جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

’’اور کتنے دوست ہیں تمہارے؟‘‘
’’ہمارا صرف چار دوستوں کا گروپ ہے جس میں، میں صارم ، سمیر اور زوہیب ہیں اور آج کل ہم چاروں صرف انجوائے کر رہے ہیں۔‘‘ عظام نے کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے بتایا۔
’’اگر تمہارے دوست سمیر اور زوہیب بھی تمہارے ساتھ آنا چاہیں، توان کو بھی اگلی بار ساتھ لیتے آنا۔ ہم سب مل کر خوب مزہ کریں گے۔‘‘ عظام اور صارم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، دونوں ہی الجھن کا شکار تھے۔ علینہ نے ان سے ڈھیروں باتیں کیں۔ ان کی پڑھائی کے متعلق اور یہ کہ وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ان کی باتوں سے علینہ کو اندازہ ہوا کہ دونوں ہی کافی ذہین اور اچھے گھروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ والدین کی بے پروائی کا شکا ر ہو کر ہی اچھے بچے اپنی ذہانت کا نیگیٹو استعمال کرتے ہیں اور غلط راستے اپنا لیتے ہیں۔ علینہ نے دل میں تہیہ کیا کہ وہ انہیں کسی غلط راستے پر چلنے نہیں دے گی۔ علینہ نہیں جانتی تھی کہ شاید اللہ نے اسے اسی کام کے لیے ہی دنیا میں بھیجا ہے جنہیں خود اللہ نیک کاموں کے لیے چن لے، اُن کے لیے راستے کی دشواریاں خود بہ خود دور ہوتی جاتی ہیں۔
ماں باپ کے تعاون سے پورے اعتماد کے ساتھ علینہ نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ عظام اور اس کے دوستوں کو سنوارنے کو جو بیڑا اٹھایا تھا، وہ آہستہ آہستہ پندرہ لڑکوں تک پہنچ چکا تھا۔ اس دوران ان کا میٹرک کا رزلٹ بھی آگیا۔ سب ہی اچھے نمبروں سے کام یاب ہو کر کالج پہنچ گئے تھے، لیکن انہوں نے علینہ کے پاس آنا نہیں چھوڑا تھا۔
٭…٭…٭




علینہ یونیورسٹی کے تیسرے سال میں تھی۔ ایک سال بعد اس کا ’’آئی ٹی‘‘ کا کورس پورا ہو جانا تھا۔ اس دوران اس نے کمرے کی بہ جائے اپنے پاپا سے کہہ کر ایک مکان کرائے پر لے لیا اور اپنی دو عدد مخلص اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار سہیلیوں، رمشا اور مونا کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھاتی گئی۔ کرائے کے اس مکان کو باقاعدہ ادارے کی شکل دے کرعلینہ نے اس کا نام ’’جناح کے وارث‘‘رکھ دیا۔ اس میں اب لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی شامل ہو گئیں تھیں۔ علینہ نے پہلے دن ہی سے ان میں یہ شعور پیدا کیا کہ جدید ٹیکنالوجی کبھی بری نہیں ہوتی، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف یہ ہی نہیں کہ ایک دوسرے کو میسجز کر لیے جائیں، فضول ویڈیوز دیکھی جائیں، کسی کو فضول تصاویر بھیجی جائیں، بے جا دوستیاں کی جا ئیں اور ان دوستیوں کی آڑ میں ہر وہ کام کیا جائے جس سے اخلاقی برائیاں پیدا ہوں بلکہ جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کیا جائے جو ہمیں اور ہمارے ملک کو ترقی کی دوڑ میں آگے لے جائے ۔ علینہ چوں کہ خود بھی کمپیوٹر میں ماہر تھی تو اس نے مختلف طریقوں سے سب بچوں سے مختلف پراجیکٹس کروائے۔ انہیں یونیورسٹی جانے سے پہلے ہی کمپیوٹر میں اتنا ماہر کر دیا کہ کسی بھی اچھی یونیورسٹی کے دروازے ان کے لیے وا ہو جائیں۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکے لڑکیاں ’’جناح کے وارث‘‘ ادارے میں آکر جب مختلف اسائنمنٹ اور پراجیکٹس پر کام کرتے انہیں اِدھر اُدھر کی فضول اور لغو باتوں پر دھیان دینے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ علینہ نے اس سارے کام کی کوئی فیس مقرر نہیں کی تھی، البتہ اسٹوڈنٹس کے اضافے کے ساتھ ہی علینہ کی معاون دوستوں رمشا، مونا اور اسٹوڈنٹس کے درمیان جیسے ایک خاموش سمجھوتہ ہو گیا تھا کہ ادارے کے اخراجات اب صرف علینہ کی ذمے داری نہیں ہو گی بلکہ سب مل جل کر یہ کام کریں گے، جس سے جتنا ہو پاتا، وہ ضرور اس کارِ خیر میں حصہ لیتا۔ سب ہی کھاتے ، پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے تو کسی کو کوئی مسئلہ نہیںہوا۔ یہاں تک کہ کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ اور اس سے وابستہ ڈھیروں چیزیں بھی بچے اکثر لے آتے۔ تین سال کے اندر اندر جناح کے وارثوں کی تعداد ستر کے قریب ہو گئی اور نوجوان نسل کے نمائندے اب حقیقت میں ترقی کی جانب قدم بڑھا رہے تھے جس میں سب سے بڑی ترقی دماغی اور ذہنی تھی۔ اب ان دماغوں میں لغویات نہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کچھ نیا کرنے کا جذبہ پوری طاقت سے پروان چڑھ رہا تھا۔ فارغ وقت کا صحیح استعمال یقینا مستقبل میں ان کے کام آنے والا تھا۔ علینہ کے والدین اپنی بیٹی کی بلائیں لیتے نہ تھکتے جس نے ایک صاف ستھرا معاشرہ تشکیل دینا ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔
وقت گزرتا گیا ، علینہ کو ڈگری ملی تو سب نے خوب جشن منایا۔ وقت کچھ اور گزرا تو علینہ کے والدین نے علینہ کو شادی کے مقدس بندھن میں باندھ دیا۔ جیسی علینہ خود تھی اللہ نے اسے ہم سفر بھی ایسا ہی عطا کیا۔ نیک ، روشن خیال ،ہر معاملے میں ساتھ دینے اور تعاون کرنے والا۔
عظام اور سب لڑکے لڑکیاں اب یونیورسٹی پہنچ چکے تھے اور دیے سے دیا کیسے جلتا ہے ،اس کی صحیح مثال قائم کر رہے تھے۔ وہ اپنی اپنی یونیورسٹیز میں تعلیم کے ساتھ ساتھ علینہ کا دیا سبق اپنے نئے ساتھیوں کو پڑھانا نہیں بھولتے تھے ۔ ان گنت زرخیز دماغ اس ذہنی پس ماندگی کا شکار کرنے والی غلاظت سے چھٹکارا پا رہے تھے۔ ٹیکنالوجی کا منفی اور مثبت استعمال ان کی سمجھ میں ا ٓرہا تھا۔ خاص طور پرعظام اور اس کے پچیس ساتھی جنہیں کو ایک ہی یونیورسٹی میں داخلہ ملا تھا ، وہ سب علینہ کے دیے گئے تمام اسباق پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔
’’جناح کے وارث‘‘ ادارے میں ہر دم رونق لگی رہتی۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ عظام کا بھی فائنل پراجیکٹ آگیا جس کے لیے عظام نے اپنے گروپ کے تیرہ ساتھی لڑکے لڑکیوں کے ساتھ مل کر کچھ ایسا کرنے کا سوچاجو سب کو حیران کر دے۔ علینہ کے مشورے اور تجربے کی روشنی میں سب نے پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کر دیا جو اپنے مقررہ وقت پر بہ خوبی انجام کو پہنچا۔ دن رات کی محنت سے سب نے ایسا سافٹ وئیر تیار کیا جو دشمن کی تمام نقل و حرکت سے بر وقت حکامِ اعلیٰ کو آگاہ کر سکتا اور اس کے ذریعے پورے ملک میں کہیں بھی ہونے والی دہشت گردی سے متعلق تمام معلومات بھی حاصل کی جاسکتیں۔ اس کا کوڈ ایسا تھا کہ اگر دشمن ممالک کے ہاتھ لگ بھی جاتا تو ان کے لیے بالکل بے کار ہوتا۔ وہ سافٹ وئیر آنے والے وقتوں میں پاکستان کو ترقی کی ان گنت منازل پر لے جانے والا تھا۔ عظام کا پراجیکٹ کام یابی سے ہم کنار ہوا، تو اس کی دھوم مچ گئی جس میں ’’جناح کے وارث‘‘کا نام بھی بار بار گونجتا رہا ۔ اس ادارے کی اتنی شہرت ہو گئی کہ حکومت نے اسے رجسٹرڈ کر کے اپنی سرپرستی میں لیتے ہوئے تمام اخراجات اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ وہ دن علینہ کے لیے عید سے کم نہیں تھا۔ ایک کمرے سے شروع ہونے والے ایک مثبت ادارے نے اونچائیوں کو چھو لیا تھا۔ آج عظام کی یونیورسٹی میں کانووکیشن تھا۔ جب جناح کے وارثوں کا اعلان ہوا تو عضام اپنے پورے گروپ کے ساتھ علینہ کی طرف بڑھا جو اپنے والدین اور شوہر کے ساتھ بڑی شان سے تقریب میں موجود تھی۔ عظام بڑے پیار اور احترام سے علینہ کو کاندھوں سے تھام کر اسٹیج پر لے گیا اور ڈائس پر جاکر مائیک تھام لیا۔
’’معزز مہمانانِ گرامی! آج میں جس مقام پر ہوں، اس میں یقینا میرے والدین اور اساتذہ کا بھی ہاتھ ہے، لیکن میں آپ سب کو بتانا چاہوں گا کہ مجھے یہاں تک پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ میری استاد ، میری دوست ، میری پیاری بہن علینہ آپی کا ہے۔ پڑھ تو میں نے ویسے بھی جانا ہی تھا، لیکن میں جس ذہنی پس ماندگی کا شکار ہو رہا تھا، اس کے ساتھ میں ڈگری کا اہل تو ضرور ہو جاتا، مگر ذہنی اور دماغی صلاحیتوں کے ساتھ اس ڈگری کا حصول ممکن نہ ہوتا اور میری ڈگری ادھوری رہ جاتی ۔ آج اس مکمل ڈگری کا اہل میں صرف اپنی آپیکی وجہ سے ہوں۔
ساتھیو !جناح کا وارث صرف وہ ہی نہیں ہو سکتا جو دن رات محنت کرے، اپنا خون پسینہ ایک کرے ، ملک کو صاف کرے ، اینٹیں بنائے، کچرا چنے یا بڑے بڑے پل تعمیر کرے۔ سب اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، لیکن میرے نزدیک ’’جناح کی وارث‘‘ میری یہ آپی ہے جس نے پاکستان کے مستقبل کی تعمیر کی۔ نوجوان نسل کے ذہنوں کو ایک نئی جہت عطا کی ۔ نوجوان ہی تو اس ملک کا مستقبل ہیں۔ اگر وہ غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں تو دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اس وقت ضرورت ہے ذہنی اور دماغی پس ماندگی کو دور کر کے جدید ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی اور اس کے لیے ضرورت ہے علینہ آپی جیسے لوگوں کی جو صحیح معنوں میں ’’ جناح کی وارث‘‘ہیں۔‘‘
تالیوں کی گونج میں علینہ کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے ۔ مسٹر اور مسز احسن نے اشکبار آنکھوں سے اس رب کا شکر ادا کیا جس نے انہیں تین بیٹوں کے برابر ایک ایسی بیٹی عطا کی جس نے ان کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صدقہ — ماہ وش طالب

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!