حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

وہ شاید اس کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ چکا تھا۔ ثانیہ نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ گالوں پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا تھا۔
”میں تمہاری زندگی کی پوری کہانی میں اپنا رول سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تمہارے لیے میں کیا تھا، ایک Filler ایک سپورٹ یا کچھ بھی نہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم کو مجھ سے کیا چاہیے تھا۔ کون سی چیز تمہیں میری جانب کھینچ کر لائی تھی؟ تم نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟”
اس کے پاس سوالوں کاانبار تھا اورثانیہ کے پاس جوابات نہیں تھے۔ اپنی گود میں رکھا ہوا بیگ اٹھا کر وہ کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ اس کا ارادہ بھانپ گیا تھا۔
”تم کہاں جارہی ہو؟” اس نے تیزی سے پوچھا تھا۔
کرسی دھکیل کروہ دروازے کی طرف مڑ گئی تھی۔ وہ لپکتا ہوا اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا تھا۔
”میرے سوالوں کا جواب دیے بغیر تم کیسے جاسکتی ہو؟ تم اس طرح کیسے جاسکتی ہو؟”
وہ خاموش رہی تھی۔
”تم جانتی ہو، تم نے مجھے کتنا بڑا دھوکا دیا ہے؟” وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا کہہ رہا تھا۔
ثانیہ نے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اس کی جیکٹ کے کالرز کو دیکھتی رہی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”تم ایک بہت بڑا فراڈ ہو۔” اس نے جیکٹ کے بٹن گننے شروع کردیے تھے۔ ”اس طرح چپ رہ کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہوتم؟ڈرامہ کا کون سا ایکٹ رہ گیا ہے جسے اب پرفارم کرنا چاہتی ہو؟”
وہ بٹن گن چکی تھی۔ اب دوبارہ کالرز دیکھ رہی تھی۔
”کیاتم بول نہیں سکتی ہو؟” وہ اب چلا رہا تھا۔
اس نے اب شرٹ کے بٹن گننے شروع کردیے تھے اورتب اچانک اس نے اپنے دائیں بازو پر اس کے ہاتھ کی گرفت محسوس کی تھی۔ وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ بے اختیار اس نے سختی سے اس کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا دیا تھا۔
”مجھے ہاتھ مت لگاؤ حدید!” اس نے بالآخر اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔ حدید کا چہرہ اس کے جملے پر سرخ ہوگیا تھا۔
”تمہاراوجود واقعی اتنا گندا ہے کہ میرے جیسے شخص کو ہاتھ تو کیا، اسے دیکھنا تک نہیں چاہیے۔”
ثانیہ نے ایک بار پھرسر جھکا لیا تھا۔
”آج ہاتھ لگانے پر اعتراض ہوا ہے، چھ سال پہلے تو…”
‘ ‘چھ سال پہلے کا ذکر مت کرو۔ تب اوربات تھی۔” ثانیہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔
”میں جاننا چاہتا ہوں وہ ”اوربات” کیا تھی۔ جس کے لیے تم نے مجھے استعمال کیا۔”
”آئی ایم سوری۔ اگر تم میری کسی بات سے کبھی ہرٹ ہوئے تو۔ اب میرا راستہ چھوڑ دو۔ مجھے جانا ہے۔”
وہ اس کی بات پر جیسے ہکا بکا رہ گیا تھا۔
”تمہارے لیے یہ سب کرنا کتنا آسان ہے۔ آئی ایم سوری۔ اگر تم میر ی کسی بات سے کبھی ہرٹ ہوئے تو ۔ بس اتنا کہنا چاہیے تمہیں۔”میں ہرٹ ہوا۔” تمہیں اندازہ ہے تم نے کیا کیا ہے؟ تم نے میری زندگی کے چھ سال برباد کردیے ہیں اورتم صرف ایک جملہ بول کر سب کی تلافی کرنا چاہتی ہو، صرف ایک جملہ بول کر۔ تم کیسی انسان ہو؟ تم کیسی عورت ہو؟”





ثانیہ نے سراٹھا کر پہلی بار اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ حدید کو اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے نظر آئے تھے۔
”میں نے کب کہا کہ میں انسان ہوں؟
میں نے کب کہا کہ میں عورت ہوں۔
میں توتماشا ہوں۔ اپنے لیے بھی اوردوسروں کے لیے بھی۔
تماشا بننے اوردیکھنے کے لیے بڑی ہمت اورصبر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں اللہ نے میرے مقدر میں لکھ دی ہیں۔
کچھ لوگوں کو اللہ دل آباد کرنے کے لیے بناتا ہے۔
کچھ کو زندگیاں برباد کرنے کے لیے۔ مجھے اللہ نے دوسرے کام کے لیے بنایا ہے۔
جو لوگ دوسروں کے دلوں کو کانٹوں سے زخمی کرتے ہیں، ان کے اپنے اندر کیکر اگے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ چاہیں یا نہ چاہیں، ان کے وجود کو کانٹا ہی بننا ہوتا ہے۔ وہ پھول نہیں بن سکتے۔
تم میرے لیے چھ سال روئے ہو۔ آج ایک بار اور رولو، پھر سوچ لینا کہ میں واقعی مر گئی ۔ ساری دنیا تمہارے آگے کھلی پڑی ہے۔ تمہارے لیے بھی کوئی نہ کوئی ہوگا۔ ہر عورت میرے جیسی نہیں ہوتی اور جو ہوتی ہے اسے… اسے پھر حدید نہیں ملتا۔”
اس نے ایک بار پھر سرجھکا لیا تھا۔ حدید نے اپنی پشت پر دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی۔ پروفیسر عبد الکریم اندر آگئے تھے اورکمرے کے نظارے نے انہیں ہکا بکا کر دیا تھا۔ دونوں کے چہرے کے تاثرات اورثانیہ کا بھیگا ہوا چہرہ انہیں پریشان کرنے کے لیے کافی تھا۔ ثانیہ بھیگی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی طرف بڑھی تھی۔
”میں آپ کی مشکور ہوں۔ آپ نے میرے لیے بہت کچھ کیا مگر ہم ہر بار اپنی قسمت نہیں بدل سکتے۔ آپ نے ہمیں جس کام کے لیے ملوایا تھا۔ وہ نہیں ہوسکتا پھر… پھر بھی آپ کا شکریہ۔”
وہ کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔
”زندگی اچھی چیز ہے کیونکہ بس ایک بار ہی ملتی ہے۔ بار بار اس عذاب سے گزر نا نہیں پڑتا۔” اس نے باہر آکر سوچا تھا۔ ” اور میں اگر یہ بات پہلے جان جاتی کہ یہ تیسرا شخص حدید ہے تو شاید آج کی ملاقات کی نوبت ہی نہ آتی۔”
اس کو خیال آیا۔ پروفیسر عبد الکریم نے اسے حدید کا نام بتایا تھا لیکن ان کی انگلش میں عربی لہجہ اسے بہت سے لفظوں اورناموں کی شناخت میں الجھن سے دو چار کردیتا تھا۔ حدید کا نام بھی انہوں نے اس طرح لیا تھا کہ وہ نام کے صحیح اسپیلنگ اور تلفظ کے معاملے میں کنفیوزڈ ہی رہی تھی۔
اسلامک سینٹر سے باہر آنے کے بعد فٹ پاتھ پر چند قدم چلتے ہی اس نے اپنی پشت پر ایک شناسا آواز سنی تھی ۔ وہ حدید تھا۔
” میں تم سے صرف ایک بات جاننا چاہتا ہوں، صرف ایک بات۔” وہ اس کے قریب آگیا تھا۔”چھ سال پہلے میرے پاس آنے کی وجہ میری محبت تو نہیں ہوگی۔ تمہیں کوئی اور چیز میرے پاس لائی تھی۔ محبت نہیں… ہے نا؟”
ثانیہ نے اسے دیکھا تھا اورپھر سر نفی میں ہلا دیا۔ پوری زندگی میں اس نے کبھی کسی کے چہر ے کو دن کی روشنی میں اس طرح تاریک ہوتے نہیں دیکھا تھا، جس طرح حدید کا چہرہ ہوا تھا۔ وہ بالکل گم صم ہوگیا تھا۔
” اور مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ … تم مجھے صرف ایک بار یہ بتا دو کہ تم میرے پاس کس لیے آئی تھیں۔ تمہیں کیاچاہیے تھا۔ پلیز مجھے بتا دو۔”
اس کے لہجے میں اب صرف افسردگی تھی، رنجیدگی تھی، التجا تھی۔پہلے والا اشتعال ختم ہوچکا تھا۔ ثانیہ نے کچھ کہنا چاہا پھر سر جھکا لیا۔
*…*…*
”یار! تم کبھی ہمارے گھر بھی آجایا کرو۔ دیکھو میں اتنے چکر لگا چکی ہوں تمہارے گھرکے۔”
ربیکا اس دن پھر ثانیہ سے اصرار کر رہی تھی۔
” ڈونٹ وری ربیکا! میں اس ویک اینڈ پر تمہاری طرف آؤں گی۔ میں خود بھی بہت دنوں سے سوچ رہی تھی۔ یہ بس اتفاق کی بات ہے کہ کوئی نہ کوئی کام پڑ جاتا ہے۔” ثانیہ نے معذرت کی تھی۔
”بس تو پھر طے ہے کہ اس ویک اینڈ پر تم ہماری طرف آرہی ہو۔”
ربیکا نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا تھا۔” ڈیوڈ مجھے لینے کے لیے آگیا ہے۔ میں جارہی ہوں۔”
اس نے کالج گیٹ کے باہر جھانکتے ہوئے کہا تھا۔ ثانیہ نے ربیکا کو جاتے ہوئے دیکھا تھا۔
وہ دونوں کانونٹ میں اکٹھی پڑھتی رہی تھیں مگر اس وقت دونوں الگ سیکشنز میں تھیں اوردونوں کی دوستی الگ الگ لڑکیوں سے تھی۔ میٹرک کرنے کے بعد جب ربیکا نے کنیئرڈ کالج میں ایڈمیشن لیا تو اس کی دو بہترین دوستوں کو اپنے پیرنٹس کے ساتھ ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ ایک اور دوست کے والد کی ٹرانسفر دوسرے شہر ہوگئی۔ کنیئرڈ میں غیر محسوس طور پر وہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آگئیں۔ دونوں کے سبجیکٹس ایک ہی تھے اور ربیکا بہت ملنسار تھی۔ شروع میں ربیکا کے گروپ میں کچھ اورلڑکیاں بھی تھیں مگر آہستہ آہستہ ان دونوں کی دوستی اتنی گہری ہوگئی کہ وہ دونوں ہر وقت ساتھ رہنے لگیں۔
ثانیہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ جبکہ ربیکاکی دوبہنیں اور ایک بھائی تھا۔ اور وہ دوسرے نمبر پر تھی۔ سب سے بڑا اس کابھائی تھا۔ ربیکا کے والد ایک این جی او کے لیے کام کرتے تھے۔ جبکہ ثانیہ کے والد ایک نامور بزنس مین تھے۔ ثانیہ کی ایک بڑی بہن اوربھائی کی شادی ہوچکی تھی اوران دنوں اس کے لیے رشتہ تلاش کیا جارہا تھا۔ ان کے خاندان میں لڑکیوں کی شادی بہت جلدی کردی جاتی تھی۔ ثانیہ بھی جانتی تھی کہ انٹرکرنے کے بعد اس کی شادی بھی کردی جائے گی۔
ویک اینڈ پر وہ ربیکا کے گھر گئی تھی۔اسے اس کے گھر کا ماحول بہت اچھا لگا تھا۔ربیکا کے ماں باپ اوربہن بھائی سب آپس میں بہت فرینک تھے۔ اس نے کبھی ماں باپ اوربچوں کے درمیان اتنی دوستی نہیں دیکھی تھی۔ خود اس کے گھر میں بھی دوستانہ ماحول تھا مگر پھر بھی اس کے اپنے ماں باپ اوربہن بھائیوں کے ساتھ ویسے تعلقات نہیں تھے جیسے ربیکا کے اپنے گھر والوں کے ساتھ تھے۔لاشعوری طور پر وہ سارا وقت ربیکا اوراپنے گھر کا موازنہ کرتی رہی۔ لنچ اس نے ربیکا اوراس کی فیملی کے ساتھ کیا تھا اور ڈائننگ ٹیبل پر ایک خاص قسم کی بے تکلفی تھی۔
ربیکا کے والد فرانسس جو ئیل بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ وہ لنچ کے دوران چھوٹے موٹے لطیفے سناتے رہے۔
”ڈیڈ میں کیرل کو دوبارہ گھر چھوڑنے نہیں جاؤں گا۔ اس کے گرینڈ فادر بہت لمبی چوڑی انویسٹی گیشن شروع کردیتے ہیں۔” لنچ پر باتیں کرتے کرتے اچانک ڈیوڈ نے اپنے باپ سے کہا تھا۔




Loading

Read Previous

حاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!