حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

ثانیہ کے آنسو یکدم تھم گئے تھے۔” پھر تم نے مجھ سے کبھی کہا کیوں نہیں؟”
”کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ میں تمہیں ایسے خواب کیوں دکھاتا جن کی کوئی تعبیر نہیں ہے۔ آج تم نے خود پہل کی تو میں… ورنہ شاید میں کبھی بھی تم سے یہ سب نہ کہتا۔”
”ڈیوڈ! تم مسلم ہوجاؤ۔ ہم پھر شادی کرسکیں گے۔”
” یہ بات دوبارہ کبھی مت کرنا۔ کیا تم میرے لیے عیسائی ہوسکتی ہو؟” وہ یکدم مشتعل ہوگیا تھا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔
”میرا خیال ہے۔ اس سب کو یہیں ختم کر دیتے ہیں۔ میں دوبارہ اس ٹاپک پر بات کرنا نہیں چاہتا۔” وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
”کچھ بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ اب کچھ ختم نہیں ہوسکتا۔ اب جب میں یہ جان گئی ہوں کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتے ہو تو میں تم کو کھو نہیں سکتی۔ میں باربار اسی ٹاپک پر بات کروں گی۔
Do you hear me?(تم سن رہے ہو ناں) میں بار بار اسی ٹاپک پر بات کروں گی۔”
وہ اپنی چیزیں اٹھا کر بھاگتی ہوئی ربیکا کے گھر سے نکل آئی تھی۔
پروموشن ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد ایک دن ڈیوڈ نے اسے کال کیا تھا۔
”آج ربیکا کالج نہیں آرہی۔ کیا تم مجھ سے مل سکتی ہو؟” اس نے ثانیہ سے پوچھا تھا۔
”ہاں، کیوں نہیں۔”
”میں کالج سے تمہیں پک کرلوں گا۔”اس نے فون بند کردیا تھا۔
”پچھلے دو ہفتے میں، میں نے بہت سوچا ہے اور میں چاہتا ہوں تم بھی سوچو۔تم اگر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو تو سوچ لوکہ اس کے لیے تمہیں بہت کچھ چھوڑنا پڑے گا۔ میں تم سے مذہب بدلنے پر اصرار نہیں کرتا مگر تمہیں اپنا گھر، خاندان اورشاید ملک بھی چھوڑنا پڑے گا۔ کیونکہ یہاں رہ کر میں تم سے شادی نہیں کرسکتا۔ یہاں یہ ممکن ہی نہیں ہوگا۔ تمہیں میرے ساتھ باہر جانا ہوگا اور یہ ابھی نہیں ہوگا۔پہلے مجھے اپنی انجینئرنگ مکمل کرنا ہے اور اس میں ابھی کچھ سال رہتے ہیں۔ کیا تم چار پانچ سال انتظار کر سکتی ہو؟”
”وہ کالج سے اسے ایک ریسٹورنٹ لے گیا تھا اوروہاں اس نے ثانیہ کو اپنا فیصلہ بتانا شروع کیا تھا۔
”نہیں، چار پانچ سال انتظار ممکن نہیں۔ انٹر کے بعد میرے پیرنٹس ہر قیمت پر میری شادی کردیں گے۔ میرے لیے مزاحمت کرناممکن نہیں ہوگا۔”
”توپھر تم کیا چاہتی ہو؟”
”I don’t know(مجھے نہیں پتا۔)تم بتاؤ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟” اس نے ڈیوڈ سے پوچھا تھا۔
”میں بھی کچھ نہیں جانتا۔ میرے پیرنٹس کو یہ سب پتا چلے تووہ… نہیں ثانیہ! شادی کے لیے تمہیں ابھی کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ مجھے میرے فادر سپورٹ کرتے ہیں۔ میں تمہیں کیسے سپورٹ کر سکتا ہوں؟ تم انٹرکرو۔ ابھی ایک سال ہے پھر میں دیکھوں گا،کیا کر سکتا ہوں مگر میں پھر تم سے ایک بار کہتا ہوں کہ تم اپنے فیصلے پر غور کرو۔ ثانیہ! کیا تم ان ساری مشکلات کا سامنا کرسکو گی جو مجھ سے شادی کی صورت میں تمہارے سامنے آئیں گی۔ تمہاری فیملی اور یہاں کے سارے لوگ ہماری جان کے دشمن ہوجائیں گے۔ ایک مسلم لڑکی،کرسچین لڑکے کے ساتھ شادی نہیں کرسکتی۔ تمہارے مذہب میں یہ نہیں ہوتا، کیا تم جانتی ہو؟ میں تم سے محبت کرتا ہوں میں نہیں چاہتاکہ تم جذبات میں آکر کوئی فیصلہ کرو اور پھر تمہیں پچھتانا پڑے۔ تمہیں پہنچنے والی کوئی تکلیف میرے لیے نا قابل برداشت ہوگی۔”
ڈیوڈ نے اس کاہاتھ تھام لیا تھا۔ ثانیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
”میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے بس تمہاری ضرورت ہے۔ تم مجھے کیسے ملتے ہو، مجھے پروا نہیں لیکن میں اپنی باقی زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔”
*…*…*





”بھابھی! اسلام میں مسلم مرد کو کسی غیر مسلم عورت سے شادی کرنے کی اجازت ہے؟” اس دن وہ آمنہ بھابھی سے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں اگر وہ عورت اہلِ کتاب ہو تو۔”
”اور کیا مسلم عورت کسی غیر مسلم مرد سے شادی کر سکتی ہے اگر وہ اہل کتاب ہوتو؟”
آمنہ بھابھی نے اسے دیکھا تھا۔ ”نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ مسلم عورت کسی غیر مسلم کے ساتھ شادی نہیں کرسکتی۔ چاہے وہ غیر مسلم اہلِ کتا ب ہی کیوں نہ ہو۔”
”یہ عورت کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟ مرد کو تو اجازت ہے کہ وہ غیر مسلم کے ساتھ شادی کرلے لیکن عورت کو نہیں۔ کیا عورت انسان نہیں؟ اس کا دل نہیں ہے؟”
”ثانیہ! دیکھو، یہ زیادتی والی بات نہیں ہے۔ایک مسلم مرداپنے بچوں کو اپنے طریقے اور عقیدے پر پروان چڑھائے گا۔ چاہے اس کی بیوی کا عقیدہ کچھ بھی ہو۔ وہ اسے مجبور کرسکتا ہے کہ وہ اس کی بات مانے مگر مسلم عورت ایک غیر مسلم شوہر کو اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ یقینا اس کے بچے بھی غیر مسلم ہی ہوں گے پھر تم خود سوچو کہ ایک مسلمان عورت کی غیرت یہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو اپنے دین کے بجائے کسی دوسرے دین کا پیروکار بنائے؟”
ثانیہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا، وہ الجھ گئی تھی۔
ڈیوڈ کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری تھیں۔ وہ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دوست کے گھر جانے کا بہانا بنا کر ڈیوڈ کے ساتھ طے کی ہوئی جگہ پر چلی جاتی۔ بعض دفعہ اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا تھا کہ وہ اپنے والدین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہے مگر ہر بار وہ اپنے کان بند کر لیتی۔
”میں ڈیوڈ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔” وہ ہربار اپنی مجبوری دہرا دیتی۔
”ڈیوڈ!اگر تم مسلم ہوجاؤ تو میں اپنے پیرنٹس سے بات کرسکتی ہوں۔شاید وہ ہماری شادی پر رضا مند ہو جائیں پھر ہمیں کسی پرابلم کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔”
اس دن اس نے ڈرتے ڈرتے ڈیوڈ سے کہا تھا۔وہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتارہا تھا۔
”میں اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتا۔”
”مگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔ محبت کی خاطر تو لوگ…”
”تم بھی تو محبت کرتی ہو مجھ سے۔ کیا تم میرے لیے اپنا مذہب چھوڑ سکتی ہو؟” وہ اس کے سوال پر خاموش ہوگئی تھی۔
”تم اسلام کامطالعہ تو کرو پھر…”
”مجھے دلچسپی نہیں ہے تمہارے مذہب میں۔ تم سمجھتی کیوں نہیں۔ میں اپنے مذہب سے بہت خوش ہوں۔” ڈیوڈ نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”تم عیسائیت کا مطالعہ کرو۔ شاید تم اپنا مذہب چھوڑ دو۔”
وہ ایک بارپھراس کی بات کے جواب میں خاموش رہی تھی۔
”بہتر ہے کہ ہم اب مذہب کی بات نہ کریں۔” ڈیوڈ نے بات ختم کر دی تھی۔
*…*…*
ان دنوں اس کے لیے گھر میں ایک پرپوزل آیاہوا تھا۔ اس کے ابو کو یہ پرپوزل بہت پسند آیا تھا۔ انہوں نے ثانیہ کی مرضی پوچھی تھی اور اس نے انکار کردیا تھا۔
”مگر تم آخر انکار کی کوئی وجہ تو بتاؤ۔ اتنا اچھا رشتہ آخر تمہیں کیوں پسند نہیں؟” اس کی امی حیران تھیں۔
”بس میں نے کہا ناکہ میں ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔ گریجویشن کرنے سے پہلے مجھے شادی نہیں کرنی۔”
”تو ہم تمہاری منگنی کردیتے ہیں۔تم گریجویشن کرلینا۔”
”مجھے منگنی بھی نہیں کرنی۔ مجھے یہ رشتہ پسند ہی نہیں ہے۔”
وہ چلانے لگی تھی۔اس کی امی پہلی بار پریشان ہوئی تھیں۔ پچھلے کئی ماہ میں وہ بہت سے رشتے ٹھکراچکی تھی۔
”کیا تمہیں کوئی اورپسند ہے؟”انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے پوچھا تھا۔
”مجھے کوئی پسند نہیں ہے مگر مجھے ابھی شادی یا منگنی کچھ بھی نہیں کرنا۔”
اس کی امی خاموشی سے کمرے سے نکل گئی تھیں۔ ثانیہ نے سکون کا سانس لیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس بار بھی بلا ٹل گئی ہے مگر ایسا نہیں تھا۔
تین دن بعد اس کے والدین نے لڑکے والوں کو ہاں کردی تھی اورمنگنی کی تاریخ بھی طے کردی تھی۔ اس کے چیخنے چلانے کی انہوں نے پروا نہیں کی تھی۔
”تم منگنی ہونے دو۔ منگنی سے کچھ نہیں ہوتا۔ کم از کم روز روز کے پرپوزلز سے تو تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔”
ڈیوڈ سے رابطہ کرنے پر اس نے ثانیہ کو سمجھایا تھا۔
”لیکن ڈیوڈ! اگر انہوں نے شادی کے لیے اصرار کیا تو؟”
”تب دیکھا جائے گا۔ فی الحال تم کسی پر کچھ ظاہرمت کرو۔”
اس نے ڈیوڈ کے کہنے پر خاموشی سے منگنی کروالی تھی۔ اس کی خاموشی پر سب نے سکون کا سانس لیا تھا۔ لیکن ثانیہ کے دل میں ان سب کے خلاف گرہ پڑ چکی تھی۔
” ان لوگوں کے نزدیک میں انسان نہیں، بھیڑ بکری ہوں۔ جسے وہ جب چاہیں، جس کے لیے چاہیں ذبح کردیں۔”
منگنی کی انگوٹھی پہنتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔ منگنی کے چند ہفتوں بعد ہی اس کے سسرال والوں نے شادی کی تاریخ طے کرنے پر اصرار شروع کردیا تھا۔ وہ بری طرح سٹپٹائی تھی۔
”ڈیوڈ! اب تم پلیز اپنے پیرنٹس سے بات کرو۔ میرے ابو چند ماہ تک میری شادی کی تاریخ طے کردیں گے اور مجھے اس سے پہلے اس گھر سے نکلنا ہے۔”
ڈیو ڈ اس کی بات پر پریشان ہوگیا تھا۔ وہ رو رہی تھی۔
”پلیز ثانیہ! تم رونا بند کردو۔ میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں لیکن تم روتی رہوگی تو میرے لیے کچھ کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔”
اس نے ثانیہ کاہاتھ سہلاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں اپنے پیرنٹس سے ایک دو دن میں بات کرتا ہوں۔دیکھتا ہوں ان کا کیا ری ایکشن ہوتاہے۔”
وہ بے حد فکر مندلگ رہاتھا۔
ربیکا تین دن سے کالج نہیں ارہی تھی۔ تیسرے دن اسے گیٹ سے اندرداخل ہوتے دیکھ کر ثانیہ تیر کی طرح اس کے پاس گئی تھی۔
”کیاہوا بھئی؟ اتنے دن سے کہاں تھیں؟ میں نے فون کیاتو تمہارے ملازم نے بتایا تھا کہ تم گھر پر نہیں ہو۔ کہاں گئی ہوئی تھیں۔ مجھے بتایا…۔”
ثانیہ بات کرتے کرتے اچانک رک گئی تھی۔اسے احساس ہوا تھا کہ ربیکا اسے بہت عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
ثانیہ! مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ ہم کلاس میں نہیں جارہے ہیں۔” ربیکا نے سرد لہجے میں اس سے کہا تھا۔
”تم ڈیوڈ کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟” لان کے ایک سنسان گوشے میں آتے ہی اس نے پوچھا تھا۔ ثانیہ کچھ بول نہ سکی ۔
”میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ثانیہ! کہ تم اتنی بے وقوف ہو سکتی ہو۔”
”پلیز ربیکا! کچھ مت کہو۔”
”کیوں نہ کہوں؟ تم جانتی ہو؟ تمہاری وجہ سے ہمارے گھر میں کیاکیا ہوا ہے؟ تمہاری وجہ سے پہلی بار ڈیوڈ نے ممی اورڈیڈی سے جھگڑاکیا اورپھر سلیپنگ پلز کھالیں۔”
”ربیکا!” ثانیہ کے منہ سے چیخ نکلی تھی۔
”وہ بچ گیا ہے لیکن جو کچھ تم دونوں کرناچاہتے ہو، وہ سب کو مار ڈالے گا۔”
”ڈیوڈ کیسا ہے؟ وہ گھر پر ہے؟”
”یہ سب چھوڑو۔ تم اس کی زندگی سے نکل جاؤ۔ دیکھو ثانیہ! میرا صرف ایک بھائی ہے۔ اسے کچھ ہوگیا تو ہم… ہم جیتے جی مر جائیں گے۔ تم مسلم ہو۔ ہم اقلیت ہیں۔ ہمیں یہاں رہنا ہے۔ ہمارا گھر بار سب کچھ یہیں ہے مگر ڈیوڈ سے تمہاری شادی کے بعد ہمارا گھر برباد ہوجائے گا۔”
”ربیکا! میں اس سے محبت کرتی ہوں۔”
”تمہیں اس سے بہتر لڑکے مل جائیں گے اورپھر تمہاری منگنی بھی ہوچکی ہے پھر تم کیوں میرے بھائی کے پیچھے پڑ گئی ہو۔”
”منگنی میں نے ڈیوڈ کے کہنے پر کروائی تھی۔ مجھے اپنے فیانسی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”ثانیہ! تم میرے بھائی کاپیچھا چھوڑ دو، ورنہ میں تمہارے گھر والوں کو سب کچھ بتا دوں گی۔اس عمر میں محبت وغیرہ نہیں ہوتی۔ صرف دلچسپی ہوتی ہے اور دلچسپی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ تم مسلم ہو۔ ڈیوڈ کرسچین ہے۔تمہارے مذہب میںویسے بھی اس کے ساتھ شادی جائز نہیں ہے ۔کیا تم اپنے مذہب کے خلاف جاؤ گی؟”
ربیکا نے اسے ایموشنلی بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی۔
”مجھے ڈیوڈ سے محبت ہے اور میں اسے نہیں چھوڑ سکتی۔ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔”
”تم پاگل ہوچکی ہو ثانیہ اورپاگل اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ اگر تم ڈیوڈ کو نہیں چھوڑ سکتی تو پھر اپنی اور میری دوستی ختم سمجھو۔دوبارہ کبھی میرے گھر مت آنا۔”
”ربیکا! میں ڈیوڈ کو نہیں چھوڑ سکتی۔ وہ میرا سب کچھ ہے۔ تم مجھے اس کے پاس جانے سے روک سکتی ہو مگر اسے میرے پاس آنے سے نہیں روک سکتیں۔میرے پیرنٹس کو تم اگر کچھ بتاؤگی تو میں ڈیوڈ کے ساتھ گھر سے بھاگ جاؤں گی پھر کیا ہوگا یہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔”
ربیکا نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا۔
”میں نے تم سے دوستی کر کے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔” ثانیہ نے اس کی بات پر کچھ نہیں کہا تھا۔
شام کو وہ ربیکا کے گھر پہنچ گئی۔ پہلی بار وہاں اس کا استقبال بڑی سرد مہری سے کیا گیا تھا اوراسے اس کی پروا نہیں تھی۔ ربیکا کا بس چلتا تو شاید وہ اسے دھکے دے کر وہاں سے نکال دیتی۔ وہ ڈھیٹوں کی طرح خود ہی اٹھ کر ڈیوڈ کے کمرے میں چلی گئی تھی۔وہ جاگ رہا تھا۔ وہ اس کے پاس بیٹھ کررونے لگی تھی۔
*…*…*
”تم جانتی ہو جو کچھ تم کرنا چاہتی ہو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟” ڈیوڈ کے پاس سے آنے کے بعد ربیکا نے اسے روک لیا تھا۔ لاؤنج میں ربیکا کے والدین کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
”میں جانتی ہوں۔” اس نے سر جھکاتے ہوئے کہا تھا۔
لاؤنج میں کچھ دیر خاموشی چھائی رہی تھی پھر ڈیوڈ کے ڈیڈی نے کہا تھا۔
”تمہیں یا ڈیوڈ کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں اس لیے تم دونوں کی مدد کرنے پر مجبور ہوں۔ کیونکہ میں ڈیوڈ کا باپ ہوں۔ اس نے اپنے آپ کو جس مصیبت میں پھنسا لیا ہے، میں اسے وہاں اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ میں چند ہفتوں تک تمہارے کاغذات بنوالوں گا پھر تمہیں امریکہ بھجوادوں گا۔ وہاں تم اس وقت تک میری بہن کے پاس رہو گی جب تک ڈیوڈ اپنی انجینئرنگ مکمل نہیں کر لیتا۔ سال کے اینڈمیں ڈیوڈ امریکہ آئے گا اوروہاں تم دونوں کی شادی ہوجائے گی اورڈیوڈ پھراپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پاکستان آجائے گا۔ بعد میں ڈیوڈ بھی امریکہ سیٹل ہو جائے گا مگر تم ایک بات ذہن میں رکھنا کہ تمہیں اپنے گھر والوں کو ڈیوڈ کے بارے میں کچھ نہیں بتانا۔ جب تمہارے پیپرز مکمل ہو جائیں گے تو تم خاموشی سے گھر چھوڑ کر آجانا۔ میں نہیں چاہتا، تمہارے گھر والوں کو اس معاملے کا پتا چلے اورپھر میرے بیٹے کو اور میری فیملی کو کوئی نقصان پہنچے۔”
انہوں نے ثانیہ کو سنجیدگی سے سب کچھ بتا دیا تھا۔
اس دن ڈیوڈ کے گھر سے نکلتے ہوئے وہ بے تحاشا خوش تھی۔ چند گھنٹوں پہلے تک ناممکن نظر آنے والی چیزنا ممکن نہیں رہی تھی۔ اب ممکن نظر آنے لگی تھی۔”اب میں اور ڈیوڈ ساری زندگی اکٹھے گزاریں گے۔” اس کا دل جیسے بلیوں اچھل رہا تھا۔
”ہاں میں اپنے گھر والوں کو کچھ نہیں بتاؤ ں گی۔ورنہ وہ ڈیوڈ اوراس کی فیملی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میں وہی کروں گی جو ڈیوڈ کے ڈیڈی چاہتے ہیں۔”
اسے یہ سب طے کرتے ہوئے ایک بار بھی اپنی فیملی کا خیال نہیں آیا تھا۔ ایک بار بھی اسے اپنے فیصلے کی سنگینی اور ہولناکی کا احساس نہیں ہوا تھا۔وہ ٹین ایج میں تھی اوراس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ جس شخص سے وہ محبت کرتی ہے، وہ یکدم اس کی دسترس میں آگیا ہے۔
*…*…*




Loading

Read Previous

حاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!