حصار —- نورالصباء

وہ لرزتے ہاتھ ہر دم ساجد کے لئے دعا گو رہتے تھے۔ وہ آنکھیںہر لمحہ ساجد کی خیر و عافیت کی دعائیں مانگتے مانگتے بھیگ جایا کرتی تھیں۔ وہ عورت آج بھی اپنے ہاتھوں سے سینچے اس درخت کو چشم تصور سے پھلتے پھولتے دیکھا کرتی تھی، مگر اب ان ہاتھوں کو کسی سہارے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ ان ہنرمند ہاتھوں نے بچوں کے لیے ادنی ٹوپیاں، سوئیٹر اور دستانے بنا کر بیچنا شروع کر دیئے تھے۔ بالکل اسی طرز اور ڈیزائن کے اونی سوئیٹر اور ٹوپیاں، جیسے وہ ساجد کے لئے بچپن میں محبت سے بنایا کرتی تھیں۔
اس دکھوں کی ماری ماں کے جھریوں بھرے ہاتھوں نے زندگی کے تمام ادوار دیکھے تھے مگر ضعیفی کا یہ دور کٹھن ترین تھا۔ ان ہاتھوں کی لرزش میں کچھ اور اضافہ ہو چکا تھا مگر ان ہاتھوں نے محبت کرنا نہیں چھوڑی تھی، دعا مانگنا نہیں چھوڑی تھی۔
ایک روز شام کے دھندلکے میں وہ کم زور ہاتھ بچت بازار کے سمٹنے سے پہلے ٹھیلوں سے گری خراب سبزیاں چھانٹ رہے تھے جب عمارہ بی بی کے کانوں نے ایک مانوس سی آواز سنی۔ ایک بچہ زور زور سے بازار کی بھیڑ میں رو رہا تھا۔
”س۔۔۔ساجد۔۔۔۔؟” عمارہ بی بی نے بے اختیار پکارا اور ادھر ادھر نگاہ دوڑانے لگی۔ اور پھرایک منظر دیکھنے کے بعد ان ہاتھوں سے سبزی کا تھیلا چھوٹ کر گر پڑا۔
٭…٭…٭





ساجد اور صائمہ کئی روز تک بیٹے کو ڈھونڈتے رہے۔ ساجد نے پولیس سے بھی رابطہ کیا تھا۔ اخبار میں بھی بیٹے کی گمشدگی کی خبر چھپوائی تھی اور بیٹے کو ڈھونڈ کر لانے والے کے لیے بڑی انعامی رقم کا بھی اعلان کروایا تھا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ صائمہ اپنے سر میں خاک ڈالتی، سینہ کوبی کرتی۔ بار بار سجدے میں گڑگڑاتی اور بیٹے کے واپس مل جانے کی دعائیں کرتی۔ ایک دن غم سے نڈھال ہو کر انتہائی مایوسی کے عالم میں ساجد اپنے دل میں ناسور بنتے اس ندامت کے آبلے کو چھیل بیٹھا جس نے اسے دن رات سولی پر لٹکا رکھا تھا۔
”سب میری وجہ سے ہوا ہے، سارا قصور میرا ہے۔ میری اماں جب سے گھر سے گئی ہیں، تب سے خوش نہ رہ سکا میں۔” ساجد اب آنسوئوں سے رونے لگا تھا، صائمہ بھی شرمندہ تھی۔ اماں کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کرنے والی وہی تھی۔ اس نے بھی اپنے گناہ کا دل ہی دل میں اعتراف کیا تھا۔
”حوصلہ رکھیں ساجد، اماں کو دوبارہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ شاید اللہ تعالی ہمیں معاف کر دے اور ہمارا بیٹا ہمیں واپس لوٹا دے۔”
”کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمارا سلوک ان کے ساتھ بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ اسی لئے وہ گھر چھوڑ گئیں۔ اب اگر مل بھی گئیں تو گھر واپس نہیں آئیں گی۔” ساجد نے مایوسی سے کہا تھا۔
”تمہیں پتا ہے صائمہ! ابا غصے کے بہت تیز تھے۔ بات بات پر اماں کو مارتے تھے، ذلیل کیا کرتے تھے۔ جب اماں سب سے چھپ کر رویا کرتی تھیں، تب میں ان کے پاس جا کر ان کے آنسو پونچھا کرتا تھا۔ اور وہ۔۔۔۔ مجھے لپٹا کر اور بھی زیادہ روتی تھیں، اور کہتی تھیں۔ میرا راجا بیٹا۔۔۔تو میرا غرور ہے۔ تو میری جینے کی وجہ ہے۔ اب دیکھو، میں نے ان سے ان کا غرور، ان کے جینے کی وجہ ہی چھین لی۔ دیکھو! کتنا نا لائق بیٹا ثابت ہوا میں ان کا۔ کتنا ظالم نکلا میں۔۔۔۔” کتنا بڑا احسان فراموش۔۔۔ ساجد یہ کہتے ہوئے بلک بلک کر رونے لگا تھا۔
ساری رات یوں ہی روتے رہنے کے بعد ساجد فجر کی نماز کے بعد تھک کر سو گیا تھا، جب کہ صائمہ کلامِ پاک کی تلاوت کر رہی تھی۔ اس کی پڑوسن نے اسے کچھ صورتیں تلاوت کرنے کا مشورہ دیا تھا اور یقین دلایا تھا کہ چند ہی روز کے اس عمل سے اس کا بیٹا واپس مل جائے گا۔
کلامِ پاک کے اوراق آنسوئوں سے بھیگتے جا رہے تھے اور وہ تلاوت کرتی جا رہی تھی۔ اس دن صائمہ نے اپنے بیٹے کی واپسی کے ساتھ ساتھ اپنی ساس کی واپسی کی دعا بھی سچے دل سے کی تھی۔ اسے اپنی ساری غلطیوں کو سدھارنے کا ایک موقع چاہئے تھا اور وہ شدت سے دعا مانگ رہی تھی۔
اسی لمحے دروازے پر گھنٹی بجی۔ صائمہ نے کلامِ پاک اٹھا کر رکھ دیا اور دوپٹے سے آنسو پونچھتی ہوئی دروازے پر آئی۔
دروازہ کھولا تو خوشی کے مارے اس کی زبان گنگ ہو گئی۔ اس کا منا اجلے لباس میں صحیح سلامت اس کے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ بے اختیار بیٹے کو اپنی آغوش میں لے کر رونے لگی۔ اس کے اتنی زور زور سے رونے کی آواز سُن کر ساجد بھی ہڑبڑا کر جاگ گیا اور دروازے پر آیا۔ اس نے بیٹے کو زندہ سلامت دیکھا تو خوشی سے پاگل ہی ہو گیا۔ وہ کبھی بیٹے کی پیشانی چومتا تو کبھی دستانوں میں ڈھکے اس کے ہاتھ تھام کر اس کے صحیح سلامت ہونے کا یقین کرنے کی کوشش کرتا۔ چند لمحوں کے بعد ان دونوں کے حواس بحال ہوئے تو ساجد نے ایک دھیان آتے ہی صائمہ سے پوچھا۔
”یہاں کون چھوڑ کر گیا ہمارے بیٹے کو؟”
”پتا نہیں! دروازے پر منے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اور میں اتنی جذباتی ہو گئی تھی کہ میں نے دروازے کے باہر گلی میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔” صائمہ بھی ساجد کے سوال پر چونکی تھی۔ اب وہ بھی یہی بات سوچنے لگی تھی کہ منے کو گھر پر کون چھوڑ کر گیا۔
منے کو ڈھونڈ کر لانے والے کے لئے اخبار میں اتنی بڑی رقم کا اعلان کیا گیا تھا کہ کوئی بھی وہ رقم حاصل کرنے کی طلب کرتا۔ مگر ان دونوں کو حیرت تھی کہ آخر وہ کون تھا جو اپنی شناخت مخفی رکھنا چاہتا تھا؟
اور پھر ساجد کا تجسس ایک ہی لمحے میں ہوا ہو گیا۔ وہ جانچتی نظروں سے منے کے سر پر پہنی اونی ٹوپی سوئیٹر، اور ہاتھوں میں پہنے چھوٹے چھوٹے اونی دستانوں کو ایسے چھو کر دیکھنے لگا جیسے پہلے بھی کبھی اس نے وہ دیکھ رکھے ہوں۔
اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ساجد اس سوئیٹر اور دستانوں کی بنت کو پہچان گیا تھا اور اپنے بیٹے کو بھینچ کر زار و قطار رونے لگا تھا۔
”اماں!” اس کے منہ سے خفیف سی آہ نکلی تھی اور صائمہ کی نگاہیں بے اختیار گھر سے باہر سنسان گلی کے آخری کونے تک کسی مہربان ہستی کے تعاقب میں گئی تھیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گردشِ طالع —- اسماء حسن

Read Next

محرمِ دل — نفیسہ عبدالرزاق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!