حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

اسے ایک بار پھر اپنی زندگی نئے سرے سے صرف اپنے بل بوتے پر شروع کرنی تھی اور یہ کام اسے شروع میں بہت مشکل لگتا تھا۔
بعض دفعہ سب کچھ اسے ایک ڈراؤنا خواب لگتا تھا اسے لگتا تھا جب وہ نیند سے بیدار ہو گی تو یہ خواب بھی ختم ہو جائے گا۔ وہ ایک بار پھر وہیں کھڑی ہوگی جہاں پہلے تھی مگر ایسا نہیں ہوتا تھا ۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ جوکچھ وہ کر چکی ہے۔ وہ واقعی اس نے کیا تھا۔
”مجھے ڈیوڈ سے محبت کیسے ہوگئی اورپھر اس کے لیے میں جو کچھ کرتی رہی، وہ کیسے کرتی رہی۔ کیا وہ سب کرنے والی میں ہی تھی؟”
وہ بعض دفعہ سوچ کر حیران ہوجاتی تھی اوریہ سب اس لیے ہوا کیونکہ مجھے اپنے مذہب کا پتا ہی نہیں تھا اگر پتا ہوتا تو یہ سب کچھ کبھی نہ ہوتا۔ وہ پچھتاوے کا شکارہو جاتی کیا مجھے واقعی ڈیوڈ سے محبت ہوئی تھی یا پھر وہ سب کچھ ایک جادو تھا۔ ایک ایسا جادو جس نے میری زندگی برباد کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا تھا۔ بلال جیل کے اندر عمرقید کاٹے گا۔ میں ملک سے باہرعمر قید کاٹوں گی۔ وہ عمر قید کاٹنے کے بعد آزاد ہو کر واپس گھر چلا جائے گا۔ سب کچھ اس کے لیے دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ مجھے اپنی باقی زندگی کسی اولڈ ہوم میں گزارنا ہوگی۔
جاب سے واپس گھر آنے کے بعد وہ کئی کئی گھنٹے روتی رہتی اورپھر اچانک اسے وہ یاد آنے لگتا۔ بے اختیار اس کے آنسو تھم جاتے۔ پتا نہیں وہ اب کیسا ہوگا زندگی کیسے گزار رہا ہوگا۔ مجھے یاد بھی کرتا ہوگا یا نہیں۔
جوں جوں وہ اس سے اپنا رابطہ ختم کرتی گئی تھی۔ اسے وہ زیادہ یاد آنے لگا تھا۔ جب اس نے مکمل طور پر اس سے رابطہ ختم کردیا ۔ تب اسے پہلی بار پتا چلا تھا، وہ اس کے لیے صرف” نیکی” نہیں رہا تھا، وہ اس کے لیے کچھ اور ہوچکا تھا اور یہ انکشاف اس کے لیے بے حد ہولناک تھا۔ اس کا خیال تھا اسے ڈیوڈ کے بعد کسی سے محبت نہیں ہوسکتی تھی مگر اس کا خیال غلط ثابت ہو چکا تھا اسے محبت ہوچکی تھی۔
بہت دفعہ اپنے قریب سے گزرتے ہوئے کسی شخص پر اسے اس کا گمان ہوتا اور وہ اسے پکار بیٹھتی پھر اچانک اسے احساس ہوتا کہ وہ کیا کر رہی تھی۔ بہتر ہے، وہ کبھی دوبارہ میرے سامنے نہ آئے اس سے دوبارہ کبھی میری ملاقات نہ ہو ورنہ وہ میرے ہر جھوٹ کو جان جائے گا اورپھر وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا۔
”اللہ تعالی اسے دوبارہ کبھی میرے سامنے مت لانا۔” وہ ہر نماز کے بعد اللہ سے دعا کرتی۔
ہر ہفتے و ہ اسلامک سینٹر جایاکرتی تھی، وہاں جانے کے بعد وہ کچھ پر سکون ہو جاتی تھی۔ اسے آہستہ آہستہ صبر آنے لگا تھا۔ پہلے کی طرح وہ جاب سے آنے کے بعد سارا سارا دن رو کر نہیں گزارتی تھی۔ خاموشی سے قرآن لے کربیٹھ جاتی تھی۔ کمرے کی خاموشی اورتنہائی میں اسے اللہ اپنے بہت قریب محسوس ہوتا تھا، یوں جیسے وہ اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہو، جانچ رہا ہو پرکھ رہاہو۔
بعض دفعہ وہ اپنی سوچوں پر ہنس پڑتی، ”اللہ کو مجھے جانچنے اورپرکھنے کی کیا ضرورت ہے، میں اپنے عقیدے میں ثابت قدم رہی ہوں نہ مستحکم، مشکل کے وقت میں نے…”
وہ آگے کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ ماضی اس کے لیے دودھاری تلوار کی طرح تھا جو اسے زخمی کرتی رہتی تھی۔





”میں اپنے اعمال کی وجہ سے اتنا پیچھے چلی گئی ہوں کہ اگر چاہوں تو بھی اللہ کو راضی نہیں کر سکتی۔ گناہ گاروں کو اللہ معاف نہیں کیا کرتا۔ انہیں میری طرح زندگی میں ہی دوزخ دے دیتا ہے اور میرے جیسے لوگ ساری عمر اس دوزخ سے فرار نہیں ہوسکتے پھر بھی میں اللہ سے دعا کرتی رہوں گی کہ وہ مجھے اس گناہ کے لیے معاف کردے جو میں نے اس کی نافرمانی کر کے کیا، کاش وقت ایک بار پھر پیچھے چلا جائے اورمیں… میں دوبارہ کبھی… کبھی اللہ اور اپنے پیغمبر ۖ کی نافرمانی نہ کروں۔ کاش میں ہمیشہ ان دونوں کی فرمانبردار ہوتی۔ میری زندگی میں نافرمانی کے وہ لمحات کبھی نہ آتے” وہ سوچتی اور رونے لگتی۔
اسلامک سینٹر میں وہ ایک مصری عالم کے پاس باقاعدگی سے جایا کرتی تھی۔ پروفیسر عبد الکریم بہت پر سکون اور مشفقانہ انداز میں اسے تسلی دیا کرتے تھے۔
”تم نے جو کچھ کیا ہے، اللہ تمہیں اسکے لیے ضرور معاف کر دے گا کیونکہ تم سچے دل سے اپنی غلطیوں کے لیے معافی مانگ رہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے اللہ اب تک تمہیں معاف کر چکا ہو۔”
ان کے پاس سے آنے کے بعد وہ اگلے دن بہت پر سکون رہتی۔ ان کے الفاظ اس کے ذہن میں گردش کرتے رہتے۔
اس نے ان کے پاس جا کر بہت سے اعتراف کیے تھے اور انہوں نے ہر بار بہت پر سکون انداز میں اس کی باتیں سنی تھیں تین سال گزرنے کے بعد ان ہی کے سامنے پہلی بار اس نے اپنی تنہائی کا اعتراف کیا تھا۔
”کچھ وقت لگے گا مگر اللہ تمہیں اکیلا نہیں رکھے گا۔ جن لوگوں کو اللہ معاف کردیتا ہے ان پر بہت رحم کرتا ہے۔”
انہوں نے ہمیشہ کی طرح اسے قرآنی آیات کے حوالے دے دے کر تسلی دی تھی۔
”مجھے اپنے گناہ پر اتنا پچھتاوا ہے کہ میں اب اپنے آپ کو کسی نعمت کا حق داربھی نہیں سمجھتی ۔” اس نے ان کے پاس سے اٹھتے ہوئے سوچا تھا۔
*…*…*
پانچ سال اسی طرح گزرگئے تھے اورپھر ایک دن اسلامک سینٹر میں پروفیسر عبد الکریم نے اس سے کہا تھا۔
”اب تمہیں شادی کرلینی چاہیے۔” ان کی بات اسے بے حد عجیب لگی تھی۔
”تم ساری زندگی اکیلی رہ سکتی ہو نہ ہی تمہیں اکیلے رہنا چاہیے۔ میرے پاس تمہارے لیے ایک پرپوزل ہے۔ تمہارے بارے میں پہلے ہی میں اس سے بات کر چکا ہوں۔ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی تم سے شادی پر تیار ہے۔”
انہوں نے اسے اس لڑکے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ ان کے سامنے ایک لفظ نہیں بول سکی تھی۔ اسے ان کے سامنے بیٹھے ہوئے اچانک احساس ہوا تھا کہ وہ واقعی ساری زندگی اکیلے نہیں رہ سکتی۔ شعوری اورلاشعوری طور پر اسے ایک سہارے کی تلاش تھی اور یہ سہارا اس کی اپنی فیملی ہی ہوسکتی تھی۔
”میرا خیال ہے، تم اس شخص کے ساتھ بہت خوش رہو گی۔”
انہوں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا تھا اوراس کے ذہن کی سکرین پر ایک چہرہ لہرایا تھا۔
” خوش میں صرف ایک شخص کے ساتھ رہ کر ہوسکتی ہوں اوراس شخص کے لیے میں مر چکی ہوں۔ ہاں شادی کسی کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے اورزندگی کسی کے ساتھ بھی گزاری جاسکتی ہے اورمجھے واقعی کسی کے ساتھ شادی کرلینا چاہیے شاید میری زندگی میں کچھ بہتری آجائے۔ شاید مجھے اولڈ ہوم میں نہ رہنا پڑے۔”
اس نے پروفیسر عبد الکریم کے پاس سے اٹھتے ہوئے سوچا تھا۔
*…*…*
پونے چار بجے وہ اسلامک سینٹر پہنچ گئی تھی۔ پروفیسر عبد الکریم بن اسود اپنے آفس میں اس کے منتظر تھے۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس سے گفتگو میں مصروف ہوگئے تھے ۔ساتھ ساتھ وہ اپنے چھوٹے موٹے کام بھی نپٹا رہے تھے۔ اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ پہلے سے لکھ کر رکھے گئے کچھ خطوط کو لفافوں میں بند کر کے پتے لکھ رہے تھے۔ ایک دو بار انہوں نے اپنے پیجر پر آنے والے پیغام دیکھے۔ وہ کسی دلچسپی کے بغیر ان کی باتیں سنتی اورمعمول کے کام دیکھتی رہی۔ ان سے تمام ملاقاتوں میں آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ ان کی باتوں پر توجہ نہیں دے پارہی تھی۔ اس کا ذہن کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔
”ڈیوڈ، حدید اور… اب یہ تیسرا شخص اور اگر زندگی اس تیسرے شخص کے ساتھ ہی گزارنی ہے تو پھر پہلے دونوں لوگوں کو میری زندگی میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یا… یا مجھے ان سے ملنے کی کیا ضرورت تھی۔”
اسے اپنے گلے میں نمی اترتی محسوس ہوئی تھی۔
”کیاآپ نے اسے میرے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے؟” اس نے تیسری بار پروفیسر عبد الکریم سے پوچھا تھا۔
”ہاں۔”
” اوراسے کوئی اعتراض نہیں ہے؟ ” اسے ابھی بھی بے یقینی تھی۔
وہ مسکرائے تھے۔”تمہارے خیال میں اسے کیا اعتراض کرنا چاہیے؟”
وہ خاموش رہی تھی۔
”میں جانتا ہوں تم پریشان ہوں۔ یہ نارمل چیز ہے تم اس سے ملی نہیں، اس لیے تمہارے دل میں بہت سے خدشات ہیں۔ جب تم اس سے مل لو گی تو تمہارے سارے خدشات ختم ہو جائیں گے۔ وہ اپنی عمر کے دوسرے لوگوں سے بہت مختلف ہے۔ بہت میچیور اور بہت ٹھنڈے مزاج کا مالک ہے۔ تمہیں اس سے بات کر کے اندازہ ہو جائے گا کہ اس کے بارے میں میری رائے اتنی اچھی کیوں ہے۔”
وہ اپنے اسی مخصوص انداز میں نرم اور دھیمی آواز میں اسے سمجھا رہے تھے۔
”سوا چار بجنے والے ہیں۔ وہ بس آنے ہی والا ہوگا۔ وقت کی پابندی کرتا ہے۔ اس کی اچھی عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔” انہوں نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”وقت کی پابندی…” اسے کوئی بے اختیار یاد آیا تھا۔ آنکھوں میں آنے والی نمی کو روکنے کے لیے اس نے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا تھا۔
” ہر چیز کو کبھی نہ کبھی اپنے مقام پر جانا ہی ہوتا ہے۔” بہت عرصہ پہلے پروفیسر عبد الکریم کی کہی ہوئی ایک بات اسے یاد آئی تھی۔
” اورشاید میرا مقام یہ تیسرا شخص تھا، ڈیوڈ یا حدید نہیں۔ اورکاش میں یہ سب پہلے جان گئی ہوتی۔”
وہ پروفیسر عبد الکریم کے سامنے پڑی میز کی چمک دار سطح کو دیکھتے ہوئے سوچتی رہی۔
چار بج کر دس منٹ پر دروازے پر کسی نے دستک دی تھی اورپھر دروازہ کھول کر کوئی اندر آگیا تھا۔ اسے اپنی پشت پر قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔ اس نے اپنے دل کی دھڑکن کو تیز اورہاتھوں کو سرد ہوتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ پھر اس نے ایک آواز سنی۔ گرم کمرے میں بھی اس کا پورا جسم جیسے برف کی چٹان بن گیا تھا۔ پروفیسر عبد الکریم اب آنے والے سے بات کر رہے تھے۔ ثانیہ نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے اپنے ماتھے پر نمی محسوس کرنے کی کوشش کی تھی، ماتھا خشک تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اسے پسینہ آگیا ہوگا۔ آنے والا اس کے پاس سے گزر کر پروفیسر عبد الکریم کے بائیں جانب میز کے سامنے رکھی ہوئی کرسی کھینچنے لگا تھا۔ثانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ پروفیسر عبد الکریم نے دونوں کا تعارف کروایا تھا۔ وہ بہت دیر تک اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی تھی۔ وہ بھی کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔ ثانیہ نے اس کے چہرے سے نظر ہٹالی تھی۔ وہ اب بڑی سنجیدگی سے پروفیسر عبد الکریم کی باتوں میں مصروف تھا۔
”تم یقینا اسے پسند کرو گی۔بہت میچیور اورٹھنڈے مزاج کا مالک ہے”پروفیسر عبد الکریم نے چند منٹ پہلے اس کے بارے میں کہا تھا۔
”ہاں وہ دیکھنے میں ایسا ہی لگ رہا ہے۔ میچیور اور Cool-headed میں کیا کوئی بھی لڑکی اسے پسند کرسکتی ہے۔ چاہے پہلے اس کی زندگی میں کوئی آیا ہو یا نہیں۔” اس نے تلخی سے سوچا تھا۔
”تم دونوں ایک دوسرے کے بارے میں تقریباً سب کچھ پہلے ہی جانتے ہو۔ میرے خیال میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے میں نے تم لوگوں کو آگاہ نہ کردیا ہو۔ اب یہ ضروری ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرو۔ تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں مزید جو کچھ جاننا ضروری ہے، جان سکو۔ میں کچھ دیر کے لیے کمرے سے باہر چلا جاتاہوں۔ تم لوگ اتنی دیر آپس میں بات کر سکتے ہو۔”
پروفیسر عبد الکریم کمرے سے نکل گئے تھے۔ ثانیہ نے گردن موڑ کر اپنی پشت پر بند ہوتا ہوا دروازہ دیکھا تھا، پھر اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ سر جھکائے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کی رنگ سے اپنی جینز پر نظر نہ آنے والی لکیریں بنانے میں مصروف تھا۔ ثانیہ نے اس پر سے نظر ہٹالی تھی۔ سامنے فرنیچ ونڈوز سے اس نے باہر نظر آنے والے منظر میں اپنی دلچسپی کی کوئی چیز ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی، کوئی بھی چیز۔ وہ ناکام رہی تھی۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی اور خاموشی کو توڑنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔
”کون پہلے بولے گا، میں یا یہ؟ اورجو پہلے بات شروع کرے گا ، وہ کیا کہے گا؟” ثانیہ نے سوچنے کی کوشش کی تھی۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔
”میرے پاس تو کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے مگر یہ کیوں خاموش ہے۔ اس کے پاس تو کہنے کے لیے بہت کچھ ہونا چاہیے، بہت کچھ۔ اس کے پاس تو لفظوں کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔”
ثانیہ نے سوچا تھا۔ اس نے سر جھکالیا تھا۔ ایک منٹ، دو منٹ، تین منٹ، چار منٹ، پانچویں منٹ پر ثانیہ نے اسے ایک گہری اورلمبی سانس لیتے ہوئے سنا تھا۔ یوں جیسے وہ کسی ٹرانس سے باہر آگیا تھا۔
” اور اب یہ کیا کہے گا؟” ثانیہ نے سر جھکائے جیسے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی۔
”پچھلے چھ سال میں جس چہرے کو دیکھنے کی میں نے سب سے زیادہ خواہش کی تھی، وہ تمہارا چہرہ تھا اورآج یہاں تمہیں دیکھنے کے بعد جس چہرے کو میں کبھی دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتا، وہ بھی تمہارا چہرہ ہے۔ عجیب بات ہے نا؟”
”ہاں ٹھیک ہے۔ مجھے یقین تھا، یہ ایسی ہی کوئی بات کہے گا۔” ثانیہ نے سوچا۔ ”پچھلے چھ سال میں جس چہرے کو میں کبھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی، وہ تمہارا چہرہ تھا اورآج یہاں اس کمرے میں تمہیں دیکھنے کے بعد جس چہرے کو میں دوبارہ کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتی، وہ بھی تمہارا ہی چہرہ ہے۔ عجیب بات ہے نا؟”
اس نے سوچا تھا۔ اپنے اندازے کے صحیح ہونے پر اسے جیسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی تھی۔ وہ اب بھی بول رہا تھا۔ اسی پختہ اورسرد آواز میں۔
”میں لوگوں کو کبھی سمجھ نہیں سکتا اورعورت کو تو شاید بالکل بھی نہیں۔ میں نہیں جانتا، ہرایک مجھے ہی دھوکا کیوں دینا چاہتاہے۔ میں نے تو کبھی کسی کے لیے برا سوچا ہے، نہ برا چاہا۔ پھر بھی… پھر بھی پتا نہیں لوگ میرے ساتھ یہ سب کیوں کرتے ہیں۔”
اپنی گود میں رکھے ہوئے دائیں ہاتھ کی پشت پر اس نے پانی کے چند قطرے گرتے دیکھے تھے اور پھر ہاتھ دھند لا گیا تھا ۔ اس نے سر نہیں اٹھایا ۔ اس کی آواز اب بھی کمرے میں گونج رہی تھی۔
”تمہیں یہاں اس کمرے میں دیکھنے کے بعد مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں پھر وہیں پہنچ گیا ہوں، جہاں چھ سال پہلے کھڑا تھا۔”
”اور میں آج تک وہیں کھڑی ہوں، جہاں چھ سال پہلے تھی۔”
” چھ سال پہلے تم سے ملنے کے بعد میں نے سوچا تھا۔ دنیا میں ابھی بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو خود غرض نہیں ہیں۔ جنہیں دوسروں کی پروا ہے۔ چھ سال پہلے میں نے تمہیں آئیڈیلائز کیا تھا۔ میں نے سوچا تھا مجھے زندگی میں تمہارے جیسا بننا ہے۔ آج یہاں اس کمرے میں بیٹھا میں سوچ رہا ہوں۔ کیادنیامیں مجھ سے زیادہ بے وقوف کوئی اور ہوگا۔”
اس کی آواز میںرنجیدگی تھی۔ ثانیہ کے ہاتھ پر گرنے والے پانی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔
”پانچ سال پہلے جب میں نے واپس جا کر تمہیں تلاش کرنے کی کوشش کی تھی اور مجھے پتا چلا تھا کہ تم مر چکی ہو تو میں بہت رویا تھا۔ مجھے لگا تھا ایک بار پھر میری دنیا ختم ہوگئی۔ آج تمہیں یہاں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ دنیا تو آج ختم ہوئی ہے۔ میں نہیں جانتا، اس کمرے سے نکلنے کے بعد میں کیا کروں گا۔ میں دوبارہ کسی عورت پر اعتبار کر بھی پاؤں گا یا نہیں ۔تم تو بہت باتیں کیا کرتی تھیں۔آج خاموش کیوں ہو، کچھ کہو۔”
وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
”تمہیں آنسوؤں جیسے ہتھیار کا سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم تو اس کے بغیر بھی دوسروں کو منہ کے بل گرانے میں ماہر ہو۔”




Loading

Read Previous

حاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!