا تھا۔ یہ عنایات اس دعا کا ثمر تھیں جو حضرت سلیمان ؑ نے اپنے رب کی بارگاہ میں کی اور رب تعالیٰ نے اس کو قبولیت بخشی۔ سورۃ ص ٓ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’عرض کیا : میرے اللہ ! مجھے معاف فرمادے او رعطا فرما مجھے ایسی حکومت جو کسی کو میسر نہ ہو میرے بعد ۔ بے شک تو ہی بے اندازہ عطا کرنے والا ہے۔‘‘
دعا بار گاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی اور آپ نعمتوں سے مالا مال ہوئے۔ تبھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’(اے سلیمان ؑ !) یہ ہماری عطا ہے ‘ چاہے (کسی کو بخش کر) احسان کرچاہے اپنے پاس رکھ تم سے باز پرس نہ ہو گی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جن نعمتوں سے نوازا اُن پر آپ ؑ کو مکمل ملک عطا فرمائی اور خوش خبری سنائی۔ اب آپ ؑ اس کو جسے چاہیں عطا کریں اور جس کو چاہے اس سے محروم کریں۔ آپ ؑ سے کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ یہ ہے بادشاہ نبی کی شان۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا لفظ بالفظ قبول کی اور فی الواقع ایسی بادشاہی آپ ؑ کو عطا فرمائی، جو نہ اُن سے پہلے کسی کو ملی اور نہ ہی ان کے بعد کسی کو عطا ہوئی، جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’ایک شریر جن میرے پاس اچانک آیا تاکہ میری نماز تڑوادے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے پکڑ لیا ۔ میرا ارادہ ہوا کہ اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دوں، تاکہ تم سب اسے دیکھولیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی کہ اے رب ! مجھے ایسا ملک عطا فرما ۔ جو میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو۔ پس میں نے اسے ناکام لوٹا دیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ سورۃ ص ٓ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’قابلِ ذکر ہے وہ موقع جب شام کے وقت اس کے سامنے خوب سدھے ہوئے تیز رَو گھوڑے پیش کیے گئے تو اس نے کہا: ’’مَیں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے۔‘‘ یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو (اس نے حکم دیا کہ) انہیں واپس میرے پاس لاؤ۔‘‘ پھر لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے ۔ اور (دیکھو کہ) سلیمان ؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا او راس کی کُرسی پرایک جِسد لاکر ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا۔‘‘
مفسرین کے مطابق یہاں گھوڑوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا مقصود ہے کہ جب حضرت سلیمان ؑ کے سامنے اعلیٰ نسل کے گھوڑے پیش کیے گئے تو آپ ؑ نے فرمایا کہ یہ مال مجھے اپنی بڑائی یا اپنے نفس کی وجہ سے محبوب نہیں ہے بلکہ ان چیزوں میں دل چسپی کی وجہ اپنے رب کا کلمہ بلند کرنا ہے۔ پھرآپ ؑ نے گھوڑوں کی دوڑ کروائی اور وہ اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ حضرت سلیمان ؑ نے ان کو واپس طلب فرمایا۔ تو جب وہ گھوڑے واپس آئے تو آپ ؑ محبت سے ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے ۔ یہ بادشاہی سروسامان آپ ؑ کو دنیا کی خاطر نہیں بلکہ ر ب تعالیٰ کی شان بلند کرنے کے لیے پسند تھا۔ 
ابو داؤد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’نبی کریم ؐ غزوۂ تبوک یا غزوہ خیبر سے واپس آئے تو طاقچہ پر کپڑ اپڑا تھا‘ ہواچلنے سے وہ پردہ ہٹ گیا اور حضرت عائشہ صدیقہؓ جن گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں وہ نظر آنے لگیں ۔ حضور نبی کریم ؐ نے پوچھا : عائشہؓ یہ کیاہے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ ؐ میری گڑیاں ہیں۔ حضور نبی کریم ؐ نے دیکھا کہ درمیان میں ایک گھوڑا ہے جس کے پَر کپڑے سے بنائے گئے تھے۔ آپﷺ نے پوچھا : گڑیوں کے درمیان کیاہے؟ عرض کیا : گھوڑا ۔ آپ ؐ نے پوچھا: پَروں والا گھوڑا؟ عرض کیا: کیا آپ ؐ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان ؑ کے پاس ایک گھوڑ اتھا جس کے پَر تھے؟ آپ فرماتی ہیں کہ یہ سُن کر حضور ؐ ہنس دئیے حتیٰ کہ آپ کی داڑھریں مبارک نظر آنے لگیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’اور (دیکھوکہ) سلیمان ؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جَسد لا کر ڈال دیا ۔ پھر اس نے رجوع کیا۔‘‘
اس آیت کریمہ اور سابقہ آیت کریمہ کا اگر موازنہ کیا جائے تو دیکھا جاسکتاہے کہ اللہ جلِ شانہ نے اپنے محبوب بندوں کو اگر نعمتیں عطا کی ہیں تو ان کا محاسبہ بھی کیا۔ اور وہ بھی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے اور تائب ہو کر اللہ کے آگے جھکے اور اسی سے رجوع کیا۔ یہاں یہ سوال پید اہو اکہ وہ آزمائش کیا تھی اور کُرسی پر جَسد ڈالنے سے کیامراد ہوسکتی ہے۔ جس پرآپ ؑ نے توبہ کی ۔ مفسّرین نے اسکی مختلف تفصیلات بتائی ہیں ۔ کچھ اسرائیلی روایات ہیں ۔ کچھ ان سے منکر ہیں۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے آپ ؑ کو جس بھی آزمائش میں مبتلا کیے رکھا ۔آپ ؑ نے اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ کی ۔ معافی کی درخواست کی۔ ربِ کعبہ نے قرآن میں ان کی معافی کااعلان کیا۔ تبھی تو آپ ؑ نے وہ دعا کی تھی کہ ’’میرے اللہ! مجھے معاف فرمادے او رعطا فرمادے مجھے ایسی حکومت جو کسی کو میسر نہ ہو میرے بعد۔ بے شک تو ہی بے انداز عطا کرنے والا ہے۔‘‘ آگے ربِّ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ’’ ہم نے اس کے لیے ہو اکو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا اور شیاطین کو مسخر کردیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور اور دوسرے جو پابند سلاسل تھے۔‘‘
امام احمد ؒ ابو الد ہماء سے روایت کرتے ہیں کہ ابو قتادہ اور ابو الدھماء اکثر بیت المقدس کی طرف سفر کیا کرتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ ہم ایک خانہ بدوش سے ملے، اس نے ہمیں بتایا، کہ آپ ؐ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ علم سکھانے لگے ۔ آپ ؐ نے مجھ سے فرمایا: ’’جب تو کوئی ایسی چیز ترک کردے گا جس سے اللہ تعالیٰ نے تجھے بچنے کا حکم دیا ہے تو وہ تجھے ضرور اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر ہوا آپ کے لیے مسخر کردی۔ سورۃ نباء میں ہوا اور دوسری نعمتوں کے بارے میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیاہے۔ ’’اور ہم نے مسخر کردی سلیمان ؑ کے لیے ہوا، اس کی صبح کی منزل ایک ماہ کی ہوتی اور شام کی منزل ایک ماہ کی ہوتی اور ہم نے جاری کردیا ان کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ اور کئی جن (ان کے تابع کر دئیے) جوکام میں جُتے رہتے ان کے سامنے ان کے رب کے حکم سے ، اور جو سرتابی کرتا ان میں سے ہمارے حکم (کی تعمیل) سے تو ہم اسے چکھاتے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب ۔ وہ بناتے آپ کے لیے جوآپ چاہتے پختہ عمارتیں، مجسمے ، بڑے بڑے لگن جیسے حوض ہوں اور بھاری دیگیں جو چولہوں پر جمی رہتیں ۔ اے داؤد کے خاندان والو! (ان نعمتوں پر) شکر ادا کرو، اور بہت کم ہیں میرے بندوں میں جو شکر گزار ہیں۔‘‘
پھر سورۂ الانبیآء میں اس طرح ذکر فرمایا گیا : ’’اور سلیمان کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخرکردیا تھا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں، ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کاتابع بنادیاجو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگران ہم ہی تھے۔ ‘‘
قرآن میں اللہ تعالیٰ کی عنایات کاذکر ان الفاظ میں بیان ہوتاہے: ’’اور دیو بھی آپ کے لیے مسخر کردئیے گئے ، کچھ ان میں سے عمارتیں بناتے اور کچھ پانی میں غوطہ زن ہو کر لعل و جواہر نکال لاتے ۔ اور پانی کی تہہ سے ایسی ایسی قیمتی چیزیں نکال لاتے جو اس زمین پر پہلے موجود نہ ہوتیں۔‘‘
پھر فرمایا: ’’اگر ان میں سے جن سرکشی کرتے تو انہیں رو رو کر کے بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا۔‘‘
اللہ تبارک تعالیٰ نے ہوا آپ کے لیے مسخرکی جس میں سفر کرتے ہوئے آپ ؑ کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتاتھا۔ جب آپ ؑ سفر کاآغاز کرتے تو جاتے ہوئے بھی بادِ موافق ملتی اور واپسی پر بھی ۔ ہوا سے متعلق تین باتیں قرآن حکیم بتاتاہے۔
(ا) آپ ؑ ہوا پر مکمل اختیار رکھتے تھے۔
(ب) تند و تیز ہوا ئیں اللہ کی رضا سے بہت آرام و سکون سے چلتی تھیں۔
(ج) چونکہ ہوائیں آپ ؑ کے تابع امر تھیں اس لیے آپ ایک ماہ کا سفر صبح اور ایک ماہ کاسفر شام میں طے کرلیتے تھے۔ 
سورۂ نبآ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اُس نعمت کا بتایا ہے کہ انہوں نے سلیمان ؑ کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کیا تھا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ؑ کے لیے ایک چشمہ زمین سے پھوٹ نکلا تھا جس میں پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا۔ کچھ حضرات کرام کے مطابق آپ ؑ کے زمانے میں تانبے کو پگھلانے اور اس سے مختلف چیزیں بنانے کا کام اس قدر وسیع تھا گویا کہ وہاں تانبے کے چشمے جاری ہوں۔ (واللہ اعلم)
جنات ‘ شیاطین اور دیو آپ ؑ کے لیے مختلف خدمات سرانجام دیتے تھے۔ کچھ لوگ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان ؑ کے تابع مخلوقات میں جن اور شیاطین نہیں بلکہ آس پاس کی قوموں کے قوی ہیکل انسان تھے ۔ جو حضرت سلیمان ؑ کے لیے عمارتیں تعمیر کرتے تھے او رد وسرے بھاری بھرکم کام سرانجام دیتے تھے۔ اگریہ خیال درست مان لیاجائے تو پھر حضرت سلیمان ؑ کی سلطنت میں ایسی کونسی خوبی ہوگی جو ان کودوسروں سے ممتاز کرے۔ کیونکہ اہرام مصر سے لے کر موجودہ دور کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے والے انسان ہی تو ہیں۔ پھر کیافرق رہ جاتاہے۔ قرآن کریم میں یہ قصہ جس سیاق و سباق سے آتاہے اس سے یہ واضح ہے کہ در حقیقت جن ہی حضرت سلیمان ؑ کے لیے مسخر کیے گئے تھے اور جو نافرمانی کے مرتکب ہوتے ان کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ انسان کو جنوں اور شیاطین پر برتری دی گئی اور یہ ثابت کیا گیا کہ انسان واقعتا اشر ف المخلوقات ہے۔ آج کا انسان جنات سے خوف کھاتا ہے۔ انبیاء کرام بھی انسان ہی تھے لیکن ا س مخلوق پر ان کی برتری ان کے یقینِ کامل اور عقیدہ خداوندی کی پختگی کی وجہ سے تھی۔ ربِ کعبہ سے ڈر اور خوف نے اس کی مخلوقات کا خوف صالحین کے دلوں سے نکال دیا۔ تبھی تو وہ آزمائشوں پر صابر و شاکر رہے اور نعمتوں پر شکر گزار ہوئے۔ آلِ داؤد کو بطورِ خاص اللہ تعالیٰ نے مخاطب کرکے شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی ۔ پھر رب تعالیٰ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’ ہم نے داؤد و سلیمان کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔‘‘
طاقت ‘ دولت ‘ حشمت ‘ بادشاہی جن انسانوں کا نصیب بنی ان میں سے کچھ ہی شکر گزار ہوئے اور جو ناشکرے تھے وہی تکبر و غرور میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہوئے۔ سورۂ نمل میں جہاں حضرت داؤد اور حضر ت سلیمان ؑ کا تذکرہ ہوا اور اللہ سبحان تعالیٰ نے ان کی شکر گزاری کا بہ طورِ خاص تذکرہ فرمایا اس سے پہلے فرعون کا بھی ذکر کیا گیا۔ اگر تقابل کیا جائے تو واضح ہوتاہے کہ ان دونوں نبیوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جو نبوت اور بادشاہی کی صورت میں عطا کی گئی تھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کودوسرے مومنین پر فضیلت دی۔ درحقیقت وہ رحمتِ خداوندی سے اس کے حقدار ٹھہرے ۔ جبکہ فرعون ظلم وستم اور غرو ر و تکبر میں مبتلا ہو کر مفسدین میں شمار ہوا۔
ایک مرتبہ حضرت سلیمان ؑ بن داؤد ؑ اپنے لاؤ لشکر ‘ جس میں انسان ‘ جن ‘ چرند ‘ پرند اور ہر طرح کی مخلوق تھی‘ محوِ سفر تھے اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ رواں دواں تھے۔ آپ ؑ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچ گئے۔

Loading

Read Previous

حضرت داؤد علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Read Next

حضرت شعیب علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!