وہ اس کا اپنے گھر میں آخری دن تھا۔ ماں باپ نے اسے اچھی طرح باور کرا دیا تھا کہ رخصتی کے بعد اسے سسرال کو ہی اپنا گھر سمجھنا ہو گا۔ وہ ان لڑکیوں میں سے تھی جو جاتی ڈولی پر اور واپس ڈولے پر ہی سسرال کی دہلیز پار کرتی ہیں۔
”عمارہ بیٹی، کیا سوچ رہی ہو؟ دستخط کرو۔۔۔۔ مولوی صاحب انتظار کر رہے ہیں۔” ماں کی آواز پر وہ جیسے ہوش میں آئی تھی اور مستقبل کے اندیشوں میں گھری اس لڑکی نے کانپتے، لرزتے ہاتھوں سے نکاح نامے پر دستخط کر دیئے تھے۔
اس نے سسرال میں قدم رکھا تو طرح طرح کے امتحان راہ میں حائل ہوئے۔ کبھی اسے سانولے رنگ پر طعنے سننے پڑے تو کبھی معمول سے چھوٹے قد کی وجہ سے دیورانیوں اور جیٹھانیوں نے پھبتیاں کسیں۔ کبھی ساس نندوں نے اس کا جہیز پسند نہ آنے پر اس کی تذلیل کی تو کبھی شوہر نام دار کو اس کے ہاتھ کا پکا کھانا پسند نہ آیا۔
ایک دن یوں ہی کسی کاروباری مسئلہ میں الجھا، چڑچڑے مزاج والا اس کا شوہر گھر آیا تو کھانے میں ذرا سے نمک کی کسر رہ جانے پر بے جا الجھ پڑا۔
”یہ کیسا کھانا بنایا ہے؟ نہ نمک ہے نہ مرچ۔ کتے بھی نہیں کھاتے ایسا کھانا۔ دفع ہو جا میرے سامنے سے۔”
شوہر نے پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہی برتن فرش پر دے مارے تھے۔ اس کے بعد اس نے اپنے شوہر کی جھڑکیاں اور طعنے سُنے تھے اور لرزتے ہاتھوں سے فرش پر بکھری کانچ کی پلیٹوں کو سمیٹا تھا۔
اور پھر وہ اس بد سلوکی کی عادی بنتی گئی۔ ہر تھوڑے دن کے بعد اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا اور وہ خاموش بت بنی سب سہتی جاتی۔ بہت تھوڑے عرصے میں اس کی صحت تباہ ہو گئی تھی۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نمودار ہو گئے تھے اور ہاتھوں میں غیر معمولی لرزش پیدا ہو گئی تھی، جسے وہ سب سے چھپانے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے خود کو نہ سنبھالا تو شوہر اس کے سر پر سوتن لا بٹھائے گا۔ اسی لئے ہر روز وہ اپنے زخم خود ٹکورتی اور اپنی گہری اداسی کو بنائو سنگھار کے پیچھے چُھپا لیا کرتی۔
اس کا استحصال یونہی جاری رہا۔ سب اسے کمزور سمجھ کر زیر عتاب لاتے رہے، اس کی عزتِ نفس کو روندتے رہے۔ دن رات اس کے لرزتے ہاتھ گھر کے سینکڑوں کاموں میں مصروف رہتے۔ راتوں کو وہ جاگتی اور خدا سے اپنی بے وقعتی کے شکوے کیا کرتی۔
سسرال والوں کے مظالم کچھ اس لیے بھی بڑھ گئے تھے کیوں کہ اب تک اس کی گود خالی تھی۔ وہ مایوس نہیں تھی، اسے امید تھی کہ بیٹے کی پیدائش اس کے سسرال میں اس کی حیثیت بحال کردے گی۔ اس کے ناتواں ہاتھ سراپا دعا بن گئے پھر اس کی مراد بر آئی اور موت جیسی سختی جھیلنے کے بعد اس کے ہاتھوں نے ایک ننھے وجود کو تھاما۔
بیٹے کی خوشی اس کے لئے ویسی ہی تھی جیسے صحرا نورد کو کہیں طویل سفر میں نخلستان مل جاتا ہے۔ اس بیٹے کا نام گھر والوں نے ساجد رکھا تھا۔ اس کے بعد عمارہ کے آنگن میں کوئی دوسرا پھول نہ کھلا۔
وہ ہاتھ اس ننھے وجود کے لئے فرشتوں کے پروں جیسا حصار بنے رہتے۔ وہ ننھا وجود ان ہاتھوں کا چھالا تھا۔ سالہا سال ان ہاتھوں نے اس وجود کی پرورش کی اور اس پودے کو تناور درخت بنا دیا تھا۔ ان ہاتھوں نے دن رات ساجد کی نشو و نما کرتے کرتے اپنی رعنائیاں کھو دی تھیں۔
کئی سال تک ساجد کی خوشیوں پر اپنی خوشیاں قربان کرتے ان ہاتھوں نے ساجد کی دل و جان سے خدمت کی۔ پھر ساجد کی خواہش پر اس کے سر پر سہرا سجایا۔ وہ ہاتھ ہر روز ساجد کی دعا کے لئے اٹھتے تھے اور بہو کے گھر میں آ جانے کے بعد بھی ساجد کے سارے کام نپٹاتے نہ تھکتے تھے۔
کچھ ہی عرصے کے بعد عمارہ بی بی کے ہاتھوں سے اس کا شوہر اپنا ہاتھ چھڑا کر ابدی سفر پر چل پڑا۔ وہ نا تواں ہاتھ مزید ضعف کا شکار ہو گئے۔ اب ساجد پر ماں اور بیوی کی مکمل ذمہ داری آن پڑی تھی۔ وہ خرچوں کے طوفان سے بوکھلا گیا۔ جب تک ابا دکان پر بیٹھا کرتے تھے اماں کا خرچہ خود اٹھاتے تھے۔ مگر اب ساجد کو سارا خرچہ خود اٹھانا پڑ رہا تھا۔
اس وجہ سے اس کی بیوی بھی اس سے روز روز لڑنے لگی۔ صائمہ کو لگتا تھا کہ ساجد ساری تنخواہ اماں پر خرچ کر دیتا ہے۔
دن رات صائمہ اپنی ساس کو بے کار بیٹھنے کے طعنے دیتی اور جلی کٹی باتیں سناتی۔ عمارہ بی بی لرزتے ہاتھوں سے گھر کے سارے کام کرتی رہتیں تا کہ بہو کے شکوے دور کر سکیں مگر شاید بہو کو ان کی دو وقت کی روٹی بھی کھلتی تھی۔ اسی لئے اکثر صائمہ ساجد سے شکایت کرتی کہ دو وقت کا سالن اماں ایک ہی وقت میں کھا جاتی ہیں۔ پندرہ دن کا راشن ایک ہفتے میں ختم ہو جاتا ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
وہ لرزتے ہاتھ چپ چاپ تماشا دیکھتے اور حیران ہو کر سوچتے کہ کیا وہ وقت ان پر نہیں گزرا جب وہ ہاتھ ننھے ساجد کے چھوٹے بڑے کام کرتے کرتے گھس جایا کرتے تھے؟ کیا وہ وقت بہت پرانا ہو گیا جب وہ ہاتھ ساجد کی فرمائش پر کھانا بنا کر نوالے اس کے منہ میں ڈالتے تھے؟ کیا ساجد سب کچھ بھول گیا تھا؟ یا صائمہ کی ناراضی سے ڈر کر نا حق اسی کا ساتھ دیتا تھا؟
محبت سوال و جواب کی حاجت ختم کر دیتی ہے۔ ماں جب اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے تو اس سے یہ سوال نہیں کرتی کہ بچہ بڑا ہو کر وہی محبت اسے لوٹائے گا یا نہیں بلکہ ماں تو اپنی اولاد سے بے لوث محبت کرتی ہے۔ دنیا چاہے جو بھی کہے مگر قدرت کی لغت میں ماں کا محبت کے سوا کوئی دوسرا مطلب نہیں۔
عمارہ بی بی نے بھی خاموشی کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ بیٹے اور بہو کی ہر گستاخی کو خندہ پیشانی سے نظر انداز کرتی وہ عورت صرف اس ڈر سے خاموش رہنے لگی کہ کہیں اس کا بیٹا جھگڑوں سے بے زار ہو کر اسے چھوڑ ہی نہ دے۔
وقت یوں ہی گزرتا رہا۔ صائمہ کو ساس کی خاموشی بھی زہر لگنے لگی۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک دن اس کی ساس اتنا جھگڑا کرے کہ ساجد ساس کو گھر سے نکال دے۔ ہر بار صائمہ کچھ ایسا کرتی کہ ساجد ماں سے بے زار ہوجائے اور ہر بار ساس صبر اور تحمل سے جھگڑا رفع دفع کر دیتی۔
ایک روز صائمہ کو فساد ڈالنے کا ایک سنہری موقع مل ہی گیا۔
”اماں! ذرا یہ ساجد کی شرٹ استری کر دیں۔ میں کچن میں دودھ ابال رہی ہوں۔” صائمہ ساس کے ہاتھ میں جان بوجھ کر خراب استری اور ساجد کی نئی شرٹ پکڑا کر چلی گئی۔ عمارہ بی بی نے گرم استری شرٹ پر رکھی۔ خراب ہونے کی وجہ سے استری نے نئی شرٹ جلا ڈالی۔ تھوڑی دیر بعد ساجد نے اپنی اماں کے ہاتھوں میں استری اور جلی ہوئی شرٹ دیکھی تو سیخ پا ہو گیا۔
”اماں! یہ کیا کیا آپ نے؟ میری نئی شرٹ استری کے نیچے رکھ کر بھول گئیں؟ کچھ خیال نہیں ہے آپ کو میرا؟ کتنی محنت سے ایک ایک پائی کما کر لاتا ہوں، اور آپ میرا نقصان ہی کرتی رہتی ہیں۔ اگر استری کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا تو کہہ دیا ہوتا پہلے ہی، صائمہ کر دیتی یہ کام بھی۔”
وہ عورت اپنے بیٹے کے منہ سے یہ جملے سن کر حیران تھی۔ اس ماں کے ہاتھ انجانے خوف سے لرز رہے تھے۔ اب ان ہاتھوں میں اس عورت کے آنسو پونچھنے کی طاقت نہ رہی تھی۔ کیوں کہ اب حد ہوگئی تھی اور پھر عمارہ بی بی کے لرزتے ہاتھ معافی کے انداز میں ساجد کے سامنے جڑ گئے۔
”صائمہ۔۔۔۔صائمہ! میری دوسری شرٹ استری کرو فورا۔” وہ اماں کے جڑے ہاتھوں کو نظرانداز کرتا ہوا چنگھاڑا تھا۔