”اپنی اماں کو کچھ نہ کہئے گا، بس مجھ پر ہی چیختے رہئے گا۔” سارا دن اکیلی گھرکے کاموں میں لگی رہتی ہوں اور ایک آپ کی اماں ہیں، بیٹھے بیٹھے روٹیاں توڑتی رہتی ہیں۔” صائمہ بھی گھر کے کسی کونے سے برآمد ہوئی تھی اوردل کی بھڑاس نکال کر پیر پٹختی ہوئی منظر سے اوجھل ہوگئی تھی۔ ساجد بھی انتہائی غصے سے اماں کو بے آواز روتا چھوڑ کر کمرے سے چلا گیا تھا۔
ان نا تواں ہاتھوں کی عمر بھر کی ریاضت ضائع ہو گئی تھی۔ اس بد نصیب ماں کے ہاتھ روزِ اول کی طرح خالی رہ گئے تھے ۔۔۔بالکل خالی۔
٭…٭…٭
صائمہ کو دروازے کی چرچراہٹ بیڈ روم تک سنائی دی تھی مگر ساجد تھکن کی وجہ سے گہری نیند سو رہا تھا۔ شاید کوئی چور گھر میں گھس آیا تھا۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اماں بے وقت بھوک کی وجہ سے کچن میں بیٹھی ہنڈیا کا صفایا کر رہی ہوں۔ صائمہ نے پہلے سوچا کہ ساجد کو جگا دے، پھر سوچا کہ خود جا کر دیکھے کہ معاملہ کیا ہے۔
صائمہ کو یہ جان کر شدید حیرت ہوئی تھی کہ اس کا ہر اندازہ غلط نکلا تھا۔ رات کے آخری پہر ایک سایہ اماں کے کمرے سے نکل کر بیرونی دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔
”اماں اس وقت کہاں جا رہی ہیں؟” صائمہ کو پہلے حیرت ہوئی، پھر اماں کے ہاتھوں میں کپڑوں کی گٹھڑی دیکھ کر وہ ساری بات سمجھ گئی۔
”چلو اچھا ہوا، اماں کو خود ہی عقل آ گئی۔ جان چھوٹی روز روز کے جھگڑوں سے۔” صائمہ نے ایک تسکین آمیز گہری سانس خارج کی اور بیرونی دروازے کو اندر سے اچھی طرح مقفل کر کے واپس چین کی نیند سو گئی۔
عمارہ بی بی اس گھر کو چپ چاپ چھوڑ گئی تھیں۔ اس ماں کے ہاتھ گو کہ خالی تھے، نا تواں تھے مگر پھر بھی ہر پل اس گھر کے مکینوں کے لئے دعا گو تھے۔
”پتا نہیں اماں کہاں چلی گئیں، تم سے کچھ کہہ کر گئی تھیں؟” اگلے روز ساجد نے تھوڑا پریشان ہو کر صائمہ سے پوچھا تھا۔
”مجھے کیا پتا؟ وہ مجھ سے بات ہی کب کرتی تھیں؟ ہر وقت تو اپنے کمرے میں بند رہتی تھیں کہ کہیں میں انہیں کوئی کام ہی نہ پکڑا دوں۔ وہ تو بس کھانے کے وقت ڈائننگ ٹیبل پر پہنچ جاتی تھیں۔ جیسے گھر میں کام کرنے کے لئے انہوں نے نوکروں کی فوج۔۔۔۔”
”بکواس بند کرو! میری اماں کے بارے میں کس طرح بات کر رہی ہو تم؟” ساجد نے صائمہ کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے خاموش کرا دیا تھا۔ صائمہ ساجد کے اس بدلے ہوئے روئیے پر دم بہ خود رہ گئی تھی۔ ساجد کے دل میں ماں کی محبت بیدار ہو گئی تھی۔
”اماں! آپ کہاں چلی گئی ہیں؟ میں کہاں ڈھونڈوں گا آپ کو؟” ساجد نے زیرِ لب کہا اور گاڑی کی چابی اٹھائے گھر سے نکل گیا۔
عزیز، رشتہ دار، پڑوسی، محلے کے نزدیکی پارک، ہسپتال، مردہ خانے، دارالامان۔۔۔۔نہ جانے کہاں کہاں چکر کاٹتا پھر رہا تھا وہ۔ اور اس کی ماں اس سے ایسی ناراض ہو کر گئی تھی کہ جیسے کبھی اس کی شکل تک نہ دیکھے گی۔ ماں کی دعائوں سے محروم وہ تن آور درخت آہستہ آہستہ سوکھنے لگا تھا۔ اس درخت کو فکروں اور غموں کی دیمک نے چاٹنا شروع کر دیا تھا اور وہ حیران، پریشان سا اپنے سارے معاملات میں پہ در پہ نقصان ہوتے دیکھ رہا تھا۔
پہلے ملازمت چھن گئی۔ اس پر یہ عذاب نازل ہوا کہ ایک رات گھر میں شارٹ سرکٹ سے پرُاسرار آگ لگ گئی۔ اس کا لاکھوں کا نقصان ہو گیا مگر اس نے شکر بھیجا کہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا تھا۔
وہ ماں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا تھا۔ اسی سال اس کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ کافی مہینوں کے بعد اسے کوئی خوشی نصیب ہوئی تھی۔ اس کا بیٹا ہو بہ ہو اس کے عکس تھا۔ وہی آنکھیں، وہی ناک نقشہ۔ ساجد نے اپنے چاند جیسے بیٹے کا ماتھا چوم لیا اور اسے ہی اپنی خوشیوں کا محور بنا لیا۔ کئی ماہ اور گزر گئے۔ ماں کی تلاش گزرے دنوں کی کوئی بھولی بسری یاد بن گئی۔ ساجد اپنے بیٹے کی وجہ سے بہل گیا۔ جب اس کے بیٹے نے فرش پر اپنا پہلا لڑکھڑاتا قدم رکھا تب ساجد کا سینہ خوشی اور فخر کے احساس سے پھول گیا۔
”ارے صائمہ! جلدی آئو۔۔۔۔دیکھو۔ ہمارا بیٹا اب چلنا سیکھ گیا ہے۔”
صائمہ اس کی آواز پر کچن سے دوڑی چلی آئی تھی اور اپنے بیٹے کو اپنے قدموں پر چلتے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائی تھی۔
”ماشااللہ!” بے اختیار صائمہ نے آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو گود میں لے لیا تھا۔
”آج ہی صدقہ دیں ہمارے بیٹے کا۔” اس نے مسکراتے ہوئے ساجد سے کہا تھا۔
٭…٭…٭
”سردیاں آگئی ہیں، منے کو سردیوں کے کپڑے دلا دیں۔ ماشا اللہ بڑا ہو رہا ہے۔ پچھلے سال کے سردیوں کے کپڑے اور سوئیٹر اسے چھوٹے ہو گئے ہیں۔” صائمہ نے ایک صبح ناشتے کی میز پر ساجد سے کہا تھا۔
”اچھا کیا تم نے مجھے یاد دلا دیا، تمہیں بھی تو نئی شالیں لینی تھیں نا؟ آج شام دفتر سے آنے کے بعد ہم تینوں شاپنگ پر چلیں گے۔” ساجد نے بہ ظاہر عام سے لہجے میں اپنی بات کہی تھی مگر دل میں کوئی کسک سی جاگ اٹھی تھی۔
”نہ جانے اماں کیسی ہوں گی، کہاں ہوں گی؟ کیا انہیں ہر موسم کے لئے نئے کپڑے نصیب ہوتے ہوں گے؟؟” بس یہی سوچیں اسے گھلاتی رہتی تھیں۔
شام کو حسبِ وعدہ ساجد دفتر سے واپسی پر گھر آیا اور صائمہ کو صدا لگائی:
”جلدی سے چائے پلا دو، پھر شاپنگ کرنے چلتے ہیں۔ منا کہاں ہے؟” اس نے بیٹے کو گھر میں نہ پا کر سوال کیا تو صائمہ نے جواب دیا:
”ارے! ابھی تو صحن میں بیٹھا تھا اپنے طوطوں کے پنجرے کے پاس، وہاں نہیں ہے تو۔۔۔ شاید سیمی آپا کے بچے کھیلنے کے لئے پارک لے گئے ہوں گے۔”
سیمی آپا ان لوگوں کی پڑوسن تھیں۔ صائمہ کا جواب سن کر ساجد مطمئن ہو گیا اور چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگا۔ کافی دیر بعد بھی منا گھر واپس نہ آیا تو ساجد اور صائمہ کو تشویش ہوئی۔ ساجد نے سیمی آپا کے گھر کا رخ کیا تو پتا چلا کہ منا وہاں نہیں تھا۔ ساجد کی تلاش ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ پہلے ماں کی تلاش میں بھٹکتا پھرتا رہا تھا، اب بیٹے کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ مگر اب کی بار جو تڑپ تھی وہ پہلی تلاش میں نہیں محسوس کی تھی اس نے۔ ظاہر ہے، اس بار اس کے جگر کا ٹکڑا کھو گیا تھا۔ وہ اس بار تھک کر ہار ماننے والا نہیں تھا۔ صائمہ تو دکھ سے نڈھال ہوئی جاتی تھی۔ اس کا تو رو رو کر برا حال تھا۔ کوئی ماں اپنی اولاد کا دکھ جتنی شدت سے محسوس کرتی ہے، دنیا کا کوئی ذی روح اس تڑپ کو سمجھ نہیں سکتا۔ حتیٰ کہ کوئی دوسری ماں بھی اس دکھ کی شدت نہیں سمجھ سکتی جو اس وقت ایک دکھیاری ماں جھیلتی ہے جب وہ اپنی اولاد سے دور ہو جاتی ہے۔
٭…٭…٭